متبادل راستہ

جمعرات 28 جنوری 2021

Zeeshan Yousafzai

ذیشان یوسفزئی

انسانی زندگی میں جتنے بھی معاملات چل رہے ہوتے ہیں اور اگر وہ یک دم کسی وجہ سے روک جاتی ہے تو اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے اس کا متبادل راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ اگر آپ کسی شاہراہ پر سفر کررہے ہوتے ہیں اور اچانک آپ کو پتہ چلے کہ آگے کسی کام کی وجہ سے سڑک بند ہے آپ سفر ترک نہیں کرتے بلکہ ادھر ایک بورڈ لگا ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا متبادل راستہ اور آپ اسی راستے پو جا کر اپنا سفر جاری کرتے ہیں۔

اگر انسانی جسم میں کوئی اعضاء خراب ہو تو ہم اس کو اسی حالت پر نہیں چھوڑتے بلکہ کوئی نہ کوئی حل نکالتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جب سے مہلک مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور ہر شعبہ زندگی کو بری طرح متاثرہ ہوچکی ہے وہاں پر تعلیم اور تعلیمی ادارے بھی بندہ پڑے ہیں لیکن دنیا نے اس کے لیے بھی متبادل نکالا ہے اور وہ ہے آن لائن ایجوکیشن سسٹم اسی نظام کے تحد جیسے اس کے نام سے ظاہر ہے کہ گھر بیٹھ کر طلباء اپنا تعلیم حاصل کرئینگے اور یوں ایک تیر سے دو شکار ہونگے ایک تو موذی مرض سے بچا جائیگا اور دوسری طرف تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہے گا۔

(جاری ہے)

اس تعلیمی نظام کے جتنے فوائد ہیں اتنے اس کے نقصانات بھی ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ طالبعلموں کا وقت ضائع ہوئے بغیر وہ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے سکے گے اور ساتھ میں حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کو بھی عمل پیرا کیا جائے گا اور کرونا وباء کے پھیلاؤ کو بھی روکا جائے گا۔ لیکن اس کے چند نقصانات بھی ہیں جو علم انسان مادرعلمی میں رہ کر سیکھتا ہے اور جو ماحول کا اثر ہوتا ہے اس سے طالب علم محروم ہوجاتا ہے دوسرا نقصان یہ ہے کہ لوگوں سے وقت کے ساتھ ساتھ امتحان دینے کا حس ختم ہوتا جارہا ہے لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں چونکہ یہ تو ہی ایک متبادل راستہ اور متبادل راستے میں ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

جہاں پوری دنیا ان مسائل کو حل کرنے میں لگی ہوئی ہے وہاں پر وطن عزیز میں قوم کا مستقبل سڑکوں پر ہے اور اپنا حق مانگ رہے ہیں کہ اگر ہمیں آن لائن پڑھایا گیاہے تو امتحان بھی آن لائن لیا جائے جو کہ درست مطالبہ ہے اور طلبا حق بجانب ہیں۔ لیکن یہاں سمجھ ایک بات کی نہیں آتی کہ انظامیہ کو کیا ہوا ہے یا تو انھوں نے ٹھان لے ہے کہ پاکستان کہ نظام تعلیم کو ابھی ہی ٹھیک کرنا ہے اور یا اب ان کی انا کا مسلہ بن چکا ہے۔

اور تو اور احتجاجی طلباء پر لاٹھی چارج بھی ہوتی رہی اور بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ  وہ طلباء جو اپنا حق مانگتے ان کا خون بھی بہایا گیا۔ اب ضروت اس امر کی ہے کہ اس صورت حال کا متبادل کیسے نکالا جائے سب سے پہلے انتظامیہ کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے اور ایک ہی تو امتحان ہے آن لائن لی کے بات ختم کردے اور جو کوشش تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے لیے اب کرہے ہیں بعد میں شروع کرے اور اگر خدانخواستہ حالات ٹھیک نہیں ہوتے اور ایک بار پھر آن لائن نظام تعلیم رائج کرنی پڑے تو طلباء میں وہ شعور بیدار کیا جائے تاکہ اتنی ہی اہمیت آن لائن ایجوکیشن کہ لیے ان کے دل میں ہوں جتنا آن کیمپس تعلیم کے لیے ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :