جنونیوں کے ہاتھوں بکھرتا بھارت

بدھ 30 دسمبر 2020

Zubair Bashir

زبیر بشیر

نئی دہلی میں جب سے نریندر مودی براجمان ہوئے ہیں کسی کے لئے بھی کوئی خیر کی خبر نہیں۔ ان کے دور استبدار میں تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات نہایت کشیدہ ہوچکے ہیں۔مودی نے "بدھی مان" کہلوانے کے چکر میں ملک میں کرونا کیسز کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ کروادی۔ اور "شکتی مان" کہلوانے کے چکر میں  پاکستان اور چین سے پٹنے کے بعد ملک میں اقلیتوں اور کمزور طبقات پر طاقت کے جوہر دکھائے۔

چھوٹے پڑوسی ممالک پر چڑھائی کی ناکام کوششیں کیں،ہر بار اور ہر جگہ سے منہ کی کھائی۔ پاکستان سے تو ان ازلوں کا بیر ہے لیکن چین جیسے پڑوسی ملک  جس کے ساتھ بھارت کے بہت سے مفادات  ہوئے ہیں  سے بھی تعلقات معمول پر لانے کا کوئی ارادہ اور نیت نظر نہیں آتی۔  اس  کے برعکس چینی قوم نہایت امن پسند ہے، چین کے نہ تو کوئی توسیع پسندانہ عزائم ہیں اور نہ ہی کبھی چین کی کوئی بھی قیادت پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات خراب کرنا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ سرحدی کشیدگی کے دوران بھارت پر واضح عسکری برتری ہونے کے باوجود چین نے امن اور دوستانہ تعلقات کے فروغ کی کوشش کی ہے۔
چین کے خیر سگالی  جذبات کے باوجود بھارت سے چین مخالف متعصبانہ آوازیں مسلسل سنائی دے رہی ہیں۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے مودی انتظامیہ صورت حال کی سنگینی کا ادراک نہیں کر رہی۔ بھارتی میڈیا بھی حکومتی زبان بولتا نطر آرہا ہے۔

حالیہ دنوں بھارتی میڈیا نے دعوی کیا کہ مودی  حکومت نے مختلف ائیر لائینز کو غیر رسمی طور پر آگاہ کیا ہے کہ وہ چینی شہریوں کو  اپنے ساتھ سفر نہ کروائیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ اقدام چین کی جانب سے کچھ بھارتی شہریوں کو چین میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر کیا گیا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے، چین نے وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے تقریباً سبھی ایسے ممالک جہاں وبائی صورت حال خطرناک ہے سے شہریوں کو غیرضروری سفر سے منع کر رکھا ہے تاکہ وبا کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔

حتیٰ کہ چین میں ملازمت کرنے والے بہت سے بھارتی شہریوں کو ایک سال سے ان کے گھروں میں ہونے کے باوجود مکمل تنخواہیں اور مراعات دی جارہی ہیں۔ جب کہ دوسری طرف بہت سے بھارتی قوم پرست رہنماؤں نے صورت حال کا ادارک کئے بغیر مودی حکومت کے ایک اور انتہا پسند اقدام کی شان میں ڈنکے بجانا شروع  کر دئیے ہیں۔غیر جانبدار ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت کے حالیہ اقدامات وائرس پر قابو پانے میں حکومتی ناکامی کو چھپانے اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹھانے کے لئے ہیں۔

 
مودی آج کل امریکہ کا بغل بچہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہر اس میدان میں بنا سوچے سمجھے کود پڑتے ہیں جس سے امریکہ خوش ہوتا ہو۔ موجودہ امریکی انتظامیہ کو خوش کرنے کے لئے مودی چین مخالف ہر اقدام کرنے کے لئے فوری طور پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس دوڑ میں بھارت کے نام نہاد دانشور بھی پیش پیش ہیں جو کبھی چین کو عالمی خطرہ قرار دیتے ہیں، کبھی چین کو وبا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

یہاں تک کہ کچھ تو چین کی جانب سے آبی ذخائر کی تعمیر کو "آبی جارحیت" قرار دے رہے ہیں۔ سال 2020 میں تو بھارت کے سر پر چین مخالفت کا بخار شدید انداز میں چڑھا رہا جو محض ٹرمپ کی خوشنودی کے حصول کے لئے تھا۔ ٹرمپ نے جاتے جاتے اس کا انعام بھارت کو دینے کی کوشش بھی کی۔
بھارت میں انتہا پسند ہندو نام نہاد طاقت کے جنون میں پاکستان، نیپال، سری لنکا اور چین سمیت سبھی پڑوسیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کشیدہ کرچکے ہیں۔

اقلیتوں کو بری طرح دبایا جارہاہے، کسانوں اور مزدوروں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ بھارت سے بلند ہوتی ہوئی آوازوں سے شائستگی اور شستگی رخصت ہو چکی ہے۔ نام نہاد سیکولرازم دفن ہوچکا ہے۔ وہاں سے مشرق، مغرب، شمال اور جنوب میں جانے والی ہواؤں میں تعصب اور نفرت کی شدید بو موجود ہے۔
 چین کی جانب سے بار بار درگز کے باجود چین مخالف بیانیے میں بھارت بہت آگے بڑھ چکا ہے۔

جنونی ہندو گلوان میں مارے گئے بھارتی فوجیوں کے خراج کے لئے چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بات کرتے ہیں۔ یہ ڈھیٹ جنونی سائنسی نظریات کی نفی کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت سے اپیل کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کووڈ-19 کو چائنا وائرس کا نام دیا جائے۔ جنونی بھارتیوں کا چین مخالف بیانیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ چین کی ترقی سے خوف ذہ ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ چین تمام حوالے سے بھارت سے کہیں مضبوط اور طاقتور ملک ہے۔

یہ احساس بھارت میں بھی موجود ہے جس نے انتہا پسند مذہبی جنونیوں کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا ہے۔ اس کا اظہار دائیں بازو کے  بھارتی ذرائع ابلاغ  کے رویوں سے ہورہا ہے۔ منفی جذبات کے زیراثر شخص بسا اوقات اس شاخ کو کاٹنے لگتا ہے جس پر وہ خود بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔ اسی سوچ میں مبتلا بھارتی حکومت معاشی مسائل کو سکیورٹی معاملات کے ساتھ الجھا دیا ہے۔ بھارت اپنی ناقص حکمرانی کا چھپانے کے لئے چین کے ساتھ وابستہ ترقیاتی مواقع کو تیزی سے گنوا رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :