آزاد کشمیر کا بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے،حکومت نے دو سالوں میں دگنے بجٹ کے باوجود کوئی نیا پراجیکٹ شروع نہیں کیا، چودھری محمدیٰسین

حکومت کے پاس بجٹ کو درست انداز میں خرچ کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، پاکستان کی طرح آزادکشمیر میں بھی 1985سے احتساب شروع کیاجائے، قائد حزب اختلاف آزاد کشمیر

ہفتہ 26 مئی 2018 17:31

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 مئی2018ء) آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری محمدیٰسین نے آزادکشمیر کے بجٹ کو الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے دو سالوں میں دگنے بجٹ کے باوجود کوئی ایک بھی نیا پراجیکٹ شروع نہیں کیا، یہ اس حکومت کی بڑی نااہلی ہے، ان کے پاس بجٹ کو درست انداز میں خرچ کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرح آزادکشمیر میں بھی 1985سے احتساب شروع کیاجائے۔

بوستان کمیشن کی رپورٹ سے احتساب شروع کیاجائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا،1985ء سے ہی آزادکشمیر میں کرپشن اور برادری ازم کو فروغ حاصل ہوا۔ وہ آج یہاں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے بجٹ سیشن سے خطاب کررہے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر کی حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے ، جو کہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں دگنا ہے لیکن اس کے باوجود موجودہ بجٹ میں حکومت نے کسی میگا پراجیکٹس کیلئے رقم نہیں رکھی، بجلی کا بحران شدیدترین ہورہا ہے لیکن اس حکومت نے ہمارے جانے کے بعد ایک میگا واٹ بھی بجلی اپنے ذرائع سے پیدا نہیں کرسکی،جاگراں فیز 1جو کہ ہم نے 1990 میں مکمل کیاتھا، اور ہم نے اپنے دور حکومت میں 3سال قبل جاگراں فیز 2کی منظوری دی تھی لیکن حکومت نے نہ تو جاگراں فیز2پر نہ تو کام شروع کرواسکی اور نہ ہی دوسری کسی بھی جگہ ہائیڈل کا کوئی منصوبہ کروایاگیا، انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا جارہا ہے، ہماری حکومت کچھ اور عرصہ رہتی تو نیلم جہلم کوہالہ ہائیڈل پراجیکٹ سیمت تمام ہائیڈل، پراجیکٹ کے معاہدے ہو جاتے ، ہم نے ہمیشہ قومی وقار اور مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کام کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے دور حکومت میں یونیورسٹیاں ،میڈیکل کالجز سمیت سکولوں اور کالجوں کی سینکڑوں عمارات کو نہایت کم بجٹ میں مکمل کروایا، اس حکومت کے پاس دگنا بجٹ ہونے کے باوجود تعلیم ، صحت اور رسل ورسائل کیلئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کرسکی، انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمران ان کاموں کی بجائے کئی اور کاموں میں لگے ہوئے ہیں، کشمیر ہاؤس پر بلڈوزر چڑھانے کااعلان کرنے والے کشمیر ہاؤس سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں ان کا بس چلے تو یہ اپنادارالحکومت کشمیر ہاؤس کو ہی بنالیں، انہوں نے کہا کہ حکومت نے دو سالوں میں کون سا بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع کروایا ہے، اور تعلیمی میدان میں آج بھی بچے کھلے آسمانوں تلے تعلیم حاصل کررہے ہیں، سیاحت آزادکشمیر کا مستقبل ہے ، ہم نے اپنے دور میں اس شعبے کی ترقی کیلئے آسان شرائط پر قرضوں کی سہولت فراہم کی اور موجودہ حکومت نے سیاحت کیلئے بہت کم رقم رکھی ہے، حالیہ نیلم کا واقعہ حکمرانوں کیلئے شرم کامقام ہے، کہ وہاں پر ایک پل تعمیر نہیں کیاجاسکا، اور درجن بھر بچے دریا کی نہروں کی نظر ہوئے، یہ اس حکومت کی ناکامی کی بڑی مثال ہے،انہوں نے کہا کہ حکومت شفاف انداز میں ٹینڈر لگانے کی بجائے کمیشن پر ٹھیکے دینے کا سلسلہ شروع کردیاگیا ہے، محکمہ لوکل گورنمنٹ کے ذریعے کروڑوں روپے کے فرضی منصوبے دیئے گئے ، لوکل گورنمنٹ کے سابق کرپٹ سیکرٹری نے پائپوں کی خریداری میں سات کروڑ روپے کی خرد برد کی، اس کو کسی نے نہیں پوچھا، آزادکشمیر میں گڈ گورننس کا پول آڈیٹر جنرل آزادجموںوکشمیر نے کھول دیا، ایک سال کے دوران سات ارب 73کروڑ کی کرپشن ہوئی، 23محکموں میں کھل کر مالی بدعنوانیاں کی گئیں، لیکن اس پر کوئی تحقیقات نہیں کروائی گئیں، انہوں نے کہاکہ گڈ گورننس کے نام پر سرکاری اداروں میں خلاف میرٹ تقرری کی گئیں، علاقوں اور برادریوں کی بنیاد پر نوکریاں دی گئیں پیپلزپارٹی کے دور میں بھرتی ہونے والے ملازموں کو فارغ کیاگیا، محکمہ تعلیم، برقیات اور لوکل گورنمنٹ کو سیاسی اکھاڑہ بنادیاگیا، پبلک سروس کمیشن کی موجودگی میں 500ایڈہاک تقرریاں کی گئیں، این ٹی ایس ہوامیں اڑادیاگیا اور ایڈہاک تقرریوں کا سلسلہ عروج پر ہے، ہمارے دور میں قائم کئے گئے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کو سیاست کی نظر کردیاگیا، انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں آزادکشمیر میں سکیورٹی کے حوالے سے بہت سے چینلنجز ہیں لیکن اس حوالے سے حکومت نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے آزادکشمیر پولیس کی نفری میں نہ تو اضافہ کیا گیا اور نہ ہی جدید تقاضوں سے اسے ہم آہنگ کیاگیا، انہوں نے کہاکہ حکومت محکمہ برقیات کو چلانے کیلئے استعدادنہیں رکھتی، اور محکمہ برقیات واپڈا کو دینے کی تیاری کی جارہی ہے ، جس سے مزید ہزاروں افراد بے روزگار ہوجائیںگے، انہوں نے کہا کہ اکلاس کے محکمہ کوختم کرکے 485ملازمین کو فارٖغ کردیاگیا اور اکلاس کے اثاثہ جات کو اونے پونے داموں فروخت کیاجارہاہے، انہوں نے کہاکہ ہم پر تنقید کرنیوالے آج ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں اخراجات پر کیوں خاموش ہیں ، سیکرٹ فنڈز کن لوگوں کودیاجارہاہے، آزادکشمیر میں کرپشن ،لاقانونیت کا دور دورہ ہے، عام آدمی پس کر رہ گیاہے، انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج پیپلزپارٹی کے دور میں تیار ہوا لیکن کریڈٹ کے چکر میں حکومت بھنور میں پھنس چکی ہے یہاں سے واپسی مشکل ہے، بااختیار بننے کے چکر میں آزادکشمیر کے عوام موجودہ اختیارات سے بھی نہ ہاتھ دھوبیٹھیں، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم جب قائد حزب اختلاف کی حیثیت میں ایوان میں خطاب کیاتھا توانہوں نے بہت سے سرکاری افسران کو کوہالہ پل پر پھانسی دینے کے اعلانات کئے تھے لیکن آج وہ تمام کرپٹ بیوروکریٹ وزیراعظم کی ناک کا بال ہیں، گڈ گورننس کے نام پر ایسی گورننس دی گئی کہ آزادکشمیر کے عوام نے اس سے بدترین گورننس نہیں دیکھی، جس حکومت کا ڈپٹی کمشنر اور ایس پی 22دن اپنے دفاتر میں نہ بیٹھ سکیں وہ کیارٹ قائم کرینگے، سرعام قتل ہورہے ہیں اور حکومتی ایماء پر قاتلوں کو انتنظامیہ پروٹوکول دے رہی ہے ، آزادکشمیر کی قیمتوں زمینوں پر قبضے ہورہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بھی اس حکومت نے اسمبلی فلور پر ہمارے ساتھ جو وعدے اور اعلانات کئے تھے، قائد ایوان نے اپوزیشن چیمبر میں جو کمٹمنٹ کی تھی وہ پوری نہیں کی ہم نے اس وقت بھی احتجاج ختم کیاتھا، لیکن بجٹ کی منظوری کے بعد وزیراعظم اپنے تمام وعدوں سے مکر گئے،انہوں نے کہا کہ ہمیں احتجاج کا کوئی شوق نہیں ہوتا لیکن پچھلے دو سالوں میںاپوزیشن کے حلقوں میں ہم سے ہارے ہوئے افراد کو کروڑوں روپے کے فنڈز دیے گئے، اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگادیاگیا، اور ہمیں احتجاج پر مجبور کیاگیا، انہوں نے کہا کہ یہ اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے کہ ہم اپوزیشن کے 6ممبران اسمبلی جن کو ترقیاتی فنڈز دینے ہوتے ہیں ، ان کو بھی نہیں دیئے جارہے جبکہ ہم نے اپنے دور میں اپوزیشن کو اس کا پورا حق دیا، انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیاگیا، شاہ نواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو شہید کیاگیا، آصف زرداری کو 10سال قید میں رکھا گیا ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو ایک عدالت سے دوسری عدالت تک پیادہ چلا یاگیا، لیکن بھٹو خاندان نے کبھی بھی مملکت خدادا پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر مردحر آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر پاکستان کو یکجا کیا، انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے ایک سال کے دوران ہی پاکستان کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کردی ، ان کے بیانات سے پاکستان کو دہشتگرد قرار دینے کی کوشش کرنے والی قوتوں کو موقع ملا ہے، اب عوان کو پتہ چل چکا ہے کہ پاکستان کے وفادار کون ہے اور پاکستان کے ساتھ بے وفائی کرنے والے کون ہیں، انہوں نے کہا کہ جموںوکشمیر کونسل کے ختم کرنے والے در حقیقت آزادکشمیر کی اصل شناخت ختم کرنے کے درپے ہیں، پیپلزپارٹی نے جو آئینی پیکج دیا تھا اس میں سب کی مشاورت شامل تھی، اب موجودہ حکومت نیا پینڈورہ باکس کھول رہی ہے، جو کہ خطرناک کھیل ہے، انہوں نے کہا کہ ایکٹ 74کی وجہ سے ہی ہم اس ایوان میں بیٹھے ہیں ، انہوں نے کہا کہ کشمیر کونسل کے خاتمے سے ایف بی آر کا دائرہ کار آزادکشمیر تک بڑھ جائیگا، اتنی زیادہ ایکسرسائز کرنے کی بجائے وزیراعظم آزادکشمیر ، سابق صدر حیات خان مرحوم کے ایک نوٹیفکیشن کو منسوخ کردیتی تو معاملات درست ہوجاتے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں دس ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تھا جو آخری سال میں 12ارب تک پہنچا تھا، ہم پر الزامات لگانے والوں کو بھی اس بات کاعلم ہے کہ جب ہم اپنی مدت پوری کرکے گئے تو ریاست میں تعلیمی انقلاب کی جانب اہم اقدامات اٹھاچکے تھے، پیپلزپارٹی کی حکومت کو یہ اعزازحاصل ہوا کہ 65سال بعد بے نظیربھٹو میڈیکل یونیورسٹی اور دو میڈیکل کالجز قائم کئے ، آج ہمارے بچے گھر بیٹھے اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیںپانچ یونیورسٹیاں قائم کیں، پہلی بار آزادکشمیر میں ویمن یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایاگیا، ہم نے سیاحت کی ترقی کیلئے جو سہولتیں فراہم کیں، اس سال آزادکشمیر ساڑھے 15لاکھ سیاح آئے لیکن موجودہ حکومت نے سیاحت کیلئے بہت کم بجٹ رکھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اکلاس کے پلاٹ کو فروخت کرناچاہتی ہے، حکومت کہتی ہے کہ یہ پلاٹ 3ارب کا ہے میں اسی ایوان میں حکومت سے کہتا ہوں کہ حکومت میرے ساتھ معاہدہ کرے میں تین ارب دینے کو تیار ہوں، لیکن یہ پلاٹ اونے پونے داموں فروخت کیاجارہاہے۔