تاریخی نوعیت کی حامل سینٹرل جیل کراچی کی عمارت کو تعمیر ہوئے 100برس سے زائدکا عرصہ بیت گیا

سینٹرل جیل 50ایکڑ رقبے پر 3لاکھ 57ہزار روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی،6ستمبر1906 سے اس جیل نے کام شروع کردیا تھا ، رپورٹ سینٹرل جیل میں 2 ہزار 400 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ لیکن اس وقت جیل میں 6 ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں، سابق آئی جی جیل نصرت منگن 1میں اس جیل کی چار دیواری کے اندر مولانامحمدعلی جوہراور مولاناشوکت علی جوہرجیسی نامی گرامی ہستیاں بھی باعث رونق رہ چکی ہیں،رپورٹ

پیر 6 اگست 2018 16:30

تاریخی نوعیت کی حامل سینٹرل جیل کراچی کی عمارت کو تعمیر ہوئے 100برس سے ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 اگست2018ء) تاریخی نوعیت کی حامل سینٹرل جیل کراچی کی عمارت کو تعمیر ہوئے 100برس سے زائدکا عرصہ بیت گیا۔کراچی کا پہلا جیل خانہ 1858 میں شہر کے گنجان آباد علاقے رنچھوڑ لا ئن میں پرنس اسٹریٹ موجودہ چاند بی بی روڈ پرکے ایم سی بلڈنگ کے مقام پر ساڑھی10 ایکڑ رقبے پر1 لاکھ 16ہزار 400 روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا تھا، اس جیل خانہ میں سٹی مجسٹریٹ اور پولیس کی عدالتیں قائم تھیں تاہم جیل خانہ شہر کے وسط میں آنے کی وجہ سے آبادی کے درمیان قیدیوں کو رکھنا مناسب نہیں تھا۔

عروس البلاد کراچی کے مصنف سید عارف شاہ گیلانی علیگ کے مطابق1903میں شہری آبادی سے چار میل مشرق میں کنٹری کلب روڈ موجودہ یونیورسٹی روڈ اور جمشید روڈ کے سنگم پر نیا موجودہ سینٹرل جیل تعمیر کی گئی تھی، مرکزی جیل 50ایکڑ رقبے پر 3لاکھ 57ہزار روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی۔

(جاری ہے)

6ستمبر1906 سے اس جیل نے کام شروع کردیا تھا کراچی تاریخ کے آئینہ میں کے مصنف محمد عثمان دموہی کے مطابق اس نئے جیل خانے کا پہلا سپرنٹنڈنٹ سالومن نامی یہودی تھا، سینٹرل جیل کراچی کا مجموعی رقبہ تقریباً 45 ایکڑ ہے 1906 میں کل 601 قیدیوں کی گنجائش رکھی گئی تھی قیام پاکستان کے بعد 1951میں قیدیوں کی گنجائش 901 کردی گئی تھی۔

1961تک 1900قیدیوں کی گنجائش کردی گئی تھی،سابق آئی جی جیل خانہ جات نصرت منگن کے مطابق سینٹرل جیل میں 2 ہزار 400 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ لیکن اس وقت جیل میں 6 ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں،1921میں اس جیل کی چار دیواری کے اندر علی برادران جیسی نامی گرامی ہستیاں بھی باعث رونق رہ چکی ہیں۔مولانا محمد علی جوہر نے افواج برطانیہ میں مسلمانوں کی بھرتی کو خلاف شرع قرارد دیتے ہوئے ترک موالات اور عدم تعاون کی قرارداد منظور کرائی تھیں اس جرم میں حکومت برطانیہ نے مولانا محمد علی جوہراور ان کے ساتھیوں پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا مقدمہ میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،جگت گروبھٹی کرشنا تیرتھی عرف شنکر اچاریہ ،مولانا محمد حسین مدنی، مولانا نثار احمد کانپوری، ڈاکٹر سیف الدین کچیلو، پیر غلام مجدد سرہندی شامل تھے ان تمام افراد کو کراچی کے پولیس سپرٹنڈنٹ آر آر بو ایڈ اور ڈپٹی سپرٹنڈنٹ سید زمان شاہ کی اطلاع پر مقدمہ قائم کرکے گرفتار کیا گیا تھا اور شہر کے پارسی مجسٹریٹ ایس ایس ٹالانی کی عدالت میں پہلی مرتبہ 26 ستمبر1921میں پیش کیا گیا تھا۔

مجسٹریٹ نے 22اکتوبر کومقدمہ سیشن کورٹ میں بھیج دیا تھا مقدمہ اس وقت سندھ کے جوڈیشنل کمشنر بی سی کنیڈی کی عدالت میں شروع ہوا تھا، کنیڈی نے صرف 5روز کے اندر یکم نومبر 1921 کو اپنا فیصلہ سنایا تھا اور تعزیرات ہند کی دفعہ 505کے تحت ملزمان کو2،2سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی اور واحد ہندو ملزم شنکر اچاریہ کو بری کردیا گیا تھا خلافت تحریک کے رہنمائوں علی برداران نے جیل کے جس وارڈ میں اسیری کے ایام گزارے اس وارڈ کواسی حالت میں محفوظ رکھا گیا ہے یہاں اب سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔

سینٹرل جیل میں اسیری کے ایام گذارنے والی قدآور شخصیات میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو،بیگم نصرت بھٹو، چوہدری ظہور الہی،شیر باز مزاری،عبدالحمید جتوئی،مولانا شاہ احمد نورانی، ممتاز بھٹو، ایم کیو ایم کے بانی قائد الطاف حسین ،عامر خان، ڈاکٹر فاروق ستار، سرداراختر مینگل، ایڈمرل منصور الحق ،سابق چیف سیکرٹری احمد صادق، مئیر کراچی وسیم اختر،پولیس آفیسر چوہدری اسلم ،عرفان بہادر، ناصر الحسن، ڈی جی اینٹلیجنس بیورو مسعود خٹک، سنیٹر اسلام الدین شیخ، خالد بن ولید ،اقبال قریشی، یونس خان ، سابق صوبائی وزیرشرجیل انعام میمن ، قادر پٹیل،انیس قائم خانی ،سابق صوبائی وزیرعبدالرئوف صدیقی ،صولت مرزا مہران بنک کے یونس حبیب ،صمد دادابھائی،مضاربہ اسکینڈل، تاج کمپنی الائنس موٹرزکے ڈائریکٹران، کراچی بلڈنگ کنٹرول کے افسر اخلاق احمد، میر مرتضی بھٹو قتل میں نامزد پولیس افسران واجد علی درانی، شاہد حیات، رائے طاہر، آغا جمیل،ذیشان کاظمی سمیت ان گنت نامور شخصیات اسیری کے دن کاٹ چکے ہیں جبکہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری احمد عمر سعید شیخ ،لیاری گینگ وار کے ملزمان رحمان ڈکیت اورعزیر بلوچ بھی یہاں قید رہے ہیں۔

اسی طرح سینٹرل جیل کراچی میں 26 جنوری2005 کو کراچی میں انڈر ورلڈ کے سرغنہ سمجھے جانے والے شعیب خان پراسرار طور پر جیل حکام کی تحویل میں ہلاک ہوگئے تھے ان کے خلاف قتل اور دیگر سنگین جرائم کے کئی مقدمات درج تھے وہ فلمساز اسلم ناتھا اور انڈر ورلڈ کے ایک اور اہم رکن ابراہیم عرف بھولو کے قتل میں بھی ملوث قرار دیئے گئے تھے جبکہ ملیر ڈوپلمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر بشارت زیدی اور صمد دادا بھائی جیل میں اسیری کے دوران پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے تھے سینٹرل جیل میں ہونے والی آتشزدگی کے باعث جیل کا پرانا ریکارڈ ضائع ہوچکا ہے جبکہ کے موجودہ ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ اسیری کے دن گذارنے والوں میں سابق صدر آصف علی زرداری اور مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد شامل ہیں۔

سینٹرل جیل کراچی میں 15 اگست 2008 کو شام ساڑھے 5 بجے ہنگامے بھڑک اٹھے جس کے نتیجے میں 4 قیدی مارے گئے اس وقت جیل سپرنٹینڈنٹ قمر رضا زیدی تھے جبکہ آئی جی جیل خانہ جات سندھ پولیس سے یامین خان تھے۔اکتوبر2014کوکالعدم تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے سینٹرل جیل کے قریب غوثیہ کالونی کے ایک مکان میں سرنگ کھودی سرنگ کے ذریعے جیل میں قید اتنہائی خطرناک دہشت گردوں کی بیرک تک پہنچ کر انھیں چھڑوانے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا لیکن منصوبے کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ناکام بنادیا تھا تاہم 13جون2017 کو سینٹرل جیل کراچی کے جوڈیشل کمپلیکس سے کالعدم تنظیم کے اسیرملزمان شیخ محمد ممتاز عرف فرعون عرف شیرخان عرف شہزاد عرف راہی اور محمد احمد خان عرف منا فرار ہوگئے تھے مفرور قیدی شیخ ممتاز پر24اور محمد احمد پر دہشت گردی کے 5 مقدمات درج تھے۔

فرار کا واقعہ 13 جون منگل کے روز پیش آیا تھا جس کا انکشاف اگلے روز بدھ کو ہوا تھا اس واقعہ میں جیل سپرنٹنڈنٹ سمیت 12اہلکار و افسران کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا گیاتھا جبکہ قیدیوں کو جیل مینوئل کے تحت دی گئی سہولیات بھی واپس لے لی گئی ہیں گذشتہ سال انتہائی خطرناک ملزمان کو لاڑکانہ، سکھر جبکہ کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے ہائی پروفائل قیدیوں کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا جیل میں مختلف لسانی و سیاسی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کے علیحدہ علیحدہ وارڈ ہیں جبکہ ہم خیال قیدیوں نے اپنے علیحدہ گروپ بنا رکھے ہیں جیل میں مساجد و امام بارگاہ قائم ہے جہان قیدی اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرتے ہیں عید میلاد النبی کی محافل اور محرم الحرام میں مجالس بھی ہوتی ہے سینٹرل جیل کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے متعدد بار آپریشن کرچکے ہیں جس کے دوران قیدیوں سے لاکھوں روپے برآمد ہوئے جبکہ بڑی تعداد میں ممنوعہ سامان بھی برآمد ہوچکا ہے گذشتہ سال کالعدم تنظیموں کی جانب سے جیل پر حملے کی دھمکیوں کے بعد سینٹرل جیل کے گرد یونیورسٹی روڈ کی جانب بم پروف دیوار بھی تعمیر کی گئی ہے۔

دیوار کی تعمیر پر کروڑوں روپے لاگت آئی ہے ، جیل کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے بیرونی دیواریں25 سے 30 فٹ بلند بنائی گئی ہیں۔ جیل کی بیرونی حفاظت پولیس ،رینجرز کرتی ہے جبکہ اندرونی حفاظت جیل پولیس کی ذمے داری ہے۔کراچی سینٹل جیل میں قائم وومن جیل میں149 خواتین اسیر ہیں ان خواتین قیدیوں میں48مجرم، 3سزائے موت اور198ایسی قیدی خواتین ہیں جن کے مقدمات عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔

اسی طرح کراچی بچہ جیل میں207 بچے اسیری کے ایام گذارہے ہیں جن میں سے 144سزائے موت کے قیدی ہیں۔ یہاں غیرملکی قیدیوں کی تعداد سندھ کی دیگر جیلوں کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے اور یہاں پاکستان کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ہندوستانی ماہی گیروں کو بھی رکھا جاتا ہے۔سینٹرل جیل کراچی میں قرآن کی تعلیم سے قیدیوں کو آراستہ کرنے کے لئے جمعیت تعلیم القرآن کے تحت مدرارس قائم کیئے گئے ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زردی جن دنوں اسیری کے ایام گذاررہے تھے اس بیرک میں ایڈمرل منصورالحق سمیت مرتضی بھٹو قتل کیس میں گرفتار پولیس افسران بھی رہا کرتے تھے اسی طرح اسیری کے دوران ممتاز روحانی شخصیت فقیر ممتاز منگی قیدیوں کو قرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ دورد شریف کی محافل منعقد کرتے تھے بعدازان سابق وزیراعلی ارباب رحیم نے جیل میں قیدیوں کے لئے ایک مرکزی جامع مسجد مدینہ تعمیر کروائی تھی جس کے بعد درس اور روحانی محافل کا اہتمام مسجد میں کیا جاتا تھاتاہم قیدیوں کے فرار کے واقعہ کے بعد جیل میں چلنے والے مدارس بند کردیئے گئے اور محافل کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔

2007 میں سینٹرل جیل میں فائن آرٹس اسکول کا آغاز کیاگیا تھا معروف مصور جیل میں قیدیوں کو فن مصوری کے بارے میں سیکھایا کرتے تھے جبکہ2013 میں سینٹرل جیل میں قیدیوں کی بنائی ہوئی تصاویر کی نمائش بھی منعقد کی گئی تھی۔ایک شخص عمران جو قتل کے الزام میں قید کاٹ رہا تھا اس نے فن مصوری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد برطانیہ کے ایک آرٹ انسٹیٹیوٹ کی اسکالر شپ بھی حاصل کی تھی اسی طرح جیل میں گاڑیوں کی مینٹنس کے لئے آٹو ورکشاپ قائم تھی،جہان قیدی کام کرتے تھے اس تاریخی نوعیت کے حامل سینٹرل جیل کا دورہ کرنے والوں میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار،سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری،اعلی عدلیہ کے جج صاحبان، کئی گورنر اوروزرائے اعلی شامل ہیں۔

ماضی میں اس جیل خانہ میں قید خانہ کا تصور یکسر تبدیل ہو گیا تھا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عام آدمی اور بے وسیلہ مجرم کے لئے نہ سہی مگر کرپشن کے الزام میں دھرلئے جانے والے سیاسی با اثر قیدیوں فرقہ وارانہ اور لسانی کشمکش میں جیل کی دہلیز پار کرنے والوں کے لئے جیل سہولتوں کے لحاظ سے دوسرا گھر بن کر رہ گیا ہے جس کی مثال کراچی میں قتل ہونے والے شاہ زیب قتل کے مقدمے میں گرفتار شاہ رخ جتوئی کی ہے جبکہ ماضی میں بااثر ملزمان کی بڑی تعداد جیل انتظامیہ کی ملی بھگت سے پیرول کی آڑ میں اور بیماری کے بہانے اسپتالوں اور گھروں پر اپنی اسیری کے ایام گذارتے رہے ہیں