پی ٹی ایم حد عبور نہ کرے کہ ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے پڑیں ،ْ ترجمان پاک فوج

دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آرہی ہے ،ْ وقت قریب ہے ہم مکمل امن کی طرف چلیں گے ،ْاگلے سال پاک افغان بارڈر پر خاردار تار لگانے کا کام مکمل ہوجائیگا،صورتحال میں مزید بہتری آئیگی ،ْڈی جی آئی ایس پی آر لاپتہ افراد سے متعلق 2 جگہوں پر شکایات موصول ہوئیں ،ْ مجموعی طورپر 7 ہزار کیسز آئے ،ْتقریباً 4 ہزار کیسز حل ہوچکے ،ْکرتارپور راہداری صرف ون وے ہوگی ،ْراستے پر خاردار تاریں لگائی جائیں گی ،ْبھارت ہمیں ایسے ہی برداشت کرے جیسے ہیں ،ْہم مسلمان ریاست ہیں، بھارتی آرمی چیف ہمیں نہ بتائیں ہمیں کیسے بننا ہی ہم ڈٹ کے کھڑے ہیں ،ْ بھارت جارحیت کرے گا تو اس کا جواب دیں گے ،ْرواں برس کنٹرول لائن پر سیز فائر کی 2593 خلاف ورزیاں ہوئیں، 55 شہری شہید ،ْ 300 زخمی ہوئے ،ْمیجر جنرل آصف غفور افغانستان میں جنگ میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی جتنی پاکستان نے حاصل کی ،ْامریکہ خواہش کر رہا ہے کسی طرح سے مذاکرات ہوجائیں ،ْجتنا کردار ادا کرسکتے ہیں کریں گے ،ْ 70 سال گزر گئے ،ْ اب بھی عوام کو بتا رہے ہم نازک دور سے گزر ہے ہیں ،ْ یہ نازک دور کیوں آئے اور اس کا ذمہ دار کون ہی ہم ماضی میں بیٹھے رہے تو آگے نہیں جاسکتے ،ْہم خود کو ٹھیک کریں گے تو آگے کچھ ہوگا ،ْکوئی شک نہیں کہ کسی اور کی جنگ دوبارہ نہیں لڑیں گے،پاک فوج کا تعلق ایک پارٹی ،ْبندے یا ایک صوبے سے نہیں ،وزیر اعظم کی پوری گفتگو کو سننا ہوگا ،میڈیا صرف چھ مہینے کیلئے پاکستان کی ترقی دکھائے، بلوچستان صوبے میں امن وامان کی صورتحال ماضی سے بہتر ہے ،ْملک کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنا رہے ہیں، ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں آئین کے مطابق قانون کی حکمرانی ہو ،ْ میڈیا کو بریفنگ

جمعرات 6 دسمبر 2018 17:31

پی ٹی ایم حد عبور نہ کرے کہ ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے اقدامات ..
راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 دسمبر2018ء) پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسی حد عبور نہ کرے کہ پھر ریاست کو اپنی رِٹ قائم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے پڑیں ،ْ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آرہی ہے ،ْ وقت قریب ہے کہ ہم مکمل امن کی طرف چلیں گے ،ْاگلے سال پاک افغان بارڈر پر خاردار تار لگانے کا کام مکمل ہوجائے گا، جس سے صورتحال میں مزید بہتری آئیگی ،ْلاپتہ افراد سے معلق 2 جگہوں پر شکایات موصول ہوئیں ،ْ مجموعی طورپر 7 ہزار کیسز آئے ،ْتقریباً 4 ہزار کیسز حل ہوچکے ہیں ،ْکرتارپور راہداری صرف ون وے ہوگی، بھارت سے سکھ یاتری آئیں گے اور واپس چلے جائیں گے، کرتارپور راستے پر خاردار تاریں لگائی جائیں گی ،ْبھارت ہمیں ایسے ہی برداشت کرے جیسے ہیں ،ْہم مسلمان ریاست ہیں، بھارتی آرمی چیف ہمیں نہ بتائیں ہمیں کیسے بننا ہی ہم ڈٹ کے کھڑے ہیں ،ْ اگر بھارت جارحیت کرے گا تو اس کا جواب دیں گے ،ْرواں برس کنٹرول لائن پر سیز فائر کی 2593 خلاف ورزیاں ہوئیں، جن کے نتیجے میں 55 شہری شہید اور 300 زخمی ہوئے ،ْافغانستان میں جنگ میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی جتنی پاکستان نے حاصل کی ،ْامریکہ خواہش کر رہا ہے کہ کسی طرح سے مذاکرات ہوجائیں ،ْجتنا کردار ادا کرسکتے ہیں کریں گے ،ْ 70 سال گزر گئے ،ْ اب بھی عوام کو بتا رہے کہ ہم نازک دور سے گزر ہے ہیں ،ْ یہ نازک دور کیوں آئے اور اس کا ذمہ دار کون ہی ہم ماضی میں بیٹھے رہے تو آگے نہیں جاسکتے ،ْہم خود کو ٹھیک کریں گے تو آگے کچھ ہوگا ،ْکوئی شک نہیں کہ کسی اور کی جنگ دوبارہ نہیں لڑیں گے،پاک فوج کا تعلق ایک پارٹی ،ْبندے یا ایک صوبے سے نہیں ،ْوزیر اعظم کی پوری گفتگو کو سننا ہوگا ،ْمیڈیا صرف چھ مہینے کیلئے پاکستان کی ترقی دکھائے ،ْبلوچستان صوبے میں امن وامان کی صورتحال ماضی سے بہتر ہے ،ْملک کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنا رہے ہیں، ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں آئین کے مطابق قانون کی حکمرانی ہو ۔

(جاری ہے)

جمعرات کو یہاں میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آرہی ہے اور وقت قریب ہے کہ ہم مکمل امن کی طرف چلیں گے۔آپریشن رد الفساد کے دوران ملک بھر میں کی گئی کارروائیوں کے اعدادشمار بتاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ملک بھر میں آپریشن رد الفساد کے تحت 44 بڑے آپریشن کیے گئے جس کے دوران ملک سے 32 ہزار سے زائد ہتھیار ریکور کیے گئے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت کمی واقع ہوئی ہے اور وہاں فراری ہتھیار ڈال رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ افواج پاکستان کی زیادہ تر توجہ بلوچستان کی جانب ہے تاکہ وہاں صورتحال بہتر ہو۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ گذشتہ چند سالوں میں کراچی میں امن وامان کی صورتحال میں بہت بہتری واقع ہوئی ہے جس کا کریڈٹ پاکستان رینجرز سندھ کو جاتا ہے جس نے جانفشانی سے کام کیا ہے اور اس شہر کی روشنیاں واپس لوٹائی ہیں جبکہ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق کراچی ایک زمانے میں جرائم کی شرح کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر تھا لیکن اب یہاں صورتحال بہت بہتر ہے، شہر میں دہشت گردی کے واقعات میں 99 فیصد جبکہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں 93 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔پی ٹی ایم سے متعلق گفتگو انہوں نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ والوں کے صرف 3 مطالبات تھے، چیک پوسٹس میں کمی، مائنز کی کلیئرنس اور لاپتہ افراد کی بازیابی، یہ وہ مطالبات ہیں جو ریاست کی ذمہ داری ہے اور وہ کررہی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ اگر پی ٹی ایم والے ڈیڈ لائن کراس کریں گے تو ہم انہیں چارج کریں گے لیکن ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا ہوا ہے کیونکہ وہ دکھے ہوئے ہیں ان کے علاقے میں پندرہ سال جنگ ہوئی جس کا شکار ان کے بہت سے لوگ ہوئے، ان کے مسئلے سے ریاست یا فوج نے آنکھیں نہیں پھیریں۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پی ٹی ایم والے اس لائن کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ان کے ساتھ وہی ہوگا جو ریاست اپنی اپنی رٹ برقرار رکھنے کیلئے کرتی ہے اور ہم کریں گے۔

چیک پوسٹس میں کمی کے مطالبے کے حوالے سے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاک فوج نے صورتحال میں بہتری آنے پر چیک پوسٹوں میں کمی کی ہے، اگلے سال پاک افغان بارڈر پر خاردار تار لگانے کا کام مکمل ہوجائے گا، جس سے صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔انہوں نے کہا کہ جس دن فوج کو ایسا محسوس ہوگا کہ یہاں سیکیورٹی کی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ یہاں اب ایک چیک پوسٹ کی بھی ضرورت نہیں ہے تو انہیں ہٹادیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی جانب سے بہت زیادہ بہتری کرلی، یہاں تعمیراتی کام کا بھی آغاز ہوگیا ہے لیکن افغانستان کا اپنے دہشتگروں پر، سرحد پر اور سرحدی علاقوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے جس کا پاکستان کو خطرہ ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے میں 2 لاکھ فوج تعینات ہے۔خیبرپختونخوا اور فاٹا میں بارودی سرنگ ہٹانے سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ 43 ٹیمیں وہاں کام کر رہی ہیں اور انہوں نے ابھی تک 44 فیصد علاقہ بارودی سرنگوں سے کلیئر کردیا۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے 15 سال جنگ لڑی جس کے دوران بہت سے دہشت گرد مارے بھی گئے، اس وقت بھی تحریک طالبان پاکستان کی فورس وہاں بیٹھی ہے تو یہ کیسے ثابت ہوگا کہ لاپتہ افراد ان کی فورس میں شامل نہ ہوں، یا کسی اور جگہ لڑائی ہیں استعمال نہ ہورہے ہوں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ لاپتہ افراد سے معلق 2 جگہوں پر شکایات موصول ہوئیں اور مجموعی طورپر 7 ہزار کیسز آئے، جن میں سے تقریباً 4 ہزار کیسز حل ہوچکے ہیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہکا کہ 70 ہزار پاکستانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لڑتے ہوئے شہید یا زخمی ہوئے، وہ بھی ہم میں سے ہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کرتارپور راہداری صرف ون وے ہوگی، بھارت سے سکھ یاتری آئیں گے اور واپس چلے جائیں گے، کرتارپور راستے پر خاردار تاریں لگائی جائیں گی۔بھارتی آرمی چیف کے بیان سے متعلق میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم مسلمان ریاست ہیں، ہمیں نہ بتائیں ہمیں کیسے بننا ہے، بھارت خود کو سیکولر ملک کہتا ہے تو وہ پہلے بن بھی جائے، وہاں مسلمانوں کی کیا حالت ہے، ہم نے تو کرتارپور کو دوسرے مذہب کی بنیاد پر کھول دیا، ہم مندر اور گرجا گھروں کو سیکیورٹی دیتے ہیں لہٰذا بھارت خود سیکولر بن جائے اور ہمیں ایسے ہی برداشت کرے جیسے ہم ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں، بھارت کیا بڑا اقدام کریگا ،ْ اگر جارحیت کرے گا تو اس کا جواب دیں گے، انہوں نے جنگ بھی کرکے دیکھ لی، جنگ کرنے آئیں گے تو دیکھ لیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی نے بتایا کہ 2017 میں بھارت کی جانب سے 1881 سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہوئی تھیں لیکن رواں برس کنٹرول لائن پر سیز فائر کی 2593 خلاف ورزیاں ہوئیں، جن کے نتیجے میں 55 شہری شہید اور 300 زخمی ہوئے۔

انہوںنے کہاکہ بھارتی فورسز جان بوجھ کر عام آبادی کو نشانہ بتاتی ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے امریکہ کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کے تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جنگ میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی جتنی پاکستان نے حاصل کی۔انہوںنے کہا کہ پاکستان سیاسی مذاکرات کی بات کرتا ہے اور ہر وہ قدم اٹھا رہا ہے جو سیاسی مذاکرات کو کامیاب کرے اور اب امریکا خواہش کر رہا ہے کہ کسی طرح سے مذاکرات ہوجائیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے واضح کیا کہپاکستان کا اب افغان طالبان پر وہ اثر و رسوخ نہیں ہے، جیسا پہلے تھا تاہم کچھ روابط استعمال کرتے ہوئے پاکستان امریکا کی مدد کریگا ،ْہم جتنا کردار ادا کرسکتے ہیں کریں گے۔بریفنگ کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 70 سال گزر گئے لیکن ہم اب بھی عوام کو بتا رہے کہ ہم نازک دور سے گزر ہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ یہ نازک دور کیوں آئے اور اس کا ذمہ دار کون ہی اس پر بحث ہوئی ہے لیکن نتیجہ نہیں نکلتا ،ْسب ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ اگر ہم ماضی میں بیٹھے رہے تو آگے نہیں جاسکتے، ہم ماضی سے صرف نتیجے لے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نازک وقت سے اس مقام پر آگئے ہیں، جسے واٹر شیڈ کہتے ہیں، آج ہم اٴْس واٹر شیڈ پر کھڑے ہیں، جہاں سے آگے نازک وقت نہیں، یا بہت اچھا وقت ہے یا پھر نازک وقت سے خراب وقت ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے کئی جنگیں لڑیں، آدھا ملک گنوادیا، لیکن پچھلے چند سالوں میں بہتری کی طرف آئے، ملک امن کی طرف گیا، معیشت میں بہتری آئی، ہم اس کو ریورس کیوں کرنا چاہتے ہیں کیا اس نازک لمحے سے اچھے پاکستان کی طرف نہیں جاسکتی فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم نے ایسا ہی رہنا ہے یا کامیابیوں کے ساتھ آگے چلنا ہے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم خود کو ٹھیک کریں گے تو آگے کچھ ہوگا۔وزیراعظم کے بیان سے متعلق انہوںنے کہا کہ وزیراعظم کی میڈیا ٹاک کو کئی بار سنا، ہمیں ان کی مکمل گفتگو کو سننا ہوگا، اس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان اس ملک کی فوج ہے ،ْاس کا تعلق ایک پارٹی، بندے یا ایک صوبے سے نہیں، ہم حکومت کا ادارہ ہیں، آج پی ٹی آئی کی حکومت ہے ،ْاس سے پہلے کسی اور پارٹی کی تھی، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت کو ان پٹ دیتی ہے ،ْیہ خوشی کی بات ہے کہ تمام ادارے مل کر قومی مقصد کیلئے کام کرنا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفورنے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی اور کی جنگ دوبارہ نہیں لڑیں گے، یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی، سرحد پار سے ٹی ٹی پی داخل ہوئی اور پھر ہم نے اسے اپنی جنگ سمجھ کر لڑا، اب کسی اور کی جنگ نہ لڑنے سے مقصد ہے کہ اپنی طرف سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد عناصر کا صفایا کردیا، اب ہم اپنی سرحد کو مضبوط بنارہے ہیں، اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑیں گے۔

اس موقع پر انہوں نے میڈیا کے کردار کو بھی سراہتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے ،ْیہ ریاست کا چوتھا ستون ہے، سب مضبوط ہوگئے اور آپ جھٹکے لگائیں تو بلڈنگ کو نقصان ہوگا۔انہوں نے کہا کہ میڈیا صرف چھ مہینے کیلئے پاکستان کی ترقی دکھائے اور پھر دیکھے کہ ملک کہاں پہنچتا ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم ملک کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنا رہے ہیں، مل کر امن کی صورتحال بہتر کر رہے ہیں اور ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں آئین کے مطابق قانون کی حکمرانی ہو ،ْیہاں نہ کوئی بندہ ادارے سے بہتر ہو نہ ہی کوئی ادارہ ریاست سے بہتر ہو۔

پاک فوج کے ترجمان نے درخواست کی کہ سب مل کر اپنا اپنا کردار ادا کریں اور ملک کو وہاں لے کر جائیں، جہاں ہمارا حق بنتا ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ دو سال کے دوران 400 افسروں کے خلاف کارروائی ہوئی، ایک فوجی افسر کو دس ہزار کی کرپشن پر فارغ کرکے گھر بھجوادیا گیا، ہماری پہلی خواہش ہوتی ہے غلطی نہ ہو، کرپشن ہو یا چھٹی لیے بغیر جانے پر بھی سزا ہوتی ہے، سزا پانے والوں میں ہر رینک کا افسر شامل ہے، انہیں جیل بھی بھیجا گیا، سروس سے برطرفی اور جیل کی حد تک بھی پاک افواج میں سزا ہوتی ہے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی آپریشن کیلئے حکمت عملی تبدیل کی ہے، پچھلے تین سال میں 2200 فراری قومی دھارے میں شامل ہوئے اور ہتھیار ڈال دیے ہیں، صوبے میں امن وامان کی صورتحال ماضی سے بہتر ہے۔شہر قائد کے بارے میں میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ کراچی میں 99 فیصد جرائم میں کمی آئی ہے اور رینجرز نے 9سال سے قربانیاں دے کر امن بحال کیا، شہر میں کاروباری سرگرمیاں تیزی سے بحال ہوچکی ہیں اور سرمایہ کاری آ رہی ہے۔