سینٹ میں وزراء کی غیر حاضری پر اپوزیشن کا شدید احتجاج

کشمیر پر بحث کے دوران وزیرخارجہ اور وزیرامور کشمیر موجود نہیں،وزراء کی نشستیں خالی ہیں ، بیوروکریٹ بھی موجود نہیں، شیری رحمن کابینہ اجلاس کی وجہ سے وزراء نہیں آ سکے ،اجلاس کا وقت تبدیل کر نا پڑے گا، اپوزیشن نے اعظم سواتی کی وضاحتیں مسترد کر دیں سینیٹ اجلاس کا وقت تبدیل نہیں ہوسکتا، آپ کابینہ اجلاس کا وقت تبدیل کیا کریں، وزراء کی حاضری کو یقینی بنایا جائے، چیئر مین سینٹ کی ہدایت بین الاقوامی کمیونٹی کشمیر میں قتل و غارت گری کا ذمہ دار ہے،سکیورٹی کونسل کی ان ایکشن کشمیریوں کی زندگیوں کیلئے خطرہ ہے، فاروق ایچ نائیک ، راجہ ظفر الحق ، جمال دینی بابری مسجد فیصلے کے بعد بھارت نے اپنی اقلیتوں کو پیغام دیا کہ وہ معنی نہیں رکھتیں، کشمیر پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ہونا چاہئے تھا، سینیٹر شیری رحمن کا اظہار خیال

منگل 12 نومبر 2019 21:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 نومبر2019ء) سینٹ میں وزراء کی غیر حاضری پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر پر بحث کے دوران وزیرخارجہ اور وزیرامور کشمیر موجود نہیں،وزراء کی نشستیں خالی ہیں ، بیوروکریٹ بھی موجود نہیںجس پر وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہاہے کہ کابینہ اجلاس کی وجہ سے وزراء نہیں آ سکے ،اجلاس کا وقت تبدیل کر نا پڑے گا جبکہ چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی نے وزیرامور کشمیر کو بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاہے کہ سینیٹ اجلاس کا وقت تبدیل نہیں ہوسکتا، آپ کابینہ اجلاس کا وقت تبدیل کیا کریں، وزراء کی حاضری کو یقینی بنایا جائے۔

منگل کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین محمد صادق سنجرانی کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بحث کی گئی ۔

(جاری ہے)

قائد حزب اختلاف راجہ ظفرالحق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ کشمیر میں لاک ڈاؤن اور کرفیو کا سو روز مکمل ہو چکا ہے،اس دوران بے شمار لوگوں اور نوجوانوں نے قربانیاں دی ہیں، بھارت نے اس ظلم اور بربریت مزید تیز کر دی ہے ،وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر سے بھارت کا رویہ تبدیل ہونے کی توقع تھی۔

انہوںنے کہاکہ بھارت نے مزید دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ،کارگل،لداخ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اپنے نقشے میں شامل کر لیا۔ انہوںنے کہاکہ آج تو ظالم وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو ایک ایک قطرہ پانی بھی روکنے کی بات کر رہے ہیں،اس میں بین الاقوامی دنیا کی ناکامی بھی ہے۔ انہوںنے کہاکہ شملہ اور لاہور معاہدے کی داخلی سیاست کی وجہ سے مخالفت کی گئی،اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی میں نے شملہ معاہدے کی حمایت کی تھی،جس پر اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے شکریہ ادا کیا۔

انہوںنے کہاکہ ان معاہدوں میں انسانی حقوق کومقدم رکھنے اور تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کرنے کا ذکر ہے،معاہدے کے مطابق کوئی بھی فریق یکطرفہ متنازعہ علاقوں کی حیثیت تبدیل نہیں کر سکتا،سکیورٹی کونسل کے کشمیر سے متعلق 20کے قریب قراردادیں ہیں،اس سے متضاد کوئی بھی معاہدہ نہیں ہو سکتا،پاکستان کیلئے یو این قراردایں اہم دستاویز ہیں۔

انہوںنے کہا کہ کشمیر کو جو خصوصی حیثیت دی ہے وہ باقی ہندوستان سے مختلف ہے،مودی نے الیکشن میں کامیابی کے بعد پہلا وار 370اور35Aپر کیا،ہندوستان کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق 5اگست کااقدام یو این چارٹر کیخلاف ورزی ہے۔ انہوںنے کہاکہ جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ہندؤں کو بسانا تھا،اس کے بعد میں مودی نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اپنا حصہ قراردیا،پاکستان اور کشمیر کے عوام نے اس جنگ کو مل کر لڑنی ہے،او آئی سی نے بھی کچھ ہمت نہیں دکھائی۔

انہوںنے کہاکہ مسئلہ کشمیر پر پوری قوم متحد ہے،پاکستانی عوام نے اپنے دلوں سے اس ایشو کو کبھی نہیں نکالا،ہمیں چرچل والا کردار ادا کرنا چاہئے نہ کر چمبرلینڈ والا۔سینیٹر شیری رحمان نے کہاکہ انتہائی اہم ایشو پر بحث چل رہی ہے مگر سیکرٹریز غائب ہیں،سیکرٹری خارجہ بھی ایوان میں نظر نہیں آرہی۔ چیئر مین نے کہاکہ اسپیشل سیکرٹری دفتر خارجہ موجود ہیں۔

شیری رحمن نے کہاکہ وزیر خارجہ کو ایوان میں ہونا چاہئے تھا،وزیروں کی فوج ہے،فرنٹ لائن خالی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ وزیر خارجہ کا کزن شدید بیمار ہیں،اس لئے ملتان گئے ہیں،کشمیر افیرز کے وزیر موجود ہیں اور نہ ہی سیکرٹری ۔ چیئر مین سینٹ نے کہاکہ کہاں ہیں وزراء ،وزراء سے کہے کہ آیا کریں۔ صادق سنجرانی نے کہاکہ وزیر امور کشمیر کو فون کر کے بلائے۔

وفاقی وزیر پارلیمانی نے کہاکہ کابینہ کا اہم اجلاس جاری ہے،وزراء وہاں موجود ہیں،میں اجلاس ختم ہونے سے پہلے اجازت لیکرآیا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ سینیٹ اجلاس کو اس طرح شیڈول کیا جائے کہ کابینہ اجلاس سے متصادم نہ ہوں تاکہ وزراء آسکے۔ صادق سنجراین نے کہاکہ سینیٹ اجلاس کو ری شیڈول نہیں کیا جا سکتا،کابینہ اجلاس ری شیڈول کرے،وزراء ایوان میں اپنی حاضری یقینی بنائے۔

سینیٹر فاروق نائیک نے کہاکہ بین الاقوامی کمیونٹی کشمیر میں قتل و غارت گری کا ذمہ دار ہے،سکیورٹی کونسل کی ان ایکشن کشمیریوں کی زندگیوں کیلئے خطرہ ہے۔انہوںنے کہاکہ مودی اور اسرائیلی حکومت کے مابین متوازی معاہدے ہو چکے ہیں،کشمیر کی موجودہ صورتحال پر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سے ایڈائزری رائے طلب کی جائے ،امریکی صدر سے ثالثی کیلئے نمائمدہ مقرر کرنے پر زور دیا جائے۔

انہوںنے کہاکہ کشمیر میں مکمل اظہار رائے اور بنیادی حقوق فراہم کی جائیں،کشمیر کو دنیا کیلئے کھولا جائے۔انہوںنے کہاکہ تمام گرفتار قیدیوں کو فوری طورپر رہا کیاجائے،کشمیر کی فضاء کو سازگار بنایا جائے،حکومت کے تمام پراسیڈنگز تک پریس کو رسائی دی جائے۔انہوںنے کہاکہ بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ وادی میں صرف چھاونیوں تک محدود کیا جائے۔

انہوںنے کہاکہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے تک کشمیر میں صرف کشمیریوں کو پراپرٹی خریدنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔انہوںنے کہاکہ کشمیر پر انٹرنیشنل کمیونٹی کا تعاون نہ ہونے کی وجہ ہمارے اوپر دہشتگردی کو سپانسر کرنے کا تاثر ہے۔انہوںنے کہاکہ اس تاثرکوختم کرنا ہو گا کہ ہم دہشتگردی کو سپورٹ نہیں کرتے،پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہے،ہم دہشتگردی کا شکار رہا ہے۔

سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہاکہ کشمیر میں ہونے والی زیادتیاں قابل مذمت ہے۔ انہوںنے کہاکہ مذمت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی بھی ضرورت تھی،کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی پہلے بھی حمایت کی اب بھی کرتے ہیں،اقوام عالم کی یوجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے،پاکستان کو عملی طور پر ہندوستان کو جواب دینا ہو گا۔ انہوںنے کہاکہ ملک میں تمام قومیتوں کیساتھ برابری کا رویہ روا رکھا جائے،کشمیر پر دھواں دار تقاریر کرنے کیساتھ ساتھ اپنے آپ کو پرامن ملک کے طور پر پیش کرنا ہو گا۔

سینیٹر شیری رحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وزراء کی عدم موجودگی پر مجھے تشویس ہے، کشمیر افیئرز کے وزیر تک یہاں موجود نہیں۔ شیری رحمانن نے کہاکہ آج یہاں وزراء کو موجود ہونا چاہیے تھا، کشمیر میں کرفیو کو 100 دن ہو چکے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ کا 50 کانگریس ارکان نے صدر ٹرمپ کو کشمیر متعلق خط لکھا ہے، یہاں حکومتی وزراء تک موجود نہیں، ان کے پاس شاید کشمیر کے علاوہ بھی اہم کام ہیں کرنے کو۔

انہوںنے کہاکہ کشمیر دو نیوکلیئر ممالک کے بیچ ایک تنازعہ ہے، عالمی دنیا اس بات نظرانداز کر رہی ہے، بھارت میں صحافی کشمیر پر بات بھی نہیں کر سکتے۔ انہوںنے کہاکہ کرتارپور اور امن کی پیپلزپارٹی نے ہمیشہ حمایت کی ہے، لیکن کرتارپور یکطرفہ فیصلہ نظر آ رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، وزیر اعظم نے پلوامہ کے بعد پارلیمان کو بریفنگ نہیں دی،کیا وزیراعظم کی ایگو پاکستان سے زیادہ اہم ہی کشمیر کے معاملے کے بعد بھی وزیراعظم نے کسی کو یکجا نہیں کیا، بابری مسجد فیصلے کے بعد بھارت نے اپنی اقلیتوں کو پیغام دیا کہ وہ معنی نہیں رکھتیں، کشمیر پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ہونا چاہئے تھا۔