پاک۔ترک برادرانہ تعلقات تا ابد قائم رہیں گے

سٹریٹجک اقتصادی فریم ورک کو تجارت، بنیادی ڈھانچے، سرمایہ کاری اور سیاحت کے شعبوں میں باہمی تعاون کے روڈ میپ کی حیثیت حاصل ہے، ترک صدر رجب طیب اردوان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

جمعہ 14 فروری 2020 14:04

پاک۔ترک برادرانہ تعلقات تا ابد قائم رہیں گے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 فروری2020ء) ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ پاکستان کا دکھ ہمارا دکھ، پاکستان کی خوشی ہماری خوشی ہے، ترکی مسئلہ کشمیر کے پرامن اور بات چیت کے ذریعے حل کے موقف پر قائم رہے گا، مسئلہ کشمیر کا حل طاقت یا جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف و حقانیت کے اصولوں سے ممکن ہے، پاکستان کے ساتھ ازل سے جاری ہمارے برادرانہ تعلقات تا ابد قائم رہیں گے، انسداد دہشت گردی میں ہم پاکستان سے تعاون آئندہ بھی جاری رکھیں گے، سرحدیں اور فاصلے مسلمانوں کے دلوں کے درمیان دیوار نہیں بن سکتے، دنیا بھر کے مسلم بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف ان کا ساتھ دینا ہم سب کا فرض ہے، ہمارا ایمان ہے کہ ظلم کا مقابلہ نہ کرنا ظلم کرنے کے مترادف ہے، مسلم امہ دہشت گردی، جنگوں، مذہب پرستی، مفلسی اور غربت کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، پاکستان ترقی و خوشحالی کے سفر کی جانب رواں دواں ہے، اقتصادی ترقی کا عمل دنوں میں نہیں آتا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ میں پاکستان کے عوام کے معزز نمائندوں کی موجودگی کے توسط سے اپنے تمام بہنوں اور بھائیوں کو بڑے عزت و احترام سے سلام محبت پیش کرتا ہوں، پاکستان کے سرکاری دورہ کے موقع پر معزز ممبران سے مخاطب ہونا میرے لئے بڑی خوشی اور مسرت کا مقام ہے، آج ہمیں اس عظیم الشان ماحول میں ہمارے دلوں کو یکجا کرنے کا موقع فراہم کرنے پر میں الله تعالیٰ کا شکر گذار ہوں اور حمد و ثناء پیش کرتا ہوں۔

اس مشترکہ اجلاس میں مجھے خطاب کرنے کا موقع فراہم کرنے پر میں آپ سب کا الگ الگ حیثیت سے بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں اپنے اس خطاب کا آغاز ہی سب سے پہلے آپ سب کو ترکی کے 8 کروڑ 30 لاکھ بہن بھائیوں، ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی میں عوام کی نمائندہ اراکین پارلیمنٹ کا بھی سلام پیش کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میرے اسلام آباد میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی جس طریقے سے پاکستان کے عوام نے گرمجوشی اور محبت سے ہمارا استقبال کیا، میں اس پر پاکستانی قوم اور پاکستان کے اعلیٰ حکام کے خلوص اور مہمان نوازی پر آپ سب کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔

ہم یہاں پاکستان میں کبھی بھی اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہیں کرتے۔ براعظم ایشیاء کے اہم مراکز میں سے ایک میں اور عالم اسلام کے اس جغرافیائی خطے میں اپنے آپ کو اپنے ہی گھر میں محسوس کرتے ہیں۔ ترکی اور پاکستان جیسے برادرانہ تعلقات دنیا میں شاید ہی دیگر ممالک یا اقوام میں دیکھے جا سکتے ہوں، آج پاکستان اور ترکی کے تعلقات جو سب کے لئے قابل رشک ہیں، دراصل تاریخی واقعات ہی کے نتیجہ میں مضبوط اور پائیدار ہوئے ہیں اور اسے حقیقی برادرانہ تعلقات کا روپ دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سلطنت غزنیہ کے بانی محمود غزنوی کے دور سے ترک اس وسیع جغرافیہ کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ سلطنت مغلیہ کے بانی ترکی النسل ظہیر الدین بابر اور دیگر مغل حکمرانوں نے موجودہ پاکستان سمیت تمام خطے پر تقریباً 350 سال حکومت کی اور ہماری مشترکہ تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے صدارتی نشان جس پر ترکوں کی جانب سے قائم کردہ 16 ریاستوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں، ان میں سے ظہیر الدین بابر کی قائم کردہ مغلیہ سلطنت اور غزنویوں کی سلطنت کے ستارے چمک رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اردو ادب کے عظیم شاعر مرزا اسد الله خان غالب، تحریک خلافت کے روح رواں جوہر برادران، بلقانی جنگوں کے موقع پر سلطنت عثمانیہ کے فوجی دستوں کی مدد کرنے کے لئے آنے والے عبدالرحمان پشاوری جیسی ہستیاں ہماری مشترکہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جانے والی ہستیوں میں سے چند ایک ہیں۔ ترکی اور پاکستان کے تعلقات شاعر اعظم محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے قیمتی ورثہ ہی کے نتیجہ میں موجودہ دور تک پہنچے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1915ء میں جب ترک فوج ایک زبردست مزاحمت کے ساتھ آبنائے چناق قلعہ کا دفاع کر رہی تھی تو اس وقت محاذ سے 6 ہزار کلو میٹر دور اس سرزمین پر ہونے والے مظاہرے اور ریلیاں ہماری تاریخ کے ناقابل فراموش صفحات پر درج ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور شہر میں ہونے والے ان تاریخی جلسوں کا مرکز نگاہ چناق قلعہ ہی تھا۔ ان جلسوں کا اہتمام کرنے والے منتظمین دراصل چناق قلعہ میں برسرپیکار ترک فوجیوں اور ترک قوم کی امداد کا مقصد لئے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس روز مسلمان پورے لاہور کی سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے تھے۔ رجب طیب اردوان نے کہا کہ جب ہم زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے تو اس جغرافیہ میں ہمارے بھائی بہن اس دور کی نو آبادیات کے ظلم و ستم کا شکار تھے، تمام تر پریشانیوں اور خطرات کے باوجود میدانوں، گلیوں اور سڑکوں میں ہونے والی نمائشوں میں چناق قلعہ کے لئے امداد جمع کی جا رہی تھی، برصغیر کی مسلم خواتین نے اپنے ہاتھوں کے کنگن، چوڑیاں، بالیاں اور بزرگوں نے اپنی جمع کردہ پونجی تک عطاء کر دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس روز لاہور کے جلسوں سے خطاب کرنے والوں میں شاعر اعظم محمد اقبال بھی شامل تھے۔ علامہ محمد اقبال نے سٹیج پر بڑے پرحجاب انداز میں چند روز قبل دیکھے گئے اپنے خواب سے عوام کو آگاہ کیا۔ علامہ اقبال نے اپنے خواب میں حضرت محمدؐ کی خواب میں زیارت کو جذبات میں بہہ کر ان اشعار میں پرویا۔ انہوں نے اپنے اشعار میں یوں ذکر کیا ’’حضرت محمدﷺ نے کہا تم اس دنیا کے باغیچے سے ایک مہک بن کر آئے ہو، بتائو مجھے کیا ہدیہ تبریک لے کر آئے ہو، کہا میں نے یا محمدﷺ ۔

دنیا میں چین ہی نہیں، مجھے کوئی نظر آتی نہیں امید کی کرن، اس دنیا کے باغیچے میں ہزارہا گل و لالہ ہیں موجود، لیکن نہیں ان میں کوئی رنگ و بو، سب ہی ہیں بے وفا لیکن ایک چیز لے کر آیا ہوں میں، صرف ایک بوتل لہو، جس کی نہیں ہے کوئی نظیر، ناموس ہے یہ، وجدان ہے یہ، لیجئے یہ ہے چناق قلعہ کے شہیدوں کا لہو‘‘۔ ترک صدر نے کہا کہ شاعر کی طرح لاہور کی گلی کوچوں میں یکجا لاکھوں انسان ان جذبات میں بہہ چکے تھے، ان کی آنکھیں اشک بار ہو چکی تھیں اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔

ترک صدر نے کہا کہ برصغیر کے مسلم عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر ترکی کی جنگ نجات کے دوران جس طرح ہماری مدد کی ہم کبھی بھی اس کو فراموش نہیں کر سکتے، اپنے بھائیوں کی جنگ استقلال میں شرکت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے شوکت علی اور محمد علی جوہر کو بھلا ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ کبھی بھی نہیں بھولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حیدر آباد سے لے کر اسلام آباد تک اپنے تمام بہن بھائیوں کے ترکی کے لئے اور ترکی کی جنگ استقلال کے لئے سجدوں میں گڑ گڑاتے ہوئے دعائیں کرنے والوں کو بھلا کیسے بھول سکتے ہیں، ایسا ہمارے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم شدید دبائو، دھمکیوں اور غربت کا شکار ہونے کے باوجود ترکوں کو تنہاء نہ چھوڑنے والے اور وفاء کے پیکر ان بھائیوں کو بھلا کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ازل سے چلے آنے والے ہمارے یہ برادرانہ تعلقات تا ابد قائم رہیں گے کیونکہ ہمارا اخوت کا رشتہ رشتہ داری نہیں بلکہ دل کی لگن کا رشتہ ہے۔

ہماری دوستی مفاد پر مبنی نہیں بلکہ عشق و محبت سے پروان چڑھی ہے۔ پاکستان کا دکھ درد ہمارا دکھ درد ہے، پاکستان کی خوشی ہماری خوشی، اس کی کامیابی و کامرانی کو اپنی کامیابی و کامرانی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سوچ کے ساتھ ہم نے پاکستان میں حالیہ کچھ عرصہ کے دوران آنے والی قدرتی آفات، سیلاب اور زلزلہ کی تباہ کاریوں کے موقع پر اپنے تمام امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے بھائیوں کی مدد کو دوڑے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ترکی میں 15 جولائی کی ناکام بغاوت جس میں251 شہادتیں ہوئیں، کے بعد پاکستان کے عوام کی دعائوں کو ہم نے دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حکام نے دہشت گرد تنظیم فیتو سے منسلک سکولوں کو ترکی کی معارف فائونڈیشن کے حوالے کرتے ہوئے ہماری قوم کے حقیقی دوست ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا۔ ماہ اکتوبر میں شام کے شمال میں شروع کردہ چشمہ امن فوجی آپریشن کی حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام نے بھرپور طریقے سے حمایت کی۔

انہوں نے کہا کہ صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے جمہوریت اور انسانی حقوق کا پرچار کرنے والے اور دہشت گردوں کو بچانے کے لئے بھرپور توانائیاں صرف کرنے والوں کے برعکس پاکستان نے ترکی کی حق بجانب جدوجہد میں بھرپور ساتھ دیا۔ ایلاضی اور مالاتیا میں آنے والے زلزلوں کے موقع پر سرکاری حکام سے لے کر ایک عام پاکستانی تک سے ہمیں تعاون اور یکجہتی کے پیغامات موصول ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کے عوام کی جانب سے ترکی کے ہر دکھ درد اور خوشی میں شامل ہونے پر ان کا شکر گذار ہوں۔ انہوں نے الله تعالیٰ سے دعا کی کہ ہمارا یہ تعاون اور اشتراک دائمہ قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی بھائیوں کے ترکی اور ترک قوم کی دوستی پر پختہ یقین رکھنے کا طلب گار ہوں۔ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ہم پاکستان کا بھرپور ساتھ دینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

اس دائرہ کار میں موجودہ دور کے اہم موضوع ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں میں پاکستان پر ڈالے جانے والے سیاسی دبائو کے باوجود ہم پاکستان کی بھرپور حمایت کرنے کا آپ کو پختہ یقین دلاتے ہیں۔ رجب طیب اردوان نے کہا کہ پاکستان ترکی و خوشحالی کے سفر کی جانب رواں دواں ہے، بلاشبہ اقتصادی ترقی کا عمل دنوں میں عمل میں نہیں آتا، اس کے لئے ہمیں خوف محنت کرنا پڑتی ہے، منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے، ہمیں عزم، یقین اور خود اعتمادی سے کام لینا پڑتا ہے، ترقی کے حصول میں استحکام اور اعتماد دو لازم و ملزوم عوامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کامل یقین ہے کہ پاکستان کے قانون ساز ادارے مجلس عاملہ، عدالتوں اور فوجی اداروں کے ساتھ باہمی تعاون کے ماحول میں جاری جدوجہد کا ثمر عنقریب ملنا شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بزنس اور سرمایہ کاری کے ماحول میں بہتری لانے کو اساس بنانے والے اقدامات پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لئے کہیں زیادہ جاذب نظر بنا رہے ہیں، میں ترکی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے بزنس مینوں کے ایک بڑے گروپ کے ہمراہ یہاں آیا ہوں۔

ترکی پاکستان مشترکہ ورکنگ گروپ اجلاس میں سرمایہ کاروں کے ساتھ ملاقات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر پاکستان کے درخشاں مستقبل اور معیشت پر اپنے اعتماد کی تائید کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کے دورہ ترکی کے دوران باہمی روابط کو مزید تقویت دینے کے معاملے میں مطابقت قائم ہوئی تھی اور ہم نے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کر دی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ دورہ کے دوران طے پانے والے ایک اسٹریٹجک اقتصادی فریم ورک کا متن، تجارت سے لے کر بنیادی ڈھانچے تک سرمایہ کاری سے لے کر سیاحت تک کے مختلف معاملات میں ہمارے لئے ایک روڈ میپ ہوگا۔ دونوں ممالک کے مابین 2009ء میں قیام امن میں آنے والے اعلیٰ سطح کے تذویراتی تعاون کونسل کا چھٹا اجلاس بھی منعقد ہو رہا ہے۔ پاکستان کے 21 کروڑ اور ترکی کے 8 کروڑ 30 لاکھ عوام شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے باہمی اقتصادی تعلقات کو حق بجانب سطح تک پہنچائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، پاکستان خطے میں عدم استحکام کے ماحول، دہشت گردی اور جھڑپوں سے بری طرح متاثر ہونے والا ایک ملک ہے۔ ہم 35 برسوں سے علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ داعش، پی کے کے اور فیتو کی طرح دنیا کی وحشی ترین تنظیموں کے ہدف میں ہونے والی ایک مملکت کے طور پر ہم پاکستان کو درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہیں۔

انسداد دہشت گردی کے معاملات میں ہم پاکستان سے تعاون کو آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔ ہماری مسلم امہ دہشت گردی سے لے کر جنگوں، مذہب پرستی کے فتنے سے لے کر مفلسی اور غربت کے بوجھ تلے پسی ہوئی ہے۔ پاکستان اور ترکی اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بھائی چارگی کی اقدار پر عمل درآمد، مومن بھائیوں سے تعاون کرنا اور مشکلات میں سہارا اور مدد فراہم کرنا دین اسلام کے تقاضوں میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ مومن تو بس بھائی بھائی ہیں۔ امت مسلمہ کے ایک فرد کی حیثیت سے انفرادی، اپنے کنبے اور ہمسایوں کے ہمراہ ہم اربوں کی تعداد میں اپنے بھائیوں کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ قلیل عرصہ پر محیط مفادات، چھوٹے موٹے حساب و کتاب، ہمارے ابدی و اذلی بھائی چارے اور دوستی سے بالاتر نہیں ہو سکتے۔

مذہب، قوم، قبیلے اور زبان کا فرق عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہمارے بھائی چارے پر ہر گز فوقیت حاصل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی فاصلہ مسلمانوں کے دلوں کے درمیان دیوار حائل نہیں کر سکتا، دنیا کے چاہے کسی مقام پر بھی کیوں نہ ہوں، مسلم بھائیوں کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہونا، اگر ان پر ظلم ہو رہا ہے تو ان کا ساتھ دینا ہم سب کا فرض ہے کیونکہ یہ ہمارا یقین و ایمان ہے کہ چاہے کوئی بھی اس کا مرتکب کیوں نہ ہو، ظلم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ظلم کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترکی اسی مفاہمت کے ساتھ اقوام کے درمیان تفریق بازی کے خاتمے، تنازعات کے حل، فلسطین، قبرص اور کشمیر سمیت دیگر حق بجانب دعوئوں پر ڈٹے ہوئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ ہم شام میں جنگ اور ملکی حکومتی مظالم سے راہ فرار اختیار کرنے والے 40 لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں، مالی اعتبار سے ہم سے کئی گنا امیر ممالک نے شامی مظلومین کو اپنے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے تو ہم ان پر 40 ارب ڈالر سے زائد خرچ کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ادلب کے حوالے سے حالیہ ایام میں ہمارے اقدامات اور کوششوں کا مقصد 35 لاکھ مظلومین کو بشار الاسد کی حامی قوتوں کے بیرل بموں کے حملے کے خلاف جانی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ لیبیا سے لے کر یمن تک کے شورش زدہ رقبے میں ترکی کا اولین ہدف خونریزی، تباہ کاریوں اور آنسوئوں کے سیلابوں کا سدباب کرنا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے عہد صدارت میں ترکی نے بالخصوص امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے تمام تر معاملات میں فعال کوششیں صرف کی ہیں۔

ہم نے قبلہ اول، بیت المقدس پر اسرائیل کے حملوں کے سامنے باوقار اور پرعزم موقف کا ڈٹ کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے دنیا بھر کے سامنے اعلان عام کیا تھا کہ بیت المقدس ہماری سرخ لکیر ہے لہذا ہم بیت المقدس کو قابض اسرائیلی انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔ چند ہفتے بیشتر امریکی انتظامیہ کی جانب سے ’’صدی کا منصوبہ‘‘ کے نام سے اعلان کردہ قبضے، الحاق اور تباہی کے منصوبے کے برخلاف سب سے سخت ردعمل کا مظاہرہ ترکی نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں مسئلہ کشمیر کا دفاع کرتے ہوئے ہم نے اپنے ملک کی اس مسئلہ پر حساسیت کا ایک بار پھر برملا اظہار کیا تھا۔ ہمارے کشمیری بھائیوں کو سالہا سال سے درپیش مشکلات میں حالیہ ایام میں اٹھائے گئے یکطرفہ اقدامات سے مزید اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سے ہی کٹھن حالات کو مزید ابتر بنانے والے، کشمیریوں کی آزادی اور حاصل شدہ حقوق کو چھیننے پر مبنی پالیسیاں کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوں گی۔

مسئلہ کشمیر کا حل جھڑپوں یا پھر جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف و حقانیت کے اصول پر ممکن ہے۔ اس طریقے سے حاصل کیا جانے والا ایک حل تمام تر فریقین کے مفاد میں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی مسئلہ کشمیر کو انصاف، امن و بات چیت کے ذریعے حل کئے جانے کے موقف پر کاربند رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں یہاں بڑے وثوق سے کہنا چاہتا ہوں کہ افغان امن عمل میں پاکستان کی مثبت خدمات قابل تحسین ہیں۔ ترکی اس سلسلے میں اپنے دونوں برادر ممالک پاکستان و افغانستان سے ہر ممکنہ تعاون کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی تقریر کو معروف شاعر ابو الاثر حفیظ جالندھری کے ان اشعار سے کرتا ہوں۔ پاک سرزمین شاد باد