ولی عہد محمد بن سلمان کی صدر ٹرمپ اور پوٹن سے تلخ کلامی کے نتائج کیا ہونگے؟

کیا امریکا تیل مارکیٹ کو گرا کر عربوں کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے ایجنڈے پر کاربند ہے تیل کی مارکیٹ میں مندی سے تناﺅ بڑھ رہا ہے‘ٹرمپ اورولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان سفارتی آداب سے ہٹ کر گفتگو امریکی صدر کی دھمکی اورریپبلیکن سینیٹرز کیون کریمر اور ڈین سولیوان کی سعودی عرب سے دفاعی تعلقات ختم کرنے کی قراردوں نے ریاض کو جھکنے پر مجبور کیا سعودی ولی عہد کی صدرپوٹن سے بھی انتہائی جارحانہ اندازمیں گفتگو‘دونوں راہنماﺅں کے درمیان غیرسفارتی اندازمیں گفتگو ہوئی روس کا شہزادہ محمد بن سلمان کے رویے پر سخت ردعمل. ایڈیٹر اردوپوائنٹ میاں ندیم کا تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 1 مئی 2020 22:42

ولی عہد محمد بن سلمان کی صدر ٹرمپ اور پوٹن سے تلخ کلامی کے نتائج کیا ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم مئی۔2020ء) عالمی سطح پر طلب میں نمایاں کمی کی وجہ سے تیل کی پیداوار کم کرنے کی تجویز اوپیک پلس کے اجلاس میں 6 مارچ کو زیرِ بحث آئی اس اجلاس میں اوپیک پلس ممالک کسی بھی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے کیونکہ اس اجلاس سے کچھ دیر پہلے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کا فون پر رابطہ ہوا تھا اور اس میں اہم ترین بات یہ تھی کہ یہ گفتگو 2 سربراہانِ حکومت کے درمیان روایتی سفارتی آداب سے ہٹ گئی تھی.

مڈل ایسٹ آئی کے مطابق اس فون کال میں دونوں رہنما ایک دوسرے سے کافی ناراض نظر آئے سعودی ولی عہد اس فون کال کے دوران بہت جارحانہ موڈ میں تھے اور پیداوار کم کرنے کا معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں محمد بن سلمان نے روسی صدر کو دھمکی دی کہ وہ پرائس وار شروع کردیں گے روسی صدر اس دباﺅ میں نہیں آئے اور یوں فون پر ہونے والا یہ رابطہ انتہائی بدمزگی کے ماحول میں انجام کو پہنچا.

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سعودی ولی عہد نے صدر پیوٹن کے ساتھ فون پر رابطے سے پہلے وائٹ ہاﺅس میں اپنے دوست اور صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر کے ساتھ صلاح مشورہ بھی کیا تھا جارڈ کشنر نے سعودی ولی عہد کو صدر ٹرمپ کے ایما پر مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی. اوپیک پلس کے اجلاس میں سعودی عرب نے روس کو کونے میں دھکیلنے کی پوری کوشش کی لیکن تیل کی پیداوار میں مجموعی طور پر 15 لاکھ بیرل یومیہ کٹوتی کا معاہدہ طے نہیں پا سکا جس کے بعد سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں اضافے کا اعلان کرکے قیمتیں گرا دیں اور صدر ٹرمپ نے سعودی اقدام کی تعریف کی.

صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس سستے تیل سے وہ امریکا کے ذخائر بھر دیں گے یوں ناصرف امریکی عوام کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوگا بلکہ قومی آئل انڈسٹری کو بھی مدد ملے گی انہوں نے مزید کہا کہ امریکا توانائی کے لیے اب محتاج نہیں رہا اور ایک شاندار مقصد حاصل کرلیا ہے جس کے حصول کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا. شیل آئل کے مہنگے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی امریکی تیل کمپنیوں نے صدر ٹرمپ کے اس بیان پر شدید احتجاج کیا کیونکہ تیل قیمتوں کی جنگ اور اس کے نتیجے میں سستے تیل کی وجہ سے ان منصوبوں پر کی گئی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی تھی امریکی تیل کمپنیوں کے احتجاج پر وائٹ ہاﺅس کو اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا.

واشنگٹن، ریاض اور ماسکو کے درمیان فون پر رابطوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور 10 اپریل کو ماسکو نے کہا کہ صدر پیوٹن نے سعودی ولی عہد سے فون پر بات کی اور دونوں نے ماسکو-ریاض رابطوں کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا 12 اپریل کو صدر ٹرمپ، سعودی شاہ سلمان اور اور روسی صدر کے فون پر رابطے ہوئے اور 13 اپریل کو صدر ٹرمپ نے ٹویٹر پر خبر دی کہ اوپیک پلس ممالک میں بڑا معاہدہ طے پاگیا ہے اور اس معاہدے سے امریکی تیل سیکٹر میں ہزاروں ملازمتیں بچ جائیں گی.

وائٹ ہاﺅس اور سعودی ولی عہد کا روس کو سبق سکھانے کا مشترکہ منصوبہ امریکا کے لیے الٹا پڑگیا اور اس کاروباری ہفتے کے پہلے روز امریکی خام تیل کی قیمت تاریخ میں پہلی بار منفی ٹریڈنگ میں چلی گئی اور پیر کے روز کے سودے منفی 37.63 ڈالر فی بیرل پر بند ہوئے اس کی وجہ مارکیٹ میں ضرورت سے زیادہ رسد بنی جو سعودی تیل کی پیداوار بڑھانے کا نتیجہ تھا اس وجہ سے تیل ذخیرہ کرنے کے لیے جگہ کم پڑگئی اور کمپنیاں خریداروں کو تیل اپنے اسٹوریج سے اٹھانے کے لیے خرچہ دینے پر مجبور ہوگئیں.

بدھ کو امریکی تیل کی قیمت 20 ڈالر پر واپس آئی لیکن گلوبل بینچ مارک برینٹ کروڈ جو بین الاقوامی مارکیٹ میں 60 فیصد کا حجم رکھتا ہے، وہ بھی گر کر 1999ءکی کم ترین سطح پر آگیا۔

(جاری ہے)

بدھ کو برینٹ کروڈ 15.98 ڈالر فی بیرل پر فروخت ہوا اور امریکی صدر نے ایران کی کشتیوں کو نشانہ بنانے کا حکم دے کر تیل قیمتوں کو سہارا دینے کی کوشش کی جس پر بدھ کو برینٹ کروڈ کی ٹریڈنگ 21.50 ڈالر فی بیرل پر واپس آگئی تیل قیمت کی یہ جنگ تیل برآمد کرنے والے ملکوں کو بھی مہنگی پڑی ہے.

سعودی عرب، عرب امارات اور کویت کی معیشت کا انحصار ہی تیل کی برآمد پر ہے عراق اور وینزویلا اس تیل قیمت کی جنگ کے نتیجے میں بدامنی کا شکار ہوسکتے ہیں افریقہ میں نائیجریا کی معیشت پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سست پڑ چکی ہے امریکا اور کینیڈا اس بحران کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن اس بحران سے نکلنے کا عمل تکلیف دہ ہوگا. کورونا وائرس کی وبا اور اس کے نتیجے میں معاشی شٹ ڈاﺅن تیل انڈسٹری کے بحران کو گہرا کر رہا ہے امریکا، یورپ، بھارت اور چین نے ٹیل کو ذخیرہ کرنے کی جگہ کم پڑنے پر تیل کی شپمنٹس واپس بھیجنا شروع کردیں چین نے اپریل اور مئی کے 10 سودے سعودی عرب کو واپس کردیے.

عالمی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ تیل کی طلب 2022ءکے اختتام تک منفی رہنے کا امکان ہے عالمی تونائی ایجنسی تیل کی منفی ٹریڈنگ کا قبل از وقت اندازہ لگانے میں ناکام رہی تاہم ایجنسی نے خبردار کیا تھا کہ دنیا بھر میں آئل انڈسٹری سے وابستہ لاکھوں ملازمین پر کورونا وائرس کے اثرات کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں. تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی معیشت زبردست خطرے سے دوچار ہے امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے مطابق سعودی عرب کو بجٹ خسارے سے بچنے کے لیے تیل کی کم از کم قیمت 91 ڈالر فی بیرل پر رکھنے کی ضرورت ہے اسی طرح عمان 82 ڈالر، ابوظہبی 65 ڈالر، قطر 55 ڈالر، بحرین 96 ڈالر، عراق 60 ڈالر اور ایران کو تیل کی قیمت 195 ڈالر رکھنے کی ضرورت ہے.

افریقہ میں الجزائر کو بجٹ ضروریات پوری کرنے کے لیے تیل کی قیمت 109 ڈالر فی بیرل، لیبیا کو 100 ڈالر، نائیجیریا کو 144 ڈالر، انگولا کو 155 ڈالر فی بیرل قیمت کی ضرورت ہے‘اس سال کی بجٹ ضروریات کے لیے روس کو تیل کی قیمت 42 ڈالر، میکسیکو 49 ڈالر اور قازقستان کو 58 ڈالر فی بیرل رکھنے کی ضرورت ہے. امریکا 48 ڈالر، کینیڈا 60 ڈالر اور ناروے کو 27 ڈالر فی بیرل قیمت کی صورت میں انڈسٹری بچانے کی امید ہے امریکا کی تیل انڈسٹری میں ایک کروڑ ملازمتوں میں سے کتنی متاثر ہوں گی ابھی یہ دیکھنا باقی ہے روس اور سعودی عرب کی تیل جنگ نے انرجی مارکیٹ کو بھی شدید متاثر کیا ہے جو پہلے ہی کورونا کی وبا کی وجہ سے دباﺅ میں تھی.

تیل کمپنیاں امریکا کی جی ڈی پی میں 8 فیصد حصہ ڈالتی ہیں جبکہ ایس اینڈ پی فائیو ہنڈرڈ انڈیکس میں تیل کمپنیوں کا حصہ 2.6 فیصد ہے تیل مارکیٹ کے اس بحران کا امریکی معیشت پر اثر 2020ءکے بعد بھی برقرار رہنے کا امکان ہے روسی تیل کے بڑے خریدار چین اور یورپی یونین ہیں اور کورونا وائرس کی وبا سے یہ مارکیٹ بھی متاثر ہوئی لیکن تیل قیمتوں نے اس اثر کو گہرا کردیا ہے.

روس کی کل برآمدات کا نصف تیل پر منحصر ہے روس کو اس صورتحال میں 40 سے 50 ارب ڈالر بجٹ خسارے کا سامنا ہوسکتا ہے۔ روس کی جی ڈی پی میں تیل سیکٹر کا حصہ 30 فیصد ہے اور 10 لاکھ ملازمتیں خطرے میں ہیں. سعودی عرب کی برآمدات میں 70 فیصد حصہ تیل کا ہے اور سعودی عرب کا 500 ارب ڈالر کا ویلتھ فنڈ کچھ عرصے کے لیے اسے تیل قیمتوں کے بحران سے گزرنے میں مدد دے سکتا ہے سعودی عرب نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کورونا وائرس کی وبا کے دوران ملازمین کی 60 فیصد تنخواہیں ادا کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ بیل آﺅٹ پیکج شاید پوری طرح قابلِ عمل نہیں رہا کیونکہ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی کے ملازمین کو صرف 10 فیصد تنخواہیں مل رہی ہیں ہوٹل انڈسٹری کو ہسپتالوں میں تبدیل کیا گیا ہے لیکن انڈسٹری کو کوئی بیل آﺅٹ پیکج دیا گیا اور نہ ہی اخراجات دیے جا رہے ہیں مملکت میں کام کرنے والے مصر کے ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جارہی ہے اور جو سالانہ چھٹیوں پر ہیں انہیں تو ادائیگی بالکل نہیں کی جارہی ہیں.

سعودی عرب یہ توقع کر رہا تھا کہ روس کے ساتھ پیداوار میں کمی کے معاہدے کے بعد تیل قیمتیں 40 ڈالر فی بیرل پر چلی جائیں گی، اگر تیل قیمت موجودہ سطح پر برقرار رہتی ہے تو سعودی عرب کو 40 ارب ڈالر ریونیو کمی کا سامنا ہوگا روس کے ساتھ معاہدے سے پہلے ہی سعودی عرب نے اپنے اداروں کو اخراجات میں 30 فیصد کمی کی ہدایت کردی تھی سعودی حکومت کو اپنے بڑے منصوبے روکنا پڑیں گے اور ولی عہد کا وڑن 2030ءبھی رک جائے گا.

سعودی تیل سیکٹر میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد ملازمت کر رہے ہیں اخراجات کے لیے سعودی عرب کو ویلتھ فنڈز سے خرچ کرنا پڑے گا اور شہریوں کو بھی مدد دینا پڑے گی معاشی بحران مزید گہرا ہونے کی صورت میں سعودی عرب میں بدامنی کا بھی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے سعودی عرب کا معاشی بحران پورے خطے کو متاثر کرسکتا ہے مصر، سوڈان، لبنان، شام اور تیونس میں سعودی معاشی بحران کے اثرات فوری محسوس کیے جائیں گے کیونکہ ان ملکوں کے لاکھوں افراد کا روزگار سعودی عرب میں ہے.

مارکیٹ پر نظر رکھنے والے اداروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل قیمتوں کی جنگ میں فوری طور پر روس اور سعودی عرب دونوں فاتح نظر آتے ہیں کیونکہ دونوں کو امریکی شیل آئل عرصے سے کھٹک رہا تھا ان ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور سعودی عرب کی یہ خوشی عارضی ہے کیونکہ برینٹ کروڈ کی مارکیٹ بھی بچ نہیں پائے گی اور اگلے چند ہفتوں (مئی کے آخر یا جون کے آغاز) میں دنیا بھر میں تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہوجائے گی.

سعودی عرب نے صرف اتنی ہوشیاری دکھائی کہ روس کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں اس نے پیداوار بڑھا کر دنیا بھر میں جہاں کہیں تیل کی طلب موجود تھی اپنا تیل بیچ ڈالا اور روس کے ساتھ معاہدے کے بعد تیل کی پیداوار کم کرلی اب تیل پیداواری ملکوں کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پیداوار میں ایک اور بڑی کٹوتی پر اتفاق کریں اور اس مقصد کے حصول کی خاطر اوپیک پلس کا اگلا اجلاس 10 جون کو ہونا ہے.

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگر روس کو سبق سکھانے کے لیے سعودی عرب کو تیل قیمتوں کی جنگ میں دھکیلا تو قبر اپنی تیل انڈسٹری کے لیے بھی کھودی اگر سعودی ولی عہد نے روسی صدر کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے تو نقصان خود بھی اٹھایا ہے یوں کنفیوشس کا قول سچ ثابت ہوا کہ انتقام کے راستے پر چلنے سے پہلے 2 قبریں کھودو عظیم چینی مفکرکنفیوشس نے کہا تھا کہ انتقام کے راستے پر چلنے سے پہلے 2 قبریں کھود لو یہ قول تیل قیمتوں کی حالیہ جنگ کے دوران ذہن میں گونجتا رہا اور اس جنگ کے نتائج پر نظر رہی شاید تیل قیمتوں کی جنگ کے ساتھ کنفیوشس کے اس قول کا تال میل نظرآتا ہے.

واضح رہے کہ امریکا نے اپنے دہائیوں پرانے اتحادی سعودی عرب کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے تیل کی پیداوار اور سپلائی کم نہ کی تو وہ سعودی عرب سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں گے امریکا کی جانب سے سعودی عرب پر تیل کی قیمتوں کے معاملے پر روس سے جاری محاذ آرائی ختم کرنے کا مطالبہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی راہنماﺅں کو اس سلسلے میں الٹی میٹم جاری کردیا تھابتایاگیا ہے کہ 2 اپریل کو ٹرمپ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم (اوپیک) تیل کی پیداوار میں کمی نہیں کرتی.

اس وقت تک وہ سعودی عرب سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے قانون سازی روکنے میں بے اختیار ہوں گے اس سے قبل کبھی بھی اس 75 سالہ اسٹریٹیجک اتحاد کے خاتمے کی دھمکی کے حوالے سے کوئی بھی خبر رپورٹ نہیں ہوئی اور اس کا بنیادی مقصد امریکا کی جانب سے تیل کی پیداوار کے تاریخی معاہدے کے حوالے سے دباﺅ ڈالنا تھا جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی مانگ میں کمی ہوئی ہے اور اس تمام پیشرفت کو امریکا کی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے.

اس حوالے سے بریفنگ میں شریک امریکی انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو یہ پیغام تیل کی پیداوار میں کمی کے اعلان سے 10 دن قبل دیا تھا اور اس دھمکی کا محمد بن سلمان پر اس حد تک اثر ہوا تھا کہ انہوں نے کمرے میں موجود تمام افراد کو باہر نکلنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ رازداری کے ساتھ گفتگو کو جاری رکھ سکیں. ٹرمپ کی ان کوششوں کا مقصد تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے بحران کے دوران امریکی تیل کی صنعت کو تباہی سے بچانا ہے جہاں کورونا وائرس کے سبب دنیا بھر کی معیشتوں کو شدید دھچکا لگا ہے‘یہاں امریکی صدر کے موقف میں بھی واضح طور پر یوٹرن نظر آ رہا ہے جو ماضی میں تیل کی پیداوار کم کر کے تیل کی قیمتیں بڑھانے پر تیل کی کمپنیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں امریکی عوام کو مہنگی توانائی و بجلی خریدنی پڑ رہی تھی.

البتہ اب امریکی صدر خود اوپیک ممالک سے تیل کی پیداوار کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ایک سینئر امریکی عہدیدار نے بتایا کہ امریکی انتظامیہ نے سعودی عرب کو بتا دیا ہے کہ اگر انہوں نے تیل کی پیداوار کم نہ کی تو وہ امریکی کانگریس کو ان پر پابندیاں عائد کرنے سے نہیں روک سکیں گے اور اس کے نتیجے میں امریکی افواج کا سعودی عرب سے انخلا یقینی ہے.

انہوں نے سعودی اور امریکی راہنماﺅں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کو واضح طور پر پیغام میں کہا گیا تھا کہ ہم اپنی صنعت کا دفاع کر رہے ہیں جبکہ آپ اسے تباہ کر رہے ہیں جب امریکی صدر سے ہونے والی گفتگو میں سوال کیا کہ کیا انہوں نے سعودی ولی عہد کو امریکی افواج کے انخلا کی دھمکی دی ہے تو انہوں نے کہا کہ مجھے انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیںجب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے سعودی ولی عہد سے کیا کہا تو ٹرمپ نے جواب دیا کہ سعودی عرب اور روس کو معاہدے تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے میں نے سعودی ولی عہد سے ٹیلی فون پر بات کی اور ہم پیداوار میں کمی کے معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب رہے.

امریکی نشریاتی ادارے نے جب سعودی حکومت کے متعلقہ حکام سے اس سلسلے میں رابطے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا البتہ ایک سعودی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ معاہدہ اوپیک اور تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک کی خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے انہوں نے امریکی اور سعودی راہنماﺅں کے درمیان ہونے والی گفتگو پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب، امریکا اور روس کا اوپیک اور تیل کی پیداوار میں کمی کے معاہدے میں اہم کردار ہے لیکن معاہدے میں شرکت کرنے والے 23 ممالک کے تعاون کے بغیر یہ ہونا ممکن نہ تھا.

امریکی صدر کی جانب سے سعودی ولی عہد کو کی گئی کال سے ایک ہفتہ قبل ریپبلیکن سینیٹرز کیون کریمر اور ڈین سولیوان نے ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر سعودی عرب تیل کی پیداوار کم نہیں کرتا تو سعودی عرب میں موجود امریکی فوجی دستوں، پیٹریاٹ میزائل اور میزائل شکن دفاعی سسٹم کو ہٹا لیا جائے. اس موقع پر سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کی قیمتوں پر جاری کشمکش کے بعد اس قرارداد کی منظوری کے لیے دباﺅ بڑھنے لگا تھا کیونکہ روس نے اوپیک کے تیل کی سپلائی کے معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے پیداوار کم کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے بھی تیل کی پیداوار تیزی سے بڑھاتے ہوئے عالمی منڈی میں تیل کی بڑے پیمانے پر ترسیل شروع کردی تھی.

12اپریل کو ٹرمپ کے دباﺅکے نتیجے میں امریکا سے باہر تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک نے تیل کی پیداوار میں کمی کے تاریخ کے سب سے بڑے معاہدے پر اتفاق کرلیا تھا اوپیک، روس اور تیل پیدا کرنے والے دیگر اتحادیوں نے روزانہ کی بنیاد پر 97 لاکھ بیرل پیداوار کم کردی تھی جو عالمی پیداوار کا تقریباً 10 فیصد بنتی ہے اور اس سے سب سے زیادہ نقصان روس اور سعودی عرب کو ہوا کیونکہ آدھی سے زیادہ پیداوار ان ممالک سے کم ہوئی جہاں دونوں ہی ملکوں کو 25، 25 لاکھ بیرل کی پیداوار کم کرنے پڑیوعالمی سطح پر پیداوار میں 10 فیصد کمی کے باوجود دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں گرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور امریکی تیل کی قیمتیں گزشتہ ہفتے صفر ڈالر سے بھی نیچے چلی گئی تھیں کیونکہ تیل بیچنے والوں کے پاس اسے رکھنے کی کوئی جگہ نہیں رہی تھی.

سال کے آغاز میں برینٹ کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل تھی لیکن یہ کم ہو کر 15 ڈالر فی بیرل تک آ گئی تھیں جو 1999 کے بعد سب سے کم قیمت ہے اب تیل کی پیداوار میں کمی اور مختلف ملکوں کی جانب سے لاک ڈاﺅن کے خاتمے کے بعد معمولات زندگی بحال ہونے کے نتیجے میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا ان مذاکرات کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن فی الحال یہ مذاکرات تیل کی پیداوار کے حامل ممالک پر امریکی اثر و رسوخ کی جیتی جاگتی مثال ہیں.

امرکی سیکرٹری توانائی ڈین برولیٹ سے جب سوال پوچھا کہ کیا ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو امریکی افواج کے انخلا کی دھمکی دی تو انہوں نے کہا کہ امریکی صدر اپنے تیل کی پیداوار کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں جس میں ہماری جانب سے ان کی دفاع کی ضروریات سے دستبرداری بھی شامل ہے. امریکا اور سعودی عرب میں اسٹریٹیجک شراکت کا آغاز 1945 میں اس وقت ہوا تھا جب اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز بن سعود سے امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کوئنسی پر ملاقات کی تھی.

سعودی عرب نے امریکا کو اپنے تیل کے ذخائر تک رسائی دی تھی جس کے بدلے امریکا نے اپنی فوج کے ذریعے ان کے دفاع کا بیڑا اٹھایا تھا اس وقت امریکا کے تین ہزار فوجی سعودی عرب کے مختلف اڈوں پر موجود ہیں اور امریکی بحری بیڑا خطے سے تیل کی برآمدات کا تحفظ یقینی بناتا ہے ہتھیاروں کی فراہمی اور ایران جیسے حریف سے تحفظ کے لیے سعودی عرب مکمل طور پر امریکا پر انحصار کرتا ہے. سعودی عرب کی ناکامی اور کمزوری گزشتہ سال اس وقت کھل کر عیاں ہو گئی تھی جب 18 ڈرونز اور 3 میزائلوں نے سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا اور امریکا نے ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا تھا.