امریکہ کے دہرے معیار ہیں ،پہلے حقانی نیٹ ورک کو ایشو تھا اب اسی نیٹ ورک کے ساتھ مذاکرات ہوتے ہیں،مشاہد حسین سید

افغانستان اور ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے چاہیں،وہ ہی امریکہ جو ڈو مور کہتا تھا اب پاکستان کی تعریف کررہا ہے، سینٹ میں خطاب ال کی تباہی کے بعد امریکہ نے مانا کہ مزاکرات سے مسئلہ حل ہونا چاہیے،نائن الیون میں کوئی افغانی ملوث نہیں تھا ، سینیٹر مشتاق احمد ہمیں تاریخ کو مسخ نہیں کرنا چاہیے ،جب ڈاکٹر عافیہ کا نیا نیا مسئلہ تھا تب ایم ایم اے کی حکومت تھی ، شمالی اتحاد اور طالبان کی صلح ہونی چاہیے ،سینیٹر مشاہد اللہ خان انٹرا افغان مزاکرات ہوں، افغان اپنے فیصلے خود کرے،افغان امن ہماری خواہش نہیں ضرورت ہے،سی پیک پورے خطے کو تبدیل کرے گا ، وزیر مملکت علی محمد خان

پیر 27 جولائی 2020 23:58

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جولائی2020ء) پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ امریکہ کے دہرے معیار ہیں ،پہلے حقانی نیٹ ورک کو ایشو تھا اب اسی نیٹ ورک کے ساتھ مذاکرات ہوتے ہیں۔ پیر کو سینٹ میں افغانستان میں امریکہ طالبان امن معاہدہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ امریکہ کے دہرے معیار ہیں ،پہلے حقانی نیٹ ورک کو ایشو تھا اب اللہ کی شان دیکھیں کہ اٴْسی حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مزاکرات ہوتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ 6 ٹریلین ڈالرز کو ضائع کر دیا گیا جس میں سے 3 ٹریلین ڈالر کا کوئی حساب ہی نہیں،پہلے پومپیو نے خود آنا تھا پھر زلمے کو بھیج دیا گیا،یواین کی رپورٹ آئی کہ ٹی ٹی پی کے اڈے افغانستان میں ہیں،افغانستان اور ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے چاہیں،وہ ہی امریکہ جو ڈو مور کہتا تھا اب پاکستان کی تعریف کررہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ امریکی صدر کے پاس الیکشن جیتنے کے لیے ٹرمپ کارڈ کے علاوہ کچھ نہیں۔

انہوںنے کہاکہ ہم اب خود فیصلہ کریں خطے کی تقدیر کا جس میں چین کا کردار انتہائی اہم ہے۔مشاہد حسین سید نے کہاکہ طالبان امریکہ معاہدہ ، امریکہ کی شکست ہے،یہ معاہدہ پاکستان کے موقف کی فتح ہے،جنرل باجوہ نے غلط پالیسی کو تلف کیا جو افغانستان کو پانچوں صوبہ سمجھتے سے متعلق تھا ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ 19 سال کی تباہی کے بعد امریکہ نے مانا کہ مزاکرات سے مسئلہ حل ہونا چاہیے،نائن الیون میں کوئی افغانی ملوث نہیں تھا ۔

انہوںنے کہاکہ امریکہ نے افغان سرزمین پر اپنے سب سے بڑے ہتھیاروں کو استعمال کیا ،پاکستان افغانستان کو پانچواں صوبہ سمجھنا چھوڑے،پاکستان گڈ اور بیڈ طالبان کی تقسیم ختم کرے ،افغان سرحد پر باڑ لگانا مسائل کا حل نہیں ۔ انہوںنے کہاکہ عافیہ صدیقی افغان جنگ کی مظلوم بیٹی ہے، اسے پاکستان لایا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ حکومت کلبھوشن کے لیے آرڈینس لا سکتے ہیں، عافیہ صدیقی کے لیے نہیں ،افغان امن ، ایشیا کا امن ہے۔

بیرسٹر محمد علی سیف نے کہاکہ افغان امن معاہدہ ، کو ابھی فتح کہنا کچھ مناسب نہیں ،یہ امریکہ روس کی نہیں ، سوشلزم اور اینٹی سوشلزم کی جنگ تھی،افغان مسئلے کا یہ حل نہیں کب امریکہ یہاں سے بھاگ گیا ، امریکہ یہاں سے جانے کے لیے ہی آیا ،افغانستان میں شمالی افغانستان میں لوگ اس معاہدے میں نہیں ، یہ آج بھی پاکستانی سفارت خانے کا محاصرہ کرتے ہیں ،یہ افراد بھارت کے نظریات رکھتے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ جب امریکہ انخلاء کرے گا تو خلا پیدا ہو گا ، وہی پر کرے گی جو تخریب کاری کی صلاحیت رکھتی ہے ،مودی تو اس خلا کو پر کرنے آ جائے گا ، اس سے پاکستان سرحد پر حالات خراب ہوں گے ،اس سے آپ ملت اسلامی کو ان کے سامنے کا کھڑا کریں گے جو ان کے مخالف ہیں ،پاکستان کو اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔ مشاہد اللہ خان نے کہاکہ ہمیں تاریخ کو مسخ نہیں کرنا چاہیے ،جب ڈاکٹر عافیہ کا نیا نیا مسئلہ تھا تب ایم ایم اے کی حکومت تھی ،ڈاکٹر عافیہ ملک کی بیٹی ہے۔

انہوںنے کہاکہ جب عافیہ کو امریکہ کے حوالے کیا تھا تب کون حکومت میں تھا ۔ انہوںنے کہاکہ عافیہ صدیقی اور طالبان سفیر ملا ظریف کو حوالے کرنا ایسا دھبہ ہے جو ہم کبھی نہیں دھو سکیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے سفیر کو اس کے دشمن کے حوالے کیا جو آج تک کی دنیا کی تاریخ میں نہیں ہوا تھا ،پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ہم لا جیسٹک معاونت دیں گے لیکن ہم نے تو ائیر پورٹ بھی دے دئیے،اس بار تو افغانستان کو بھارت کے حوالے کر دیا ، کردار بھارت کو دے دیا ۔

انہوںنے کہاکہ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو افغان جہاد کونسل بنا ، اس میں مذہبی جماعت جمعیت علماء اسلام ف ، جماعت اسلامی تھی ،صرف ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ ن افغان جہاد کونسل کا حصہ تھی ، باقی سب سیاسی جماعتیں مشرف کے ساتھ تھیں ،شمالی اتحاد نے سب کو کچھ بھارت لے حوالے کر دیا ،غلط کیا کا صحیح ہم نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا ،طالبان کے دور میں چوری نہیں ہوتی گھی ، چودہ لوگ قتل ہوئے تھے ، اچھی باتیں بھی یاد کرنی چاہیے،شمالی اتحاد اور طالبان کی صلح ہونی چاہیے ،امن لے لئے متحرک گروپوں میں صلح ہونی چاہیے،انھیں امریکہ پر انحصار نہیں کرنا چاہیے،ہم ماضی کی چیزوں کو نہیں دھرانا چاہئے،افغانستان میں انسان بستے ہیں ، انکی جانیں بھی قیمتی ہیں ،امریکہ کو بھء وہاں سے جانا چاہیے،افغانیوں کو سوشل کنٹریکٹ کرنا چاہیے ، دور سے انکو سپورٹ کریں ۔

انہوںنے کہاکہ اسرائیلی پائلٹ جس دن گیا نور خان ائیرپورٹ پر طیارہ آیا تھا ، اسرائیل کے اخبار میں اس کی ہیڈ لائن لگی تھی ،اسرائیلی کے بدلے میں عافیہ کی بات ہو سکتی تھی ،اجلاس میں بتایا گیا تجا امریکہ سے رابطہ ہوا ہے اور ہم ابھینندن چھوڑ رہے ہیں ،دو افراد کو چھوڑا جو ہمیں مارنے آئے تھے اور عافیہ کو مانگ نہیں رہے۔ وزیرمملکت علی محمد خان نے کہاکہ افغان قوم تین بڑی قوتوں سے نبرد آزما ہوئے،افغان قوم نے کبھی غلامی پسند نہیں کی ، اپنی مٹی سے وفا کی ،ہم نے افغان بہن بھائیوں کے لیے ہم نے اپنے سینے کھولے ،ہمارے بازار اسکولز محفوظ نہ رہے ، ہمارے جنازے ، شادی پر ڈرون حملے ہوے ،وہ مجاہدین آج بھی قبر میں زندہ ہیں ،ان کی قربانی کا مزاق نہ اڑائیں جنھوں نے اپنی زمین قوم کی حفاظت کی ،ہمارے ملک میں خود کش بمبار کا تصور نہ تھا ۔

انہوںنے کہاکہ افغانستان اپنے فیصلے خود کرے ، یہ ہماری حکومت کی پالیسی ہے ،انٹرا افغان مزاکرات ہوں، افغان اپنے فیصلے خود کرے،افغان امن ہماری خواہش نہیں ضرورت ہے،سی پیک پورے خطے کو تبدیل کرے گا ۔ انہوںنے کہاکہ روس سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں ،سی پیک سے افغانستان کو فائدہ ہو ،افغان انٹرا مزاکرات میں کوئی مداخلت نہ کرے۔