د* اپوزیشن اراکین اسمبلی کا حاجی میر ذابد ریکی پر قاتلانہ حملے کی مذمت

منگل 25 اگست 2020 00:35

ض*کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 اگست2020ء) بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اراکین اسمبلی نے حاجی میر ذابد ریکی پر قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ جوڈیشل انکوائری اور چیک پوسٹیں ختم کرنا صرف یقین دہانیوں تک محدود ہیں ، بلوچستان کا امن پٹڑی سے اترتا جارہاہے ہم نے بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جاناہے تو پھر حکمرانوں کو بھی اپنی پالیسیاں تبدیل کرناہوںگی ،اپوزیشن اراکین کے آئینی حقوق سے انحراف کرنے سے معاشرہ انارکی کاشکار ہوجائے گا،واقعہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیاجائے اور ذمہ داران کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں ،حیات بلوچ کو قتل کرکے ان کے والدین کے ارمانوں کو خاک میں ملادیاگیا،بلوچستان میں جب ایک منتخب رکن اسمبلی کی زندگی محفوظ نہیں تو عام لوگوں کی زندگی کیسے محفوظ ہوگی ،چمن میں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا 26دن گزر گئے لیکن آج تک جوڈیشل کمیشن کا وعدہ پورا نہیں ہوا چمن میں فائرنگ کی ایف آئی آر عوام کے خلاف درج کرلی گئی ۔

(جاری ہے)

بلوچستان کی موجودہ صورتحال مکالمہ اور بات چیت کا تقاضا کرتاہے جبکہ حکومتی اراکین اسمبلی نے کہاہے کہ حیات بلوچ اور میر ذابد ریکی پر حملے انفرادی عملہ ہے ،حیات بلوچ کے واقعہ کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات ہورہی ہے اور بلوچستان حکومت مشکل کی اس گھڑی میں متاثرہ خاندان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں ۔میر ذابد ریکی پر حملے سے متعلق کمیٹی قائم کی گئی ہے جو 15روز میں اپنی رپورٹ دے گی ،ہمیں ان معاملات کو انسانی ہمدردی کی نظر سے دیکھتے ہوئے ان کے سد باب کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کااظہار حکومتی واپوزیشن اراکین اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی کے ریکوزیشنڈ اجلاس میں شامل ایجنڈے پر بحث کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں رکن صوبائی اسمبلی ثنا بلوچ نے کہاکہ انہوں نے تربت میں حیات بلوچ کے قتل اور بسیمہ کے علاقے ساجد میں زلزلے سے نقصانات کے حوالے سے دو تحاریک التوا جمع کرائے ہیں آج اجلاس کے ایجنڈے میں امن وامان کا مسئلہ ہی رکھاگیاہے لہذا میری حیات بلوچ کے قتل کے حوالے سے تحریک التوا کو پیش کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ اس سے اجلاس کے ایجنڈا نمبر2کے ساتھ منسلک کردیاجائے ۔

اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے حیات بلوچ کے قتل سے متعلق تحریک التوا ایوان میں پیش کرنے کیلئے ایوان سے رائے لی جس کی اجازت ملنے پر رکن صوبائی اسمبلی ثنا بلوچ نے اپنی تحریک التوا پیش کرتے ہوئے کہاکہ 13اگست کو تربت کے علاقے میں حیات بلوچ نامی نوجوان کو دن دیہاڑے بے دردی کے ساتھ ایف سی کے اہلکار نے درندگی کے ساتھ شہید کیا اس اندوہناک سانحہ نے بلوچستان کے والدین تعلیم یافتہ نوجوانوں ،طلبا وطالبات ،سول سوسائٹی اور عام عوام میں شدیداحساس عدم تحفظ ،خوف وہراس کا باعث بناہے اور بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پرامن مظاہرے ہورہے ہیں لہذا ایوان کی معمول کی کارروائی روک کر اس اہم اور قابل افسوس سانحہ پر تفصیلی بحث کی جائے ۔

اس موقع پر ایوان کی رائے سے رکن صوبائی اسمبلی حاجی ذابد علی ریکی اسی موضوع سے متعلق تحریک التوا کو بھی ثنا بلوچ کی تحریک التوا کے ساتھ منسلک کرکے بحث کیلئے امن وامان کے نقطے کے ساتھ منظور کرلیاگیا۔ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے ایجنڈے میں شامل کارروائی پر بحث کاآغاز کرتے ہوئے کہاکہ میر ذابد ریکی ایوان کے معزز رکن ہے انہیں جان سے مارنے کی کوشش کی گئی ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے تربت سے پیٹرول اور ڈیزل لانے والی گاڑیوں سے بھتہ لینے سے انتظامیہ کو منع کیا اس سے قبل بھی انہوں نے ڈپٹی کمشنر کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی جس پر ڈپٹی کمشنر نے یقین دہانی کرائی تھی کہ تمام چیک پوسٹ ختم کردئیے جائیںگے ،تربت سے کوئٹہ تک 63مقامات پر تیل کی ترسیل کرنے والوں سے پیسے لئے جاتے ہیں ،جہاں چھوٹی گاڑیوں سے 30ہزار جبکہ بڑی گاڑیوں سے ڈھائی لاکھ روپے تک لئے جارہے ہیں ہم نے اس معزز ایوان میں استدعا کی تھی کہ پیٹرول اور ڈیزل کی ترسیل کرنے والوں پر ٹیکس نافذ کرکے انہیں باقاعدہ پرچی تھمائی جائیں تاہم ایسا نہ کیا گیا انہوں نے کہاکہ ذابد ریکی عوام سے ووٹ لیکر منتخب ہوکرآئے ہیں اور انہوں نے انہی عوام کیلئے آواز بلند کی جس پران پر فائرنگ کی گئی اپوزیشن اراکین کے آئینی حقوق سے انحراف کرنے سے معاشرہ انارکی کاشکار ہوجائے گا،واقعہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیاجائے اور ذمہ داران کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں ،انہوں نے کہاکہ حیات بلوچ سی ایس ایس کی تیاری کررہا تھا اسے اس کے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر اعلی تعلیم دلائی تاہم اسے قتل کرکے ان کے والدین کے ارمانوں خاک میں ملا دئیے گئے ،انہوں نے صوبے میں پیش آنیو الے بدامنی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن وامان کو برقرارکھیں اور قانون کے نفاذ میں کوئی تفریق نہ برتی جائے ،انہوں نے کہاکہ صوبے میں غریب کیلئے الگ اور امیر کیلئے الگ قانون ہے یہ ایوان فیصلہ کرے کہ محکموں کے سیکرٹریز اپنے محکموں کے ذمہ دار ہے اور ان پر کوئی دبائو نہیں ہوگا اور آزادانہ اپنا محکمہ چلائیںگے پولیس کو پابند کیاجائے کہ وہ امن وامان کی صورتحال پر قابو پا کر عوام کو انصاف فراہم کرے،پاک افغان چمن بارڈر کی بندش سے متعلق ہم نے بروقت حکومت سے اقدامات کرنے کامطالبہ کیاتاہم بروقت اقدامات نہ ہونے پر اتنا بڑا سانحہ پیش آیا ۔

سابق وزیراعلی بلوچستان اور رکن اسمبلی نواب محمد اسلم رئیسانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ حیات بلوچ کے قتل کا واقعہ پہلا واقعہ نہیں اس کے قسم کے اکثر پراسرار واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم حیات بلوچ کا واقعہ سامنے آیا،حیات بلوچ کے ہاتھ اس کی والدہ کے چادر سے باندھے گئے واقعہ میں صرف ایک اہلکار ملوث نہیں وہاں موجود تمام افراد کو شامل تفتیش کیاجائے ،آئی جی ایف سی بحیثیت ایک سرکاری ملازم متاثرہ خاندان کے پاس گئے مگر وزیراعلی اور حکومت کی طرف سے کسی نے متاثرہ خاندان سے ہمدردی نہیں کی ،انہوں نے کہاکہ واقعہ میں ہونے والی بربریت کی فوٹیج وائرل ہوئی ہے ان تمام پہلوئوں کو دیکھاجائے کہیں بھی مظلوم اور غریب لوگوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جاتاآواران میں کتنے گائوں جلائے گئے ہیں اور لوگ لاپتہ ہیں ،انہوں نے کہاکہ پشتون بلوچ وطن میں آباد تمام معتبرین ہمارے لئے قابل احترام ہے ،بحیثیت اراکین اسمبلی صرف ہم بلوچستان کے معتبر نہیں یہاں بہت سے معتبرین ہیں جن کی ہماری نظروں میں عزت واحترام ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ملک کا تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والا وزیراعظم بھی جبر واستبداد کی وجہ سے پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے ،فواد چوہدری نے کہاکہ کشمیر کامسئلہ پنجابیوں اور کشمیریوں کا مسئلہ ہے تاہم آیا کشمیر ایک منٹ کی خاموشی یا نقشہ بنانے سے آزاد ہوگا ،انہوں نے کہاکہ فیڈریشن کو نقصان پہنچایاجائے ہم اپنے آئندہ نسلوں کو سول وار اور آگ میں نہیں جھونکناچاہتے اب ایسے اقدامات ختم ہونے چاہئیں ،حکومت کو مل بیٹھ کر پولیس اور لیویز کی استعداد کار میں اضافے کیلئے سوچنا چاہیے انہوں نے وزیراعلی بلوچستان کے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ایران سے آنے والے زائرین تفتان سے مستونگ تک ویرانوں سے گزر کر آتے ہیں تاہم ان زائرین کو شیخ واصل اور سبزی منڈی کے درمیان نشانہ بنایا گیا جب یہ ملک کے دیگر علاقوں کو جاتے ہیں تو انہیں کہیں نشانہ نہیں بنایاجاتا انہوں نے کہاکہ سراج خان رئیسانی پر خودکش حملہ بھی درینگڑھ کے مقام پر ہوتاہے میں اپنی حکومت میں شیعہ زائرین پر ہونے والے حملوں کا اگر ذمہ دار ہوں تو آج حکومت میں موجود اہل تشیع کے نمائندوں آج تک کیوں جوڈیشل انکوائری کرانے کامطالبہ نہیں کیا ،میرا گھر جلا ہے سراج رئیسانی کی قبر پر فاتحہ خوانی میں آج میں اور میرے بھائی جاتے ہیں جبکہ سراج کو میرے مخالف کھڑا کرنے والے آج تک ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے نہیں گئے ،اسلام آباد سے ایک پولیس آفیسر کواغوا کیاجاتاہے احسان اللہ احسان جیل توڑ کر فرار ہوجاتاہے اور 22دن تک گھومتا پھرتا وٹس ایپ پر رابطے بھی کرتاہے تاہم کسی کو پتہ نہیں چلتا ،انہوں نے کہاکہ اس فیڈریشن کو تباہ نہ کیاجائے ہم یہاں ہزاروں سالوں سے آباد ہیں اپنی قبریں چھوڑ کر نہیں جائینگے ۔

انہوں نے کہاکہ حاجی ذابد ریکی پر حملہ قابل مذمت ہے ،پارلیمان کی سیاست کرتے ہیں اور محسوس کررہاہوں کہ اعتدال پسندی کی سیاست کرنے والوں کو انتہاپسندی کی طرف لے جایاجارہاہے ۔انہوں نے کہاکہ انڈونیشیا میں تعینات پاکستانی سفارت کار نے سفارتخانہ ہی فروخت کردیا اگر ہم ایسا کرتے تو ہماری آئندہ نسلیں بھی یاد رکھتی ،اقتدار کو طول دینے کیلئے قتل وغارت گیری کا جو سلسلہ چل پڑاہے اسے بند کیاجائے چمن واقعہ صرف 500 روپے نہ دئیے جانے پر پیش آیا ،چمن میں سرحد پر اشیا کی اسمگل کرنے والے شخص سے 500روپے دینے کامطالبہ کیا جس پر انکار پر سرحد آمدورفت کیلئے بند کی گئی اور یہ دلخراش واقعہ پیش آیا۔

واقعہ میں 65کے قریب لوگ جاںبحق ہوئے ہیں ۔رکن صوبائی اسمبلی میر ذابد ریکی نے کہاکہ مجھے حلقے کے لوگوں نے شکایت کی تھی کہ ان سے سوراب چیک پوسٹ پر بھتہ وصول کیاجاتاہے جس پر میں خود چیک پوسٹ پر گیا اور دیکھا کہ وہاں بھتہ وصولی جاری تھی جسے فوری طورپر بند کرنے کی ہدایت کی اور وہاں پھنسی ہوئی گاڑیوں کو منزل کی طرف روانہ کیا اگلے دن ناگ میں نائب تحصیلدار اکرام سیاپاد سے کہاکہ چیک پوسٹوں پر بھتہ وصولی کو ختم کیاجائے میں اپنے علاقے میں کسی بھی غیر قانونی کام کو برداشت نہیں کیاجائے گاکچھ دیر بعد مجھے فون آیا کہ نائب تحصیلدار مجھ سے چٹ کے مقام پر ملنا چاہتاہے جب میں وہاں گیا تو نائب تحصیلدار نے طعش میں آکر مجھ پر فائرنگ کی تاہم میں نے اپنے گن مین کو بھی روکا کہ وہ جوابی کارروائی نہ کرے اسی اثنا میں علاقے کے لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے دھرنہ دیا جہاں سے وزیرخزانہ میر ظہور بلیدی گزررہے تھے اور انہوں نے میرے اوپر ہونے والے حملے کی تفصیلات طلب کی ،وزیر خزانہ نے اسی وقت چیف سیکرٹری ،سیکرٹری داخلہ اور کمشنر رخشان ڈویژن سے بات کی اور نائب تحصیلد ار کے خلاف کارروائی کی تجویز دی تاہم بعد میں نائب تحصیلدار نے میر ظہور بلیدی کے ہاتھ معافی مانگنے کا پیغام بھیجا لیکن میں نے بحیثیت بلوچ اس معافی کو مسترد کیا کیونکہ اگر ایک رکن صوبائی اسمبلی کے ساتھ نائب تحصیلدار کا یہ سلوک ہے تو عام آدمی کے ساتھ یہ کیا کرتے ہوںگے ۔

انہوں نے کہاکہ مجھے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ نائب تحصیلدار کے خلاف کارروائی ہوگی اور ایف آئی آر درج کرکے اسے معطل کیاجائے گا لیکن آج تک نہ ایف آئی آر ہوئی ہے اور نہ ہی معطلی ہوئی ہے انہوں نے کہاکہ ماشکیل میں انتظامیہ خود حالات خراب کررہی ہے ایسے لوگوں کو تعینات کیاجاتاہے جن کے خلاف ہم نے پہلے بھی شکایات کی اور انہیں ہٹایا گیا ایوان کو بتایاجائے کہ ایسے واقعات کب تک ہوتے رہینگے اور ان کے تدارک کیلئے کا اقدامات کئے گئے اگر میں وزیرمال ہوتا تو فوری طورپر نائب تحصیلدار کو معطل کرتا اور اس کے خلاف کارروائی کرتا لیکن کیا صوبائی وزیر ریونیو نے آج تک یہ نہیں پوچھا کہ ذابد تم زندہ ہو یا مر گئے جس پر صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہاکہ یہ نائب تحصیل دار کا انفردی عمل ہے معاملے کی تحقیقات کیلئے سی ایم آئی ٹی نے 17اگست سے کمیٹی قائم کردی ہے جو 15دن میں اپنی رپورٹ دے گی انہوں نے کہاکہ یہ معاملہ یکطرفہ نہیں بہت سی چیزیں ایوان میں نہیں بتا سکتا ہم معاملہ کمیٹی پرچھوڑتے ہیں وہ اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کریگی ۔

بی این پی کے رکن میر حمل کلمتی نے کہاکہ حیات بلوچ کا قتل قابل مذمت ہے توتک سمیت آج تک جتنے بھی واقعات کی کمیٹیا ں بنیں ان کی رپورٹ پر کوئی اقدام نہیں ہوا اتنے بڑے واقعہ پر پوری دنیا میں احتجاج ہورہاہے حیات بلوچ کا قاتل تو جیل میں ہے لوگ اس لئے احتجاج کررہے ہیں کہ ایسے واقعات کب تک ہوتے رہیںگے بلوچستان کے لوگوں نے ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں ہم سب یہاں کے وارث ہے یہاں کے لوگ تحفظ چاہتے ہیں آج بلوچستان میں احساس کمتری بڑھ رہی ہے جس کے خاتمے کیلئے مل کر سوچنا ہوگا موجودہ حکومت نے کرپشن بھتہ خوری ،اموات کے علاوہ صوبے کو کچھ نہیں دیا لیکن آج بھی وہ پریس کانفرنس کرکے اپنے دور کی کارکردگی بتا رہے ہیں ،ان کے بتائے ہوئے تمام منصوبے پچھلے ادوار کے ہیں موجودہ دور میں صرف ہمارے بچوں کی لاشیں مل رہی ہیں انہوں نے کہاکہ حاجی ذابد علی ریکی نے بھتہ خوری کے خلاف درست اسٹینڈ لیاہے ہم نے اپنی آنکھوں سے بھتہ خوری دیکھی ہے میں حیات بلوچ کے والدین اور برمش کو سلام پیش کرتاہوں کہ جنہوں نے اتنے بڑے سانحات سہے اور ثابت قدم ہیں ۔

صوبائی وزیر خزانہ میر ظہوراحمد بلیدی نے کہاکہ تربت میں حیات بلوچ کے قتل کو افسوسناک قراردیتے ہوئے کہاکہ جب واقعہ ہوا میں تربت میں موجود تھا اور فورا جائے وقوعہ پرپہنچا اور اس دوران ایف سی کے اعلی حکام بھی وہاں پہنچے اور تین گھنٹوں کے اندر واقعہ میں ملوث اہلکار پکڑا گیا سوشل میڈیا پر جو تصویر وائرل ہوئی ہے اسے دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوتی ہیں یقینا پیش آنے والا دلخراش واقعہ افسوسناک ہے اور میراس گھرانے کے ساتھ ذاتی تعلق بھی ہے انہوں نے کہاکہ ایف سی حکام نے ان کے والد سے ملاقات کی اورکہاکہ اگر متاثرہ خاندان مدعی نہیں بنتا تو ایف سی خود واقعہ میں مدعی بنے گی ،واقعہ کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات ہورہی ہے اور بلوچستان حکومت مشکل کی اس گھڑی میں متاثرہ خاندان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ یہاں بہت سے لوگوں کو معاملے کا علم نہیں ہے ملک ناز کے قاتل پکڑے گئے ،کالعدم تنظیم کے لوگوں نے وزیر خان کے گھر پر دھاوا بولا تاہم کسی نے اس پر بات نہیں کی ،پروم میں بی این پی کے کارکن محمد انور کے گھر پر پیش آنے والے واقعہ میں کالعدم تنظیم کے لوگوں نے ان کے مہمانوں کو قتل کیا اور بعدازاں محمد انور کو بھی قتل کیا گیا مگر یہاں کوئی نہیں بولا ،اسی طرح دشت میں کالعدم تنظیم کے لوگ بچے کو اٹھا کر لے گئے اور بچے سمیت اس کی دادی کو قتل کیاگیا مگر اس پر کوئی نہیں بولا ،عوام سے ووٹ لیکر ایوان میں پہنچے ہیں اور عوام کے امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں ،تربت میں پیش آنے والے واقعہ کی مذمت کرتے ہیں ،تاہم ایک شخص کے انفرادی عمل یا جنونیت میں مبتلا شخص کے عمل کاالزام اپنے اداروں پر نہیں لگایاجاسکتا دنیا کے دیگر ممالک میں مساجد ،گرجا گھروں میں جا کر جنونی افراد نے لوگوں کے ہاتھوں لوگ مارے گئے کیا وہاں بھی سیاسی جماعتوں نے واقعات پر سیاست کی اور لوگوں نے ریاست کو اس کا ذمہ دار قراردیاہے ،برمش کے والدہ کی قتل میں ملوث ملزمان قانون کے کٹہرے میں ہے ہمیں ان معاملات کو انسانی ہمدردی کی نظر سے دیکھتے ہوئے ان کے سد باب کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔

بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے کہاکہ بلوچستان میں جب ایک منتخب رکن اسمبلی کی زندگی محفوظ نہیں تو عام لوگوں کی زندگی کیسے محفوظ ہوگی ،صوبائی وزیر نے حیات کے قتل کو جنونیت کا نام دیکر واقعہ کو دبانے کی کوشش کی ہے 8گولیاں مارنے والا اہلکار جنونی نہیں ہوسکتااگر وہ جنونی تھا تواس کے ساتھ دیگر اہلکار بھی تھے جنہوں نے انہیں کیوں نہیں روکا ،انہوں نے کہاکہ ہمیں بلوچستانی ہونے کی سزا دی جارہی ہے 14اگست پر جلوس نکالنے سے کوئی محب الوطن نہیں ہوسکتا نہ ہمیں کسی سے محب الوطنی کی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے ۔

حیات بلوچ کے والد کے پیروں میں پیش کے چپل تھے ،حیات کے والد خوش نصیب ہے کہ انہیں اس کے بیٹے کی لاش ملی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں ،انہوں نے کہاکہ تعلیم اور صحت کے دروازے بند کردئیے گئے ہیں خونی شاہراہوں پر حادثات رونما ہورہے ہیں گزشتہ روز مٹھڑی کے قریب پیش آنے والے حادثے میں 12افراد لقمہ اجل بنے ہمیں حقائق کا جائزہ لیکر صوبے کو بہتری کی طرف لے جانا چاہیے ۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ امن وامان کی صورتحال مخدوش ہیں ،حیات بلوچ کو جس طرح والدین کے سامنے سرعام دن دیہاڑے قتل کیا گیا اس واقعہ کی پوری دنیا میں مذمت ہوئی یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل ارمان لونی کوشہید کیا گیا چمن میں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا 26دن گزر گئے لیکن آج تک جوڈیشل کمیشن کا وعدہ پورا نہیں ہوا چمن میں فائرنگ کی ایف آئی آر عوام کے خلاف درج کرلی گئی اور فائرنگ کرنے والے آج بھی چمن قلعہ میں محفوظ بیٹھے ہوئے ہیں چمن کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہواہے وہاں کے لوگ پرانے طرز پر مسئلے کا حل چاہتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ قائد حزب اختلاف ملک سکندر نے بھتہ خوری کے حوالے سے تمام چیک پوسٹوں کی نشاندہی کی ہے گزشتہ دنوں میں ژوب وشیرانی کے دورے پر گیا تھا بلیلی چیک پوسٹ پر جس طرح لوگوں کی تذلیل جاری ہے وہ قابل مذمت ہے ہر چیک پوسٹ پر بھتہ وصول کیاجاتاہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں انہوں نے کہاکہ 14اگست ہماری آزادی کا دن لیکن جلوسوں میں اکثر جرائم پیشہ ،لینڈ مافیا کے لوگ قومی جھنڈے کو لیکر اپنے جرائم کوچھپانا چاہتے ہیں ،ادارے اس کا نوٹس لیں میر ذابد ریکی اس اسمبلی کا رکن ہے جس طرح ایک نائب تحصیلدار اس پر فائرنگ کرتاہے اگر جوابی فائرنگ ہوتا تو کیا منظر ہوتا یہ تومعزز رکن نے صبر کامظاہرہ کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے ۔

انہوں نے کہاکہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں ہے ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرناہوگی اور اس پر بحث کرکے اس میں موجودہ خامیاں دور کرناہوگی۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی ثنا بلوچ نے کہاکہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال مکالمہ اور بات چیت کا تقاضا کرتاہے حیات بلوچ کی شہادت پر آج نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے ہورہے ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق سیاست سے نہیں بلکہ انہوں نے اس تکلیف کو محسوس کیاہے ہم بار بار امن وامان کی صورتحال کی بات کرتے آرہے ہیں بلوچستان کا امن پٹڑی سے اترتا جارہاہے ہم نے بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جاناہے تو پھر حکمرانوں کو بھی اپنی پالیسیاں تبدیل کرناہوںگی اس وقت بلوچستان میں خوف وہراس کاماحول ہے یہ حکمران کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو تحفظ اور نوجوانوں کو تعلیم وروزگار دیں وہ نوجوان جنہوں نے مستقبل میں جا کر اپنے ماںباپ کا سہارا بننا ہوتاہے مگر بوڑھے والدین کو نوجوان بیٹوں کی لاشیں دی جارہی ہے حیات بلوچ کی شہادت پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے چمن میں سانحہ پیش آیا تھا ہم نے اس پر بھی بات کی تھی معصوم برمش ماں سے محروم کردی گئی ہے ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب نوجوان جام شہادت نوش کررہے ہیں دوسری طرف بیماریوں اور سڑک حادثات میں انسانی جانیں ضائع ہورہی ہے صوبے میں ایک بحران کی صورتحال نظرآرہی ہے نہ جانے یہ کیسا سلسلہ ہے چمن بارڈر سے شروع ہوکر گوادر تک ختم ہونے میں نہیں آرہا جتنی چیک پوسٹیں ہیں اتنی چین میں بھی نہیں ہوںگی ،یہ کسی حکومت کیلئے اچھی بات نہیں ہوتی کہ قدم قدم پر چیک پوسٹ ہوں یہ حکمرانوں کیلئے المیہ ہے کہ آج دنیا بھر میں حیات بلوچ کیلئے احتجاج ہورہاہے حکمران اس احتجاج کو سمجھیں جو نوجوان بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں آج وہ یونیورسٹی نہ جانے کی باتیں کررہے ہیں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کل یہ نوجوان کہاں ہوںگے اس کااندازہ سب کو ہیں صوبے میں ایک مرتبہ پھر 2002 کی صورتحال بنتی جارہی ہے حکمرانوں کو اس صورتحال کو سمجھناہوگا ہمارا مقصد اسی حکومت یا ادارے کو تنقید کانشانہ بنانا نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ حالات ٹھیک ہوں ہم یہاں نوکری کرنے نہیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں اور ہمارا مقصد ان کی ترقی وخوشحالی ہے ۔

حیات بلوچ کی شہادت نہ صرف ایک اہلکار کی گرفتاری کافی نہیں بلکہ تمام چیزوں کو دیکھنا ہوگا انہوں نے کہاکہ ہم بلوچستان کے مسائل پر بات کرناچاہتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ بلوچستان میں دوبارہ عدم استحکام اور بدامنی پیداہوں ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان کا ہر جگہ بہتر امیج جائیں یہاں قانون کی بالادستی ہو اس کیلئے ضروری ہے کہ چیک پوسٹیں ختم کی جائیں طاقت کے ذریعے بلوچستان میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کیلئے محبت کا ایجنڈا لایاجائے ،تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر بات کریں اور آئندہ کسی بھی سانحہ سے بچنے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں ۔

جمعیت علما اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی میر یونس عزیز زہری نے کہاکہ حیات بلوچ کی والدہ کے سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں چمن واقعہ میں پشتونوں کو شہید کیا گیا جمعیت علما اسلام سب سے زیادہ دہشتگردی کے واقعات کاشکار رہی ہے ہمارے قائد پر 4حملے کئے گئے پھر بھی ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بارڈر کو کھولاجائے رکن اسمبلی حاجی ذابد علی ریکی پر حملہ انہیں طعش میں لاکر قتل کرنے کامنصوبہ تھا ،واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائیں ،انہوں نے کہاکہ ذابد ریکی نے بھتے لینے سے انتظامیہ کو روکا اگر یہ جرم ہے تو بھتہ کو قانونی قرار دیکر اسے آئین کا حصہ بنایاجائے ۔

بلوچستان اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈراصغرخان اچکزئی نے اگست میں ہونے والے متعدد واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ حیات بلوچ کے قتل میں ملوث ملزم گرفتاری ایک بہت بڑی کامیابی ہے مگر یہاں مسئلہ ذہنیت کا ہے ایک واقعہ سے تحریکیں بنتی ہے پی ٹی ایم نقیب اللہ محسود کے واقعہ سے بنا مگر کیا رائو انوار کو وہ سزا ملی جس کا وہ مستحق ہیں ،چمن بارڈر کھول کر قانونی تجارت کی اجازت دینے کامطالبہ کیا تاہم چمن میں پیش آنے والے واقعہ سے ہمیں بہت بڑا نقصان پہنچاہے دونوں جانب 50کے قریب افراد شہید ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم صوبے میں لیویز اور پولیس کی استعداد کار میں اضافے کی بات کررہے ہیں صوبے کے تین اضلاع میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق عدالت عالیہ میں درخواست دی ہے جو زیر التوا ہے انہوں نے حاجی ذابد ریکی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کامطالبہ کیا اصغرخان اچکزئی نے کہاکہ ہم پر الزام لگایاجاتاہے کہ آیا بی اے پی جو ہم سے کئی گناہ زیادہ وفادار جماعت ہے وہ کیوں 14اگست کو نہیں نکلی ،ن لیگ جو ہم سے لاکھ گنا زیادہ وفادار جماعت ہے وہ اور ق لیگ جو اس وقت وفاقی حکومت میں شامل ہیں وہ کیوں نہیں نکلے انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قائم چیک پوسٹوں پر لوگوں سے بھتہ وصول کئے جانے کی شکایات آتی رہی ہیں اگر یہ پیسہ حکومت کے خزانے میں جاتا تو ہمیں کوئی شکوہ نہ ہوتا ۔

بی این پی کے رکن اسمبلی احمد نواز بلوچ نے کہاکہ اگر ماضی کے واقعات کے خلاف کارروائی ہوتی توآج حیات بلوچ کاقتل نہ ہوتا اور ذابد ریکی کا واقعہ پیش نہ آتا ان واقعات کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن بنایاجائے ۔بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیرشاہوانی نے کہاکہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کیلئے مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے صوبے میں ناانصافیوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اگر کسی شخص نے کوئی جرم کیاہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے نہ کہ انہیں قتل کیاجائے رکن صوبائی اسمبلی ذابد ریکی کے معاملے پر کمیٹی بنائی جائیں جو معاملے کی آزادانہ تحقیقات کریں ۔

صوبائی وزیر سردارعبدالرحمن کھیتران نے کہاکہ ہم حیات بلوچ کے والدین کے غم میں برابر کے شریک ہیں لیکن بلوچستان میں صوبے کے بہت سے سپوتوں کو پاکستان کی حمایت کرنے پر قتل کیاگیا سیکورٹی فورسز دن رات ایک کرکے صوبے میں امن قائم کررہی ہے ان کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں ہونی چاہئیں ،اجلاس رات گئے تک جاری رہا۔