دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا، وزیر قانون

،بلوچستان کی حکومت نوشکی حملے میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، وفاقی حکومت بھی حکومت بلوچستان کی مدد میں پیش پیش ہے،لا اینڈ آرڈر صوبوں کی ذمہ داری ہے اور وفاقی حکومت ہمہ وقت دستیاب ہے،آئینی سربراہ کے خطاب کے دوران جو رویہ اختیار کیا گیا وہ شرمناک تھا، اعظم نذیر تارڑ ملک میں آئین اور قانون کا فقدان ہے،نارووال میں سرکاری گاڑی کی ٹکر سے نوجوان شہید ہوا کوئی پرسان حال نہیں، عمر ایوب پیٹرول کا دارو مدار درآمد پر ہے،عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہمیں بھی قیمت بڑھانی پڑتی ہے،وزیر قانون …کراچی کرچی کرچی ہورہاہے ، امین الحق صدرزرداری بطور صدر یونیٹی آف ریپبلک کی نمائندگی نہیں کر رہے، پیپلز پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ نہیں دیا، بیرسٹر گوہر جمشید دستی اور محمد اقبال نے نامناسب زبان کا استعمال کیا، دھمکی آمیز طریقے سے اسپیکر ڈائس کی طرف آئے اور باجے بجائے جسے کبھی بھی ایوان میں نہیں بجایا گیا،اس طرح کا رویہ ایوان میں اپنانے کی اجازت نہیں، اسپیکر نے جمشید دستی اورمحمد اقبال خان کو سیشن کیلئے معطل کر دیا

جمعہ 19 اپریل 2024 13:30

اسلام آبا د(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اپریل2024ء) وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا ہے کہ دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائیگا،بلوچستان کی حکومت نوشکی حملے میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، وفاقی حکومت بھی حکومت بلوچستان کی مدد میں پیش پیش ہے،لا اینڈ آرڈر صوبوں کی ذمہ داری ہے اور وفاقی حکومت ہمہ وقت دستیاب ہے،آئینی سربراہ کے خطاب کے دوران جو رویہ اختیار کیا گیا وہ شرمناک تھاجبکہ پیپلز پارٹی کی رکن شرمیلا فاروقی کو بولنے کی اجازت نہ ملنے پر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو اور پیپلز پارٹی نے علامتی واک آؤٹ کیا ،وزراء کی تقریر کے دور ان اپوزیشن ارکان کی جانب سے ایک بار پھر شدید احتجاج اور نعرے بازی کی گئی ،سپیکر نے جمشید دستی اورمحمد اقبال خان کو سیشن کیلئے معطل کرتے ہوئے کہاہے کہ جمشید دستی اور محمد اقبال نے نامناسب زبان کا استعمال کیا، دھمکی آمیز طریقے سے اسپیکر ڈائس کی طرف آئے اور باجے بجائے جسے کبھی بھی ایوان میں نہیں بجایا گیا،اس طرح کا رویہ ایوان میں اپنانے کی اجازت نہیں۔

(جاری ہے)

جمعہ کو قومی اسمبلی کااجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا جس میں خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عمر ایوب کی تقریر کا جواب دہتے ہوئے بتایا کہ مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ قانون پڑھایا کہاں سے جارہا ہے، اٴْس طرف سے قانون اور پارلیمانی روایات کا جو حال کیا گیا وہ سب کے سامنے ہیں۔وزیر قانون کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے شور شرابہ کردیا۔

وزیر قانون نے کہا کہ پہلی دفعہ ایوان میں مشترکہ اجلاس میں صدارتی خطاب نہیں ہوا اس پر معزز اراکین پہلے بھی بات کرتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئینی سربراہ کے خطاب کے دوران جو رویہ اختیار کیا گیا وہ شرمناک تھا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بلوچستان کی حکومت نوشکی حملے میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، وفاقی حکومت بھی حکومت بلوچستان کی مدد میں پیش پیش ہے، علاقے میں دہشتگرد تنظیموں کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری ہیں، اسی طرح کشمور میں بھی سندھ پولیس کام کر رہی ہے، سندھ پولیس نے آپریشن شروع کردیا ہے اور وفاقی ایجنسی بھی ان کی مدد میں حاضر ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ مسئلے پرانے ہیں ان پر کام ہورہا ہے، بد قسمتی سے چار دہائیوں سے پاکستان دہشتگردی کے نشانے پر ہے، اسی ایوان میں سیکیورٹی بریفنگ بھی کروائی گئی تھی، وہ دہشتگرد جنہیں سیکیورٹی فورسز نے جانوں کے نظرانے پیش کر کے ملک سے باہر دھکیلا ان کو واپس ملک میں لایا گیا، حکومت کی اس میں زیرو ٹالرنس پالیسی ہے۔اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ روز ہمارے جوان جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، حکومت کا عزم ہے کہ دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے، ان کو ان کی زبان میں جواب دیا جائے گا، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔

انہوںنے کہاکہ لا اینڈ آرڈر صوبوں کی ذمہ داری ہے اور وفاقی حکومت ہمہ وقت دستیاب ہے اور انہوں نے کبھی بھی ذمہ داری اٹھانے سے منع نہیں کیا، جہاں بھی وفاقی حکومت کی ضرورت ہوگی وہاں حکومت موجود تھی اور رہے گی۔قبل ازیں پاکستان سنی اتحاد کے رہنما عمر ایوب نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر پر لازم ہے کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کریں، قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا ہے ملک میں آئین اور قانون کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، ملک میں مہنگائی کا مسئلہ ہے ان چیزوں پر بات چیت ہونی چاہیے، ہم لوگوں نے آئین و قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے۔عمر ایوب نے کہا کہ آپ نے تحریک پیش کرنی ہے کہ صدر کے خطاب پر بحث کرنی ہے، اپوزیشن لیڈر تحریک پر بحث کرے گا، اراکین اس پر بات کریں گے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز نارووال میں سرکاری گاڑی کی ٹکر سے نوجوان شہید ہوا کوئی پرسان حال نہیں، ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی نہیں۔

اجلاس کے دور ان نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ایکٹ 2018میں ترمیم سے متعلق بل ایوان میں پیش کیا گیا، وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کی سالانہ رپورٹ 2022 بھی قومی اسمبلی میں پیش کی گئی۔اس کے بعد پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے سوال پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان میں پیٹرول کا دارو مدار درآمد پر ہے اور جب عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہمیں بھی قیمت بڑھانی پڑتی ہے، صارفین کی سہولت کے لیے اور پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی بلا تعطل دستیابی کو جاری رکھنے کے لیے حکومت نے 15 روز کی میعاد رکھی ہے، ہر 15 روز بعد پیٹرول کی قیمتوں کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے عالمی مارکیٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے۔

انہوںنے کہاکہ پچھلے چند دنوں میں عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس کا بوجھ صارفین پر آنا ہے مگر حکومت کی کوشش رہی ہے کہ جس حد تک قیمتوں کو نیچے رکھا جاسکے وہ کریں۔بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ کے امین الحق نے کراچی میں اسٹریٹ کرائم پر توجہ دلاؤ نوٹس دلاتے ہوئے کہا کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے، یہ پاکستان کا معاشی حب ہے، کراچی جاگتا ہے تو ملک سوتا ہے لیکن کراچی آج کرچی کرچی ہو رہا ہے، آج شہر خون کے آنسورو رہا ہے، روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں اسٹریٹ کرائمز ہورہے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر کراچی کے عوام جنازے اٹھارہے ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ آئی جی سندھ کو چاہیے کہ کراچی کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بیٹھیں اور معاملات حل کریں اور اسٹریٹ کرائم کے جن کو قابو میں لائیں، وفاقی وزیر داخلہ آج تک ایوان میں نہیں آئے، انہیں یہاں آنا چاہیے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمیں آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے احتجاج کرنا پڑتا ہے، ہم صرف دو چیزوں پر توجہ دلانے چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ایوان آئین و قانون کے مطابق چلے، ہم یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ صدر کی تقریر کے بعد ایوان کیسے چلانا چاہیے۔

انہوںنے کہاکہ صدرزرداری بطور صدر یونیٹی آف ریپبلک کی نمائندگی نہیں کر رہے، انہوں نے پیپلز پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ نہیں دیا، زرداری آج بھی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم ان کے خطاب پر بات کرنا چاہ رہے ہیں، یہ آرٹیکل 56 کے مطابق ہے۔اسپیکر نے جواب دیا کہ جب صدر کی تقریر آئے گی تو ایجنڈا میں ہم اسے شامل کر لیں۔

بعد ازاں شرمیلا فاروقی کو بولنے کی اجازت نہ ملنے پر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو اور پیپلز پارٹی نے واک آؤٹ کردیا، بعد ازاں بلاول بھٹو اور دیگر اراکین قومی اسمبلی اجلاس میں واپس آگئے۔بعد ازاں آصف زرداری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں غیر سیاسی لوگوں کو سیاسی عہدوں پر رکھنے کی روایت پڑ گئی ہے، صدر صاحب منتخب ہوئے، ہمارے آئین نے کبھی نہیں کہا کہ سیاسی لوگوں کو سیاسی پوزیشنز پر نہیں رکھا جائے۔

بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی نے سوال کیا کہ 18 اپریل کو صدر کے خطاب کے دوران جمشید دستی اور محمد اقبال نے نامناسب زبان کا استعمال کیا، وہ دھمکی آمیز طریقے سے اسپیکر ڈائس کی طرف آئے اور باجے بجائے جسے کبھی بھی ایوان میں نہیں بجایا گیا، اس طرح کا رویہ ایوان میں اپنانے کی اجازت نہیں، میں ایوان سے پوچھتا ہوں کہ کیا ان جمشید دستی اورمحمد اقبال خان کو سیشن کے لیے معطل کردیا جائی بعد ازاں ایوان اسپیکر نے ایوان کی اجازت پر جمشید دستی اورمحمد اقبال خان کو سیشن کے لیے معطل کرتے ہوئے ایوان کا اجلاس 23 اپریل تک ملتوی کردیا۔