ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات کا اندراج کے ساتھ ہی بدین کا سیاسی ماحول گرم ہو گیا

ایک بار پھر شٹرڈائون ،احتجاجی ریلیاں، مظاہرے اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ، مرزا گروپ کا پیپلزپارٹی پر انتقامی کاروائی کا الزام جبکہ پیپلزپارٹی کا لاتعلقی کا اظہار

اتوار 4 اگست 2024 18:05

بدین(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 اگست2024ء) ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات کا اندراج کے ساتھ ہی بدین کا سیاسی ماحول گرم ہو گیا، ایک بار پھر شٹرڈائون ،احتجاجی ریلیاں، مظاہرے اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ، مرزا گروپ کا پیپلزپارٹی پر انتقامی کاروائی کا الزام جبکہ پیپلزپارٹی نے معاملہ سے لاتعلقی کا اظہارکردیا۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق بارہ سال قبل صدر پاکستان آصف علی زرداری اور ان کے بچپن کے دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا میں جنم لینے والے اختلافات کے بعد بدین کی سیاست نے ایک باپھرتصادم کی شکل اختیار کرتے ہوئے ضلع بھر میں احتجاج اور انتقامی کاروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ان کے 200 سے زائد ساتھیوں پر بدین ضلع کے مختلف تھانوں کے علاوہ کراچی میں قائم کئے گئے 32 سے زائد مقدمات مختلف عدالتوں میں طویل عرصے تک زیرسماعت رہنے کے بعد ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ان کے ساتھی 26 سے زائد مقدمات میں بری ہو چکے ہیں ، بارہ سال قبل آصف علی زرداری اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کے بعد ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے حمایتوں اور ہمدردوں کو سندھ پولیس کے سامنے کھڑا کر دیا ، بدین اور کراچی میں عدالتی اور قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ بدین اور کراچی میں سندھ پولیس کے چھاپوں گرفتاریوں کے علاوہ تصادم اور تشدد کی ایک طویل جنگ نے بدین کی سیاست کو انتقامی کی شکل میں تبدیل کر دیا جس کے بعد پہلے ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور بعد میں ہونے والے عام انتخابات میں بدین کے عوام نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی اہلیہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے علاوہ ان کے بیٹوں کو بہت بڑی تعداد میں ووٹ دے کر ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا جس کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت نے بدین ضلع میں پیپلزپارٹی کی کمزور پوزیشن کو دیکھتے ہوئے پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کے علاوہ فریال تالپور نے پیپلز پارٹی کی کمزور سیاسی گرفت کو سہارا دینے کے لئے بدین کا رخ کیا جبکہ ان کی خصوصی ہدایت پر ملک بھر سے پیپلزپارٹی کے ارکین اسمبلی سینیٹرز سابق وزرا بااثر شخصیات پارٹی کے مرکزی اور صوبائی عہدیدران کے علاوہ مختلف قبائل کے سرداروں برادریوں کے سربراہان ، درگاہوں اور مزارات کے گدی نشینوں کو گزشتہ اور حالیہ عام انتخابات میں بدین آکر پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی انتخابی مہم چلانی پڑی جبکہ سرکاری مشینری کا استعمال بھی کھلے عام دیکھا گیا ، تمام تر کوششوں سرکاری مشینری اور وسائل کے استعمال کے بعد حالیہ انتخابات میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے نامذد امیدواروں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور پیپلزپارٹی کے امیدوار کامیاب قرار پائے ، قومی اور صوبائی سطح کی حکومت سازی ، سنیٹ کے انتخابات اور صدارتی انتخاب کے مکمل ہونے کے بعد بدین کی سیاست میں ایک بار پھر گرما گرمی کا آغاز ہو گیا ہے ، بارہ سال قبل ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ان کے ساتھیوں پر قائم 32 سے زائد مقدمات میں سے 26 مقدمات کے عدالتی فیصلوں میں خاتمے کے بعد ایک بار پھر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات کا اندراج کے ساتھ ہی بدین میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ساتھی جی ڈی اے مرزا گروپ کے سرگرم رہنما دلبر خواجہ اور فیصل چیمہ چھ روز قبل اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنی زرعی اراضی سے واپس ٹنڈوباگو میں واقع اپنے گھر آرہے تھے کہ 15 سے زائد پولیس موبائل گاڑیوں پر سوار سادہ اور پولیس وردی میں ملبوس اہلکاروں نے زبردستی گاڑی سے اتار کر اپنے ساتھ لے روانہ ہو گئے ، دلبر خواجہ اور فیصل چیمہ کی گرفتاری کی اطلاع ملتے ہی ٹنڈوباگو، بدین ، نندو، گولارچی ، کڑیو گھنور ، اور دیگر شہروں میں احتجاجی ریلیوں مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ، جی ڈی اے مرزا گروپ کے سرگرم رہنما دلبر خواجہ اور فیصل چیمہ کی گرفتاری اور لاپتہ کرنے کی اطلاع پر عوامی سطح پر شدید ردعمل اور احتجاج کے بعد چار روز قبل دونوں گرفتار رہنمائوں کو قمر شہداد کورٹ کے ایک تھانہ میں چرس اور آئس رکھنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کر کے مقامی عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے جبکہ لاڑکانہ جیل میں قید جی ڈی اے مرزا گروپ کے رہنماں دلبر خواجہ اور فیصل چیمہ سے مرزا گروپ جی ڈی اے کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام ، سندھ ترقی پسند پارٹی ، سندھ یونائیٹڈ پارٹی جماعت اسلامی اور دیگر قوم پرست جماعتوں کے رہنماں کے علاوہ کارکنوں اور رشتیداروں کی ملاقات کا سلسلہ بھی جاری ہے ، جی ڈی اے مرزا گروپ اور ان کے اتحادی دونوں رہنماں کی گرفتاری کو بدترین انتقامی کاروائی قرار دے کر اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت اس سارے معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے کو پولیس کا معاملہ قرار دے دیا ہے ۔