ایسا لگتا ہے مسلم لیگ(ن) بھی کسی حد تک چاہتی ہے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچائے،سعیدغنی

پیر 21 اپریل 2025 18:52

ایسا لگتا ہے مسلم لیگ(ن) بھی کسی حد تک چاہتی ہے پیپلز پارٹی کو نقصان ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اپریل2025ء)وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) بھی کسی حد تک چاہتی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچائے۔ ہمارے حصہ کا پانی ہمارے صوبے میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا فائدہ پورا ملک اٹھاتا ہے۔ میں مسلم لیگ نون کے دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے دماغ سے یہ بات نکال دیں کہ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات ہوں گے اور کسی طرح ہم کینالز پر مان جائیں گے، ہم کسی صورت کینالز کو نہیں مانیں گے۔

آصف علی زرداری صدر پاکستان ہیں اور صدر پاکستان کے پاس ائین کے تحت کسی قسم کا کوئی ایگزیکیٹو اختیار نہیں ہے۔ ہماری پارلیمانی جمہوریت میں جو اختیارات ہوتے ہیں وہ وزیر اعظم کے پاس ہوتے ہیں، لیکن پانی کی تقسیم کا اختیار وزیر اعظم کے پاس بھی نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اپوزیشن والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں، وہ جو بند کمرے میں بات ہوئی جو کسی نے نہیں سنی اس پر ڈھول پر ڈھول پیٹ رہے ہیں۔

سندھ کی وہ اپوزیشن جماعتیں جو کینالز کے نام پر سندھ کے عوام کو تقسیم کرنے کی سازش کررہی ہیں ان سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ وہ کس ایجنڈے پر کام کررہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز صوبائی الیکشن کمیشن میں سینیٹ کے ضمنی انتخابات کے لئے پیپلز پارٹی کے امیدوار سید وقار مہدی کی کاغذات کی اسکرونٹی کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر سید وقار مہدی، رکن سندھ اسمبلی آصف خان، لیاقت آسکانی و دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کا میں نے کلپ دیکھا اور ایک روز قبل مجھ سے مصدق ملک کے حوالے سے بھی پوچھا گیا تھا اس وقت میں نے ان کی بات چیت نہیں دیکھی پھر ان کا بھی کلپ دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ پی ایم ایل بھی کسی حد تک چاہتی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچائے۔

انہوں نے کہا کہ نون لیگ کے لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی شاخ کو بچانے کے لئے کینال کے معاملہ پر کوئی موقف تبدیل کیا ہے یا اپنایا ہے، یا احتجاج کیا ہے، یا چیئرمین بلاول اور وزیر اعلی سندھ تقاریر کررہے ہیں۔ اگر اس طرح کی باتیں اور کوئی کرے تو ہمیں حیرت نہ ہو، لیکن پی ایم ایل نون کے لوگوں کی طرف سے بدنیتی نظر آتی ہے کہ جب یہ کینال کا منصوبہ آیا اس وقت نگراں حکومت تھی اور انہوں نے بھی اس کی مخالفت کی اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو پہلے دن سے ہم اس کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔

ہم نے بارہا خطوط لکھیں ہیں، بار ہا بات چیت کی ہے، اسمبلی میں بات کی ہے، اسمبلی کی قراردادیں موجود ہیں اور یہ قرارداد حالیہ نہیں بلکہ اس پر ہم پہلے بھی بات کرچکیں ہیں، ہمارے وزیر آبپاشی اس پر مسلسل بولتے رہے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ ہمارا موقف تو بہت پہلے ہی آچکا تھا، یہ دیگر جماعتوں نے سندھ میں احتجاج شروع کیا وہ بہت بعد کی بات ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ اگر اب یہ کوئی یہ کہے کہ سندھ میں مخالفین کے احتجاج کے بعد ہم۔نے کوئی بات کی ہے تو کوئی مناسب بات نہیں ہے اور اگر مصدق ملک یہ کہہ رہے ہیں کہ گیس لے رہے تھے تو بات نہیں کی اور پانی لے رہے ہیں تو بات کررہے ہیں تو گیس ہم نہیں کے رہے بلکہ صوبہ سندھ کہ گیس جارہی ہے دیگر صوبوں کو۔ ہم نے کسی صوبے کی گیس نہیں لی ہے اگر ان کے ذہن میں کوئی غلط فہمی ہے تو وہ اس کو دور کرلے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ کی گیس بھی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہی اور جارہی ہے، صوبہ سندھ کے لوگوں کو نہیں مل رہی، ہمارے گھروں میں گیس نہیں آرہی تھی، ہماری صنعتوں کو گیس نہیں مل رہی تھی تو اس پر بھی ہم نے باربار احتجاج کیا ہے کہ آئین کے تحت یہ ہمارا حق ہے اور سندھ میں جو گیس نکلتی ہے وہ سندھ کو ملنی چاہیے اس کے بعد اضافی گیس کسی اور کو دیں اس کو بھی غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں۔

پھر پانی دینے کی بات آئی تو اس پر اعتراض کرتے ہیں، انہون نے کہا کہ بات اعتراض کی نہیں پانی آپ کے پاس ہے ہی نہیں، ہمارے صوبہ سندھ کے حصہ کا جو پانی ہے وہ ہمیں نہیں مل رہا، جب ہمیں پانی نہیں ملے گا تو ظاہر ہے ہم کسی کو اپنا پانی نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کم اپنے حصہ کا پانی اپنے عوام پر استعمال کرنا چاہتے ہیں اپنے صوبے پر استعمال کرنا چاہتے ہیں اور اگر ہمارے صوبے میں پانی استعمال ہوتا ہے تو اس کا فائدہ پورا ملک اٹھاتا ہے۔

یہ نہیں کہ جو کاشت صوبہ سندھ میں ہوتی ہے وہ پوری کی پوری صوبہ سندھ میں استعمال ہوجاتی ہے، وہ پورے ملک میں جاتی ہے شاید ملک سے باہر بھی جاتی ہو، جس سے ملک کو زرمبادلہ ملتا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ نون لیگ کے لوگوں کی اس حوالے سے نکتہ نظر دیکھا ہے وہ مثبت نہیں ہے۔ آج بھی وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اس اشیو پر جو بات کررہی ہے وہ کسی سیاسی مجبوری کے تحت کررہی ہے۔

ہم کسی سیاسی مجبوری کے تحت بات نہیں کررہے ہیں، ہم سندھ کے لوگوں کی نمائندگی کررہے ہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی نے ہر موقع پر ہمارے تاریخ اس کی گواہ ہے کہ جس نے بھی صوبہ سندھ کے حق پر ڈالا ڈالنے کی کوشش کی ہے، ہمارا حق غضب کرنے کہ کوشش کی ہے تو ہم نے اس پر واضح موقف اپنایا ہے، ہم نے کبھی بھی کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی نرم رویہ اپنایا ہو۔

سعید غنی نے کہا کہ میں مسلم لیگ نون کے دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے دماغ سے یہ بات نکال دیں کہ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات ہوں گے اور کسی طرح ہم کینالز پر مان جائیں گے، ہم کسی صورت کینالز کو نہیں مانیں گے۔ سعید غنی نے کہا کہ مذاکرات اسی بات پر ہوں گے وہ کینال کے منصوبے کو رد کریں اور رد کرنے کے حق میں ہم بات کریں گے ان کو ثبوت دیں گے، ان کے سامنے ڈیٹا پیش کریں گے کہ جو بات یہ کہہ رہے ہیں وہ بالکل غلط ہے، پانی صوبہ سندھ میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے سابق وزیر آبپاشی کو یہ کہتے بھی سنا کہ اضافی پانی نہیں ہے تو ہم پنجاب میں جو پانی ہے ہم اسی سے پانی لیں گے، یہ بات تو ہم بار بار کہتے آرہے ہیں کہ یہ مسئلہ صرف سندھ کا نہیں ہے یہ پنجاب کا بھی مسئلہ ہے۔ اگر پنجاب کے وہ لوگ جو آج زمینیں آباد کررہے ہیں، جن کی زمینیں آباد ہورہی ہیں اگر ان کا پانی لے کر آپ چولستان کو آباد کرنا چاہتے ہیں تو یہ کوئی ایسا راکٹ سائنس نہیں ہے بلکہ کامن سینس کی بات ہے کہ آپ کسی نہ کسی ضلع کی، کسی نہ کسی پنجاب کے علاقے کی زمین کو پانی ملتا ہے اس میں کمی کریں گے اور جو زمینیں ابھی آباد ہورہی ہیں ان کو بنجر کریں گے اور دوسری بنجر زمین کو آباد کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب یہ منصوبہ آیا تھا اس وقت نگراں حکومت تھی اور آصف علی زرداری اس وقت صدر پاکستان نہیں تھے تو یہ منصوبے آصف علی زرداری نے تو شروع نہیں کروائے۔ یہ منصوبے نگراں دور حکومت میں شروع ہوئے اور اس وقت بھی اس کی منظوری ہوئی تو صوبہ سندھ میں جو اس وقت کے نگراں وزیر اعلی تھے انہوں نے اس پر اعتراض اٹھایا اور اس پر خط لکھا تھا۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی نے ارسا کے اس خط کو چیلنج کیا۔ سعید غنی نے کہا کہ آصف علی زرداری صدر پاکستان ہیں اور صدر پاکستان کے پاس ائین کے تحت کسی قسم کا کوئی ایگزیکیٹو اختیار نہیں ہے۔ ہماری پارلیمانی جمہوریت میں جو اختیارات ہوتے ہیں وہ وزیر اعظم کے پاس ہوتے ہیں، لیکن پانی کی تقسیم کا اختیار وزیر اعظم کے پاس بھی نہیں ہے، اب جب بااختیار وزیر اعظم بھی کینالز کی منظوری نہیں دے سکتا۔

اس کے لئے علیحدہ فورم موجود ہے۔ آصف علی زرداری نے بند کمرے میں مٹینگ کی اس کا تو اپوزیشن والے جس کا ڈھول پیٹ رہے ہیں وہی آصف علی زرداری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کھڑے ہوکر پوری دنیا کے سامنے یہ کہہ رہا ہے کہ میں کینالز کے منصوبے کو سپورٹ نہیں کرتا، یہ غلط ہے۔ اس سے صوبوں کے مابین عدم اتفاق اور خلا پیدا ہوگا اور یہ مناسب نہیں ہے۔

وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ بیٹھے اور اس حوالے سے اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری واضح طور پر جو کہہ رہے ہیں اس کو اپوزیشن والے سننے کو تیار نہیں ہیں، وہ جو بند کمرے میں بات ہوئی جو کسی نے نہیں سنی اس پر ڈھول پر ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری آئین میں صدر کو جو طریقہ کار منتخب کرنے کے حوالے سے ہے اس کے تحت منتخب ہوئے ہیں۔

اسی طرح چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بھی آئین میں درج طریقہ کار کے تحت منتخب ہوئے ہیں۔ دو صوبوں کے گورنر وزیر اعظم نے منتخب کئے ہیں باقی تمام عہدے آئین میں درج طریقے سے منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتیں بنتی ہیں اوع مختلف جماعتوں کی سپورٹ لیتے ہیں تو کہی نہ کہی کوئی چیز طے ہوتی ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ نون لیگ نے وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی اپنا حصہ لے اس کی کوشش کی، کابینہ میں حصہ دار بنے۔

ہم۔نہیں بنے ہیں۔ اب اگر ہم وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہیں تو حکومت تو کابینہ ہوتی ہے۔ ہم تو حکومت نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کو سپورٹ ضرور کرتے ہیں۔ اگر حکومت کو سپورٹ ہمارے لئے مسئلہ بنے گی ، ہماری صوبہ سندھ جہاں ہماری حکومت ہے جہاں ہم لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں اس کے لئے مسائل پیدا کرے گی، تو یقینی طور پر ہم یہ بات ضرور سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ہمیں اس حکومت کو سپورٹ کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان ہوں، چیئرمین سینیٹ ہوں، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ہو اگر نون لیگ ہمارے اپنے خلاف ہوجاتی ہے اور لڑائی بڑھ جاتی ہے تو آئین میں طریقہ کار موجود ہیں کہ ان کو ہٹانے کی کوشش کرلیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ پیپلز پارٹی موقف ایک ہی ہے کہ کینالز نہیں بننے چاہیے، باقی جماعتیں، وکلا و دیگر شعبہ سے لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ کینالز نہیں بننے چاہیے۔

ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ میں تو ہر بار اور ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ یہ خوش آئند ہے کہ انہوں نے کینالز نہ بننے پر اسٹینڈ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ کے تمام لوگوں کا سیاسی تفریق سے ہٹ کر جو پیپلز پارٹی میں یا نہیں ہیں سب یہ کہتے ہیں کہ کینالز نہیں بننے چاہیے تو اس پر تو ہماری لڑائی بنتی ہی نہیں ہے اور آپس میں اتفاق سے ہمیں ایک بات کرنی چاہیے۔

لیکن پیپلز پارٹی کے جو مخالف ہیں ان کو کوئی موقع نہیں ملا کہ وہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں کمزور کرسکیں تو انہوں اس اشیو کو موقع غنیمت جانا اور آصف علی زرداری کی کوئی مٹینگ کا ریفرنس بنا کر اس کو اچھالنا شروع کردیا، اس کو بنیاد بنا کر پیپلز پارٹی کی سپورٹ لینے کی بجائے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہیں۔ ہمیں کینالز بنانے والوں کے ساتھ کھڑا کرتے ہیں۔

تو یہ صوبہ سندھ کی خدمت نہیں کررہے کہ صوبہ سندھ کے لوگوں کا ایک موقف ہے لیکن یہ ہمارے مخالفین اس موقف میں کسی قسم کی تقسیم پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کس ایجنڈے پر ہیں۔ کیا صوبہ سندھ کے لوگوں کی ایک آواز ہوجائے وہ موثر ہوگی یا اس میں تقسیم پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی وہ اپوزیشن جماعتیں جو کینالز کے نام پر سندھ کے عوام کو تقسیم کرنے کی سازش کررہی ہیں ان سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ وہ کس ایجنڈے پر کام کررہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کینالز کو رکوانے کا آئینی راستہ اور اختیار پیپلز پارٹی کے پاس ہے، ہمارے یہ دوست جو احتجاج کررہے ہیں یہ اچھی بات ہے، سندھ کے عوام کی آواز کو پہنچا رہے ہیں لیکن آئینی، قانونی فورمز پر ان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ کمو شہید ہر جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو گئی تھی اس وقت ہم اپوزیشن میں تھے اور تمام جماعتوں کو بی بی نے اکٹھا کیا۔

آج بھی صوبہ سندھ کی تمام جماعتوں میں اتفاق ہے۔ فرق یہ ہے کہ آج ہم حکومت میں ہیں اس وقت اپوزیشن میں تھے۔ حکومت کے پاس دیگر ذرائع ہوتے ہیں احتجاج کے علاوہ بھی۔ انہوں نے کہا کہ کینالز بننے پر سی سی آئی کی مٹینگ بلانے، ایکنک میں شور مچانے کی بجائے، ارسا میں بات کرنے کی بجائے سڑک پر آجائیں۔ ہم آئینی فورمز جو ہمارے پاس موجود ہیں، جس میں سندھ حکومت اپنا کردار ادا کرسکتی ہے ہم وہ کردار ادا کررہے ہیں اور موثر طریقے سے ادا کررہے ہیں اور شاید ہمارے اس دبائو کی وجہ سے ہی سی سی آئی کا اجلاس آج تک نہیں بلایا جارہا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ دھرنے سے جو ہزاروں اور لاکھوں لوگ متاثر ہورہے ہیں اس حوالے سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حیدرآباد کے جلسہ میں بھی کہا تھا کہ جو متاثر ہورہے ہیں وہ صوبہ سندھ کے رہائشی ہیں وہ کینالز بنا نہیں رہے تو بجائے اس کے کہ جو کینالز بنا رہے ہیں ان کو تکلیف دیں ہم انہی کو تکلیف دے رہے ہیں جو کینالز بنانا نہیں چاہتے جو کینالز کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو تنظیمیں، جو لوگ احتجاج کررہے ہیں ان کے احتجاج کو ہم سراہتے ہیں، ہمارا موقف بھی وہی ہے، جو ان کا موقف ہے لیکن احتجاج کے ذریعے صوبہ سندھ کے لوگوں کو تکلیف میں ڈالنا کوئی مناسب بات نہیں ہے۔ ہماری سول ایڈمنسٹریشن ان سے رابطے میں ہے، ہمارے کچھ اور دوست بھی ان سے رابطے میں ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ہم ان کے احتجاج کو متاثر نہ کریں، احتجاج وہ بھرپور کریں لیکن اس انداز میں کریں کہ اس سے عام شہری کو تکلیف نہ ہو تاکہ وہ بھی آسانی سے اس احتجاج میں شامل بھی ہوسکیں اور آہنی ہمدردیاں بھی ان احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ہوں۔