اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مئی 2025ء) یہ کوئی اتفاقیہ لغزش نہیں تھی۔ بغیر تحقیق کیے، بنیادی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے، جھوٹی کہانیاں گھڑنا، یہ سب ایک منظم مہم کا حصہ محسوس ہو رہا تھا۔ مقصد عوام کو یقین دلانا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مکمل جنگ شروع ہو چکی اور اگلی صبح تک ’پاکستان تاریخ کا حصہ‘ بن جائے گا۔ یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہو رہا تھا۔
جمعرات آٹھ مئی کی رات تو مین اسٹریم میڈیا جھوٹی سوشل میڈیا پوسٹس اور ڈیپ فیک ویڈیوز سے لبریز تھا۔ایک ٹی وی چینل نے کراچی کی بندرگاہ پر لگنے والی آگ کی ایک پرانی ویڈیو کو پرائم ٹائم نیوز آئٹم میں تبدیل کر دیا۔ بعض چینلز نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بھارتی بحریہ نے کراچی پورٹ پر بمباری بھی کی ہے۔
(جاری ہے)
اس پر اینکرز نے ’’کراچی پورٹ کا صفایا‘‘ اور ’’بڑے پیمانے پر تباہی‘‘ جیسے الفاظ استعمال کر کے خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش بھی کی۔
میں نے اس منظر کو دیکھ کر کراچی میں اپنے ایک دوست کو فون کیا۔ وہ فیملی کے ساتھ ایک ریستوراں میں ڈنر کے مزے لے رہا تھا اور میری تشویش پر زور سے ہنستے ہوئے بولا، ’’مجھے تو یہاں جنگ کا کوئی نشان تک نظر نہیں آ رہا۔‘‘
اسی طرح ایک اور بھارتی چینل نے رپورٹ دی کہ فیصل آباد کی بندرگاہ پر بھی بمباری ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فیصل آباد جو ہر طرف سے خشکی میں گھرا ہوا شہر ہے، وہاں کوئی بندرگاہ بنی کب تھی؟
اگلی صبح جب میں نے چند بھارتی اخبارات آن لائن پڑھے، تو میرا خیال تھا کہ مجھے ’پاکستان میں تباہی‘ سے متعلق ویسی ہی خبریں ملیں گی جیسی ہم غزہ یا شام کے بارے میں پڑھتے رہتے ہیں۔
لیکن وہاں تو پاکستان میں بھارتی حملوں سے ہونے والی تباہی سے متعلق کوئی بھی سنجیدہ یا قابل اعتماد خبر تھی ہی نہیں۔پھر ہوا یہ کہ جب فیکٹ چیکر ادارے اور گروپ حرکت میں آئے، تو انکشاف ہوا کہ تقریباً سبھی خبریں اور دعوے فرضی تھے۔ کراچی پر بمباری کی ویڈیو دراصل 2005 میں فلاڈلفیا میں ایک طیارے کے حادثے کی فوٹیج تھی، جسے بھارتی میڈیا نے ایک بحری حملے کے نتیجے کے طور پر پیش کیا۔
دیگر حملوں کی ویڈیوز زیادہ تر غزہ کی تھیں، جنہیں بھارتی اور پاکستانی تنازعے کے ثبوت کا رنگ دے کر پھیلایا گیا۔پہلگام میں ہوئے حملے کے بعد، جس میں 26 بھارتی سیاح مارے گئے تھے، دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تناؤ شدید تر ہوا تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سخت کارروائی کا اعلان کر دیا۔ پھر جب عسکری حکام فوجی حکمت عملی طے کر رہے تھے، تو انڈین نیوز چینلز اپنی اسکرینوں کو میدان جنگ بنا بنا کر وار ویڈیو گرافکس دکھا رہے تھے، اپنی ہی تیار کردہ۔
ایسے نام نہاد نیوز رومز اب ایسی ’بریکنگ‘ خبروں کے لیے نہ کسی سرکاری ادارے کے ترجمان کے محتاج ہیں اور نہ ہی کسی صحافتی تحقیقاتی عمل کے۔ ان کے ’اعلیٰ اور باخبر ذرائع‘ گمنام ٹوئٹر ہینڈل اور غیر مصدقہ واٹس ایپ میسج ہوتے ہیں۔
آٹھ مئی کی رات دیر گئے کچھ چینلز نے خبر دی کہ بھارت نے پاکستان کے تین طیارے مار گرائے ہین اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی طیارے کے پائلٹ کا نام ایسے ’باخبر‘ میڈیا نے ’جہاز الدین‘ بتایا تھا۔ پھر چند ہی گھنٹوں بعد یہ نام ایسی خبروں سے غائب ہی کر دیا گیا۔ سچ یہ ہے کہ یہ نام سوشل میڈیا پر ایک مذاق تھا، جسے سنجیدگی سے خبر بنا کر نشر کر دیا گیا تھا۔ایسی فرضی خبریں پاکستانی سوشل میڈٰیا پر بھی چلائی گئیں۔ فیکٹ چیکر ویب سائٹ ’بوم‘ نے انکشاف کیا کہ زیادہ تر ویڈیوز کسی نہ کسی غیر مصدقہ سوشل میڈیا ذریعے سے لی گئی تھیں، اور نیوز چینلز نے انہیں اپنی ’خصوصی فوٹیج‘ کے طور پر ناظرین کو دکھایا۔
بھارت کے ایک سرکاری ادارے، پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کے فیکٹ چیکنگ یونٹ نے بھی کچھ ویڈیوز کی قلعی کھول دی۔ یہ اچھا اقدام تھا مگر جعلی خبروں کے سیلاب کے سامنے یہ بھی بس اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی تھا۔
بھارت میں ایسے سوشل میڈیا گروپس اور چینلز کے لیے کوئی مؤثر احتسابی نظام موجود نہیں۔ الیکشن ہوں، فرقہ وارانہ فسادات ہوں، یا کوئی بین الاقوامی بحران، یہ سب بار بار اور بے شمار جھوٹ پھیلانے میں آپس کی دوڑ میں ہی رہتے ہیں۔
بھارت میں جعلی خبروں کے خلاف قانون سازی ابھی تک تعطل کا شکار ہے اور نیشنل براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈز اتھارٹی کے پاس خلاف ورزی کرنے والوں کو محض جرمانہ کرنے کا اختیار بھی بہت محدود ہی ہے۔ان حالات میں ’جھوٹ کا نظام‘ پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ رنگا رنگ نیوز چینلز اپنی ریٹنگز کی دوڑ میں عوام کو گمراہ کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہم جو صحافیوں کے طور پر اس منظر نامے کا حصہ ہیں، دور کھڑے خود کو بس شرمندہ ہی محسوس کرتے رہتے ہیں۔
اطلاعات کی غیر جانب دار ترسیل کا ایک بنیادی پہلو ان کا قابل اعتبار ہونا ہوتا ہے۔ یہ اعتبار اسی وقت پیدا ہوتا ہے، جب اطلاعات میں سچائی ہو۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ تصادم میں جس کارکردگی کا مظاہرہ ایسے فیک میڈیا نے اپنی فیک نیوز کے ساتھ کیا، اس پر کوئی بھی عقل مند انسان بھلا اعتبار کیسے کر سکتا ہے؟
بھارتی میڈیا نے حالیہ دنوں میں جتنا نقصان خود بھارت کو پہنچایا، اتنا تو پاکستانی میڈیا بھی نہیں پہنچا سکا۔
پاکستان کے ساتھ سیزفائر کے بعد کے بھارت میں منطق سے سوچنے والوں کو اسی سوال کا جواب سب سے پہلے تلاش کرنا چاہیے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔