Live Updates

کولون کیتھیڈرل: جنگ کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے؟

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 24 مئی 2025 12:20

کولون کیتھیڈرل: جنگ کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مئی 2025ء) آج یہ کیتھیڈرل سیاحوں اور مقامی شہریوں کا مرکز نگاہ ہے، جہاں ہر طرف خوش مزاج لوگوں کی قہقہوں بھری باتیں گونج رہی لیکن اس منظر کے پس پردہ ایک سیاہ ماضی چھپا ہے۔ ایک ایسی بھیانک جنگ کی یاد، جس کی گونج آج بھی پورے یورپ میں سنائی دیتی ہے۔

میں کیتھیڈرل کے سامنے ایک سایہ دار درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھی، اس کے گوتھک طرز تعمیر کو نظروں میں سمیٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔

سیاح آ جا رہے تھے، لمحے کو اپنے کیمروں میں قید کر رہے تھے۔ تب ایک بزرگ جرمن، اپنے پوتے کے ساتھ میرے قریب آ کر بیٹھے۔ وہ بچے کو اس تاریخی عمارت کی داستان سنا رہے تھے۔

تجسس کے باعث میں بھی ان کی باتوں میں شریک ہو گئی۔ ان بزرگ نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران کیتھیڈرل کو 14 مرتبہ نشانہ بنایا گیا، لیکن یہ معجزاتی طور پر اپنی جگہ قائم رہا جبکہ پورا کولون شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔

(جاری ہے)

آج کولون ایک بار پھر ایک کثیرالثقافتی شہر ہے۔ مگر اس کی دیواریں اور گلیاں اب بھی اس جنگ کے صدمے کی سرگوشی کرتی ہیں، جس نے اس شہر کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا تھا۔

اس بزرگ کی باتوں نے جہاں ان یادوں کو تازہ کیا، وہیں میرے خیالات بھی اپنے وطن کی طرف بھٹکنے لگے۔ دہلی، لاہور، کراچی، سری نگر، ممبئی، اسلام آباد زندگی سے بھرپور شہر ہیں۔

مگر اگر بھارت اور پاکستان، جو دونوں جوہری طاقتیں بھی ہیں، ایک مکمل جنگ میں اُتر جائیں، تو ان شہروں کے بیچ فاصلہ کچھ بھی معنی نہیں رکھے گا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جدید جنگ کی اصل صورت کیسی ہوتی ہے۔ یہ بہادری یا فتوحات کی کہانی نہیں، بلکہ اجتماعی غم، اندوہناک خبروں اور بےگناہوں کی بربادی کی داستان ہوتی ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی آج بھی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار صرف دشمن کی فوج کو نہیں، بلکہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔

مائیں، بچے، اور بےقصور لوگ۔

جنوبی ایشیا کی سیاست تنازعات کے سائے میں پروان چڑھی ہے۔ اب تک کی لڑائیاں سرحدی علاقوں تک محدود رہی ہیں، لیکن ان کی شدت اور سفاکی کسی بھی وقت بےقابو ہو سکتی ہے۔

آج، ہم ایک نئے محاذ پر جنگ لڑ رہے ہیں۔ ڈیجیٹل میدان میں ایکس پر آرم چیئر جنرلز اور میم ساز دلیر جنگی ماہر بنے بیٹھے ہیں۔ واٹس ایپ گروپس حب الوطنی کے نعرے لگانے والے مجاہدین سے بھرے پڑے ہیں۔

کٹی پارٹی کی آنٹیاں اور مارننگ واک والے انکلز انسٹاگرام اور فلموں سے حاصل کی گئی معلومات کے بل بوتے پر خود کو بین الاقوامی امور کے ماہر سمجھنے لگے ہیں۔

سوشل میڈیا پر جذباتی خطبات اور جنگی مشوروں کی بھرمار ہے۔ مگر یہ سب ایک اہم حقیقت بھول جاتے ہیں: تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔ جنگیں میدانوں میں لڑی جاتی ہیں، مگر ان کے زخم عام انسان سہتے ہیں۔

پنجاب کا کسان، بارہمولہ کا دکاندار، کراچی کے اسکول میں بیٹھا بچہ۔

ایک غلط فیصلہ، ایک چنگاری اور وہ عمارتیں جو آج امن کی علامت ہیں، کل ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہیں۔ انڈیا گیٹ، جو پہلی عالمی جنگ میں مرنے والوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا، ایک لمحے میں نشانہ بن سکتا ہے۔ بھارت منڈپم، جدید فن تعمیر کی علامت، راکھ میں بدل سکتا ہے۔ جوابی کارروائی میں، فیصل مسجد، اسلام آباد کا بلیو ایریا، جہاں پاکستان کی پارلیمان اور سپریم کورٹ واقع ہیں، سب خاکستر ہو سکتے ہیں۔

اور پھر کیا ہوگا؟ وہی سیاست دان، جنہوں نے جنگی جنون بھڑکایا، کسی غیر جانبدار مقام پر مہنگے لباسوں میں نمودار ہوں گے، اور "امن" کا اعلان کرتے ہوئے کسی معاہدے پر دستخط کریں گے۔ جبکہ ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کا خاموشی سے سوگ منائیں گے۔ یہ کوئی خیالی داستان نہیں، بلکہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ ہمیں رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

کولون میں امن کی کہانی صرف کیتھیڈرل کی شیشے کی کھڑکیوں اور میناروں میں محفوظ نہیں، بلکہ اس کے بعد کیے گئے جراتمندانہ فیصلوں میں بھی چھپی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے چند سال بعد، فرانس اور جرمنی جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے،نے بیلجیم، اٹلی، لکسمبرگ اور نیدرلینڈز کے ساتھ مل کر یورپی کوئلہ اور اسٹیل کمیونٹی کی بنیاد رکھی، جس نے بعد میں یورپی یونین کی شکل اختیار کی۔ راکھ سے جنم لینے والا یہ تعاون آج یورپ کے اقتصادی اور سماجی اتحاد کی علامت ہے۔

جنگ ماضی کا حصہ ہے، مستقبل کی پیش گوئی نہیں۔

آج ایک جرمن شہری کولون سے ٹرین میں سوار ہو کر چند گھنٹوں میں بغیر ویزے کے پیرس پہنچ سکتا ہے۔ مگر جنوبی ایشیا میں؟ لاہور اور امرتسر جو کبھی تجارت، رشتوں اور مشترکہ ثقافت سے جڑے تھے اب خاردار تاروں، سیاسی تقسیم اور ویزا پابندیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ امرتسر کا سیاح واہگہ پر جا کر رک جاتا ہے، جبکہ لاہور کی بادشاہی مسجد صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہونے کے باوجود اس کی پہنچ سے باہر ہے۔

ہر بار جب کشیدگی بڑھتی ہے، سب سے پہلے تجارت متاثر ہوتی ہے۔ ثقافتی اور خاندانی رشتے، جو پہلے ہی پروپیگنڈا اور پابندیوں کا شکار ہیں، مزید ٹوٹ جاتے ہیں۔ ترقی اور مکالمے کے دروازے شکوک و شبہات کے قفل میں بند ہو جاتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کو یہ سبق سیکھنے کے لیے ایک اور جنگ کی ضرورت نہیں۔ یہ سبق پہلے ہی تقسیم کے زخموں، امرتسر میں دربار صاحب پر فوجی یلغار، کارگل اور دہشت گردی کے حملوں کی جلی ہوئی باقیات میں تحریر ہے۔

امن ہمارا انتخاب نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ اس کے لیے نفرت کی آسان راہ چھوڑ کر کوشش، صبر اور ہمت کا راستہ اختیار کریں۔ یورپ سے سبق حاصل کریں۔ کولون کے کیتھڈرل کے میناروں سے مکالمہ کریں۔ گو کہ وہ خاموش ہیں، مگر وہ ایک کہانی سناتے ہیں۔

کیونکہ جنگ، چاہے کتنی ہی "محدود" یا "سرجیکل نما" ہو، اپنے پیچھے صرف دکھ، بربادی اور صدمے کے سوا کچھ نہیں چھوڑتی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات