اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 مئی2025ء)سابق صدر آزاد جموں و کشمیرسردار مسعود خان نے ایئر یونیورسٹی اسلام آباد میں منعقدہ قومی کانفرنس میں ’’معرکہ حق: پاکستان کی ذمہ دارانہ ریاستی حکمتِ عملی‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا نہ صرف پاکستان کی عسکری برتری بلکہ اس کی سفارتی بصیرت کا بھی برملا اعتراف کر رہی ہے۔
جنگ میں فتح سے نہ صرف پاکستان کا قومی وقار بلند ہوا ہے بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے دلوں میں بھی امید کی نئی کرن روشن ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں حالیہ پاک بھارت تنازعے کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کے سفارتی امکانات کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عالمی سیاسی حالات، سفارتی تبدیلیاں اور پاکستان کی تزویراتی ضروریات ایک نئے اور فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی ہیں۔
(جاری ہے)
سردار مسعود خان نے پاکستان کی مسلح افواج، بالخصوص پاک فضائیہ کو بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ میں شاندار کامیابی پر زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخی فتح نہ صرف پاکستان کے عالمی وقار میں اضافے کا باعث بنی بلکہ اس نے دو جوہری طاقتوں کے مابین عسکری نظریات کو بھی ازسرنو متعین کیا۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 11 مئی کو مسئلہ کشمیر پر ایک نئی سفارتی راہداری کے آغاز کی تجویز کو ’’امن کا نیا دریچہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پیش رفت کے فوراً بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ جنگ بندی معاہدے اور غیر جانبدار مقام پر مذاکرات کے آغاز کا اعلان کیا، جس سے بین الاقوامی سطح پر اس دیرینہ مسئلے کی سنگینی ایک بار پھر اجاگر ہوئی۔
سردار مسعود خان نے اس پیش رفت پر پاکستان کی مثبت سفارتی حکمتِ عملی کی تعریف کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت نے نہ صرف اس عمل سے انکار کیا بلکہ شدید ردعمل دے کر اپنی ابتدائی یقین دہانیوں سے بھی پیچھے ہٹ گیا۔ ان کے مطابق، اس صورتحال نے بھارت کی سیاسی و عسکری پوزیشن کو متزلزل کر دیا، جہاں عسکری ناکامی اور بین الاقوامی دباؤ نے اس کے تزویراتی بیانیے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کا مستقل مخاصمت پر مبنی سوچ اور ایٹمی دھمکیوں کی حکمتِ عملی اب اپنی اندرونی تضادات کے بوجھ تلے زمین بوس ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی جائز جد وجہد کو دہشت گردی قرار دینا اور خود پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کرنا ایک کھلی منافقت ہے، جسے ہر عالمی فورم پر بے نقاب کیا جانا چاہیے۔
سردار مسعود خان نے کشمیر پر آئندہ ممکنہ مذاکرات کی تیاری کے لیے ایک جامع چار نکاتی حکمتِ عملی پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ سابقہ امن فریم ورکس، بشمول اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، اوون ڈکسن فارمولا اور صدر مشرف کی چار نکاتی تجویز کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے ، کشمیر کی تاریخی اور قانونی حیثیت سے متعلق عوامی اور ادارہ جاتی فہم میں اضافہ کیا جائے تاکہ مغربی اور بھارتی پروپیگنڈے کا موثر توڑ کیا جا سکے۔
سفارتی معاملات میں کسی بھی قسم کی قبل از وقت یا یکطرفہ رعایتوں سے مکمل اجتناب برتا جائے اور باہمی ردعمل کی بنیاد پر معاملات کو آگے بڑھایا جائے کسی بھی حتمی تصفیے میں کشمیری عوام کی مرکزیت کو یقینی بنایا جائے، کیونکہ ان کی رضا مندی کے بغیر کوئی بھی فیصلہ پائیدار نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے زور دیا کہ مسئلہ کشمیر صرف ایک سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ پاکستان کی بقا اور علاقائی سلامتی سے براہِ راست جڑا ہوا ہے کیونکہ یہ مسئلہ آبی وسائل کے تحفظ اور تزویراتی توازن سے منسلک ہے۔
سندھ طاس معائدے کے تناظر میں انہوں نے ایک سہ جہتی حکمتِ عملی کی ضرورت پر زور دیا، جس میں سفارتی کوششوں کو موثر بنانے کے ساتھ ساتھ چین کی بطور بالا دست ریاست حمایت حاصل کرنے اور تمام بین الاقوامی قانونی پلیٹ فارمز جیسے عالمی بینک، بین الاقوامی عدالتِ انصاف اور اقوامِ متحدہ کو بھی متحرک کیا جائے۔ انہوں نے پاکستانی پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ بھارت کے دہشت گردی کے یکطرفہ بیانیے کو چیلنج کریں اور بھارت کے حمایت یافتہ دہشت گرد حملوں کو عالمی سطح پر نمایاں کریں جن میں سمجھوتہ ایکسپریس، جعفر ایکسپریس اور خضدار اسکول بس جیسے المناک واقعات شامل ہیں، جو اکثر بین الاقوامی بیانیے سے غائب ہوتے ہیں۔
سردار مسعود خان نے بھارت کی بڑھتی ہوئی جنگی جنونیت اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے خلاف دھمکی آمیز بیانات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان خطرات کو پاکستان کی قومی سلامتی کی منصوبہ بندی میں مرکزی حیثیت دی جانی چاہیے۔ معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جنگ کے بعد اقتصادی محاذ پر حیران کن بحالی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ان کے مطابق، مہنگائی کی شرح 40 فیصد سے گھٹ کر صفر پر آ گئی یورو بانڈز کی قدر میں نمایاں اضافہ ہوا اور کراچی اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس تین گنا بڑھ گیا، جسے بیرون (Barron's)سمیت مختلف بین الاقوامی اداروں نے ایک معاشی معجزہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس مثبت رجحان کو برقرار رکھا جائے اور 2047 تک پاکستان کو دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل کرنے کا ہدف اپنایا جائے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر سردار مسعود خان نے خبردار کیا کہ مسئلہ کشمیر بدستور ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ ہے اور بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی ممکنہ طور پر اندرونی سیاسی دباؤ سے توجہ ہٹانے کے لیے نئی جارحیت کی راہ اپنا سکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایک حقیقت پسند، پُراعتماد اور مربوط قومی حکمتِ عملی اپنانی ہوگی جو طاقت، دور اندیشی اور قومی یکجہتی پر مبنی ہو۔
کشمیر کا مستقبل پاکستان کی طاقت، بصیرت اور اجتماعی ارادے سے طے ہوگا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم محض علامتی اقدامات سے آگے بڑھیں اور تزویراتی عمل و قومی وحدت کے ساتھ ایک نئی سمت کا تعین کریں۔ تقریب جس کا اختتام اظہارِ تشکر اور مسئلہ کشمیر سے پاکستان کی پائیدار وابستگی کے اعادے پر ہوا میں ایئر یونیورسٹی کے اساتذہ، طلبہ، تزویراتی ماہرین اور اعلیٰ سرکاری عہدیداران نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔