استنبول (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 جون2025ء) نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں بھارت کی حالیہ جارحیت درحقیقت فلسطین میں اسرائیل کے منصوبوں کی نقل ہے، اسرائیل اور بھارت نےجو اسکرپٹ فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور آبادیاتی تبدیلی کے غیر قانونی اقدامات کے حوالے سے اختیار کیا ان میں مماثلت ہے، فلسطین اور کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال بین الاقوامی برادری کی فوری توجہ کی متقاضی ہے تاکہ اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور مقامی عوام کی خواہشات کے مطابق ایک پرامن حل تلاش کیا جا سکے، اسرائیل اور بھارت کے حملوں نے یکطرفہ جارحیت کی ایک خطرناک مثال قائم کی ہے، چیلنجنگ صورتحال میں مسلم امہ کے اتحاد اور مشترکہ حکمت عملی کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے، بھارتی رہنمائوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں، بین الاقوامی برادری خاص طور پر یہ رابطہ گروپ ایسے بیانات کا نوٹس لے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے بھی خلاف ہیں۔
(جاری ہے)
دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق ان خیالات کا اظہار نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے جموں و کشمیر پر او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے جموں و کشمیر پر او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس میں شرکت پر رکن ممالک کا کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کی موجودگی کشمیری عوام کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کی منصفانہ جدوجہد کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رکن ممالک کی مسلسل دلچسپی پر بھی ان کے شکر گزار ہیں اور پاکستان ان کی حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے او آئی سی سیکرٹری جنرل کے جموں و کشمیر رابطہ گروپ کے لئے خصوصی ایلچی یوسف الدوبے اور او آئی سی جنرل سیکرٹریٹ میں ان کی ٹیم کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس اجلاس کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا۔نائب وزیر اعظم نے کہا کہ اجلاس میں بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کا ایک اہم موقع فراہم کیا ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ اجلاس کشمیری عوام کی حمایت کے نئے راستے اور ذرائع تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس ایک اہم موڑ پر ہو رہا ہے جب فلسطین اور ایران میں ہمارے بھائی اور بہنیں اسرائیل کے بے رحمانہ حملوں کا سامنا کر رہے ہیں، اس سے قبل پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر پر بھارت نے حملے کئے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور بھارت کے حملوں نے یکطرفہ جارحیت کی ایک خطرناک مثال قائم کی ہے، مستقبل میں ان جارحیت پسندوں کے بیانات دیگر ممالک پر حملوں کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں، اس چیلنجنگ صورتحال میں اسلامی ممالک کے اتحاد اور مشترکہ حکمت عملی کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
نائب وزیر اعظم محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ جموں و کشمیر میں بھارتی جارحیت درحقیقت فلسطین میں اسرائیل کے منصوبوں کی نقل ہیں، اسرائیل اور بھارت جو اسکرپٹ فلسطین اور کشمیر میں اختیار کر رہے ہیں، خاص طور پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور آبادیاتی تبدیلی کے غیر قانونی اقدامات کے حوالے سے ان میں مماثلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال بین الاقوامی برادری کی فوری توجہ کی متقاضی ہیں تاکہ اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور مقامی عوام کی خواہشات کے مطابق ایک پرامن حل تلاش کیا جا سکے تاہم، یہ توجہ موجودہ غیر قانونی صورت حال کو جائز قرار دینے کے لیے نہیں ہونی چاہیے، غیر قانونی اور یکطرفہ حل زبردستی نہیں تھوپے جا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق اقدامات ہی دیرپا امن لا سکتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حقیقی امن انصاف سے ہی ممکن ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارت نے 22 اپریل 2025 کو پہلگام حملے کا ڈرامہ رچایا اورکوئی تصدیق شدہ ثبوتوں یا قابل اعتبار تحقیقات کے بغیر ہی پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر پر حملہ کر دیا، وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے اس المناک واقعے کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کے باوجود بھارت نے جارحیت اور تشدد کا راستہ اختیار کیا۔
انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت نے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون کی تنظیم سمیت بین الاقوامی برادری کی جانب سے پرامن رہنے کی اپیلوں پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔6 اور 7 مئی 2025 کی درمیانی شب بھارت نے شہری علاقوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں معصوم مردوں، خواتین اور بچوں کی شہادت ہوئی۔ بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے لائن آف کنٹرول پر بھی قیمتی جانیں، گھر اور دیگر املاک کو نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی بے لگام جارحیت کے پیش نظر پاکستان کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع میں جوابی کارروائی کرنے پر مجبور ہونا پڑا، ہماری کارروائی جو10 مئی 2025 کی علی الصبح کی گئی وہ صرف فوجی تنصیبات تک محدود تھی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہمارے اقدام کا مقصد اپنے علاقے اور عوام کے دفاع کے حق، عزم اور صلاحیت کا مظاہرہ کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان پریشان کن واقعات نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے جموں و کشمیر تنازع کا پرامن حل ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خطہ دنیا کی آبادی کے پانچویں حصہ پر مشتمل ہے، یہ خطہ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے نتائج برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جنگ بندی کو برقرار رکھنے اور خطے میں استحکام کے ماحول کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے تاہم، جب بین الاقوامی سطح پر خطے میں امن اور استحکام کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں، بھارت کی جانب سے جارحانہ بیانات سامنے آ رہے ہیں، بھارت جارحیت کو جواز فراہم کرنے کے لیے گمراہ کن بیانیے تشکیل دے رہا ہے، ان بیانات کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارتی حکام پہلگام واقعہ کو بھارتی غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق حملے کے فوری بعد 2800 سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا یا ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ کم از کم 75 افراد پر ظالمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیا گیا، پولیس نے متعدد مقامی لوگوں کے گھروں کی تلاشیاں لیں اور تقریبا تین درجن گھروں کو بارود کےذریعے زمین بوس کر دیا گیا۔
مرکزی حکومت کی ہدایت پر بھارتی غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے حکام نے اپنے دائرہ اختیار سے شہریوں کو ملک بدر کرنا شروع کر دیا۔ رپورٹس کے مطابق تقریبا 100 پاکستانی شہریوں (زیادہ تر خواتین) کو ڈیپورٹیشن کے لیے نشان زد کیا گیا۔ اس ہدایت کے نتیجے میں خاندان تقسیم ہوئے اور بچوں کو ان کی ماں سے جدا کر دیا گیا۔ بھارت میں زیر تعلیم کشمیری طلبا کے ساتھ جھڑپوں کی بھی اطلاعات ہیں۔
پہلگام حملے کے بعد پہلے چھ دنوں میں بھارت کے مختلف ریاستوں میں کشمیری طلبا کے خلاف کم از کم 17 واقعات میں دھمکی آمیز یا تشدد کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ بھارت میں انتہا پسند عناصر نے اسلاموفوبیا کی بنیاد پر کشمیریوں کے خلاف بیانیے پھیلائے، ہم او آئی سی کے آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے پہلگام حملے کے بعد بھارت اور بھارتی غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر میں اسلاموفوبیا، نفرت پر مبنی تشدد اور انتقامی کارروائیوں میں خطرناک اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور ایک بھرپور بیان جاری کیا۔
نائب وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ 78 سالوں میں بھارت نے جموں و کشمیر کے بڑے حصوں پر اپنے قبضے کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف طریقے اپنائے ہیں تاہم5 اگست 2019 سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کی شدید مہم شروع کر رکھی ہے۔ گزشتہ چھ سالوں میں بھارتی حکام نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادیاتی حیثیت اور سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنے کے لیے قانون سازی، عدالتی اور انتظامی اقدامات کا ایک سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔
رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لئے بھارتی حکام نے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) ، آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) اور غیر قانونی سرگرمیاں روکنے کے نام پر (یو اے پی اے) ایکٹ جیسے ظالمانہ قوانین بھارتی فوجوں کو کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے یا مارنے اور کسی بھی جائیداد کو تباہ کرنے کی چھوٹ دیتے ہیں۔
5 اگست 2019 سے990 کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ 2465 دیگر زخمی یا تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ سیاسی قیدیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ کشمیری کارکنوں کی جائیدادوں کو سزا کے طور پر ضبط کیا جا رہا ہے۔ بھارتی حکام نے ایک دہشت گردی مخالف قانون، غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت 16 سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ سری نگر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے دفتر پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے۔
سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں گزشتہ سات سالوں سے عید کی نماز کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ جمعہ کی نماز پر بھی کبھی کبھی پابندی عائد کی جاتی ہے۔ مسجد کے امام اور معروف کشمیری رہنما میر واعظ عمر فاروق کو کبھی کبھی گھر میں نظر بند کر دیا جاتا ہے، جس سے انہیں اہم مذہبی اجتماعات سے خطاب کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ میڈیا پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جسے مختلف جبری اقدامات کے ذریعے سرکاری لائن پر چلنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو وسیع پیمانے پر پیش کیا ہے۔ ان میں سے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور اسلامی تعاون تنظیم کے آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن نے الگ الگ رپورٹس میں ثبوت پیش کئے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے متعدد خصوصی طریقہ کار نے بھی اس تاریک صورتحال کے مختلف پہلوئوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ سال جنیوا میں انسانی حقوق کمیٹی نے بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق ( آئی سی سی پی آر) کے نفاذ پر بھارت کی چوتھی دورانیہ رپورٹ کے جائزے کے دوران بھارتی غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی صورتحال کے بارے میں کئی اہم مشاہدات کیے ہیں۔
کمیٹی نے سفارش کی کہ بھارت کو اپنے دہشت گرد مخالف قوانین کا جائزہ لینا چاہیے جوآئی سی سی پی آر کے مطابق نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کمیٹی نے بھارت پر زور دیا کہ وہ یقینی بنائے کہ دہشت گردی مخالف قانون سازی انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، پرامن مظاہرین اور سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال نہیں ہو رہی ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارت نے اپنی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں، لوک سبھا اوربھارتی غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی نام نہاد قانون ساز اسمبلی کے انتخابات بالترتیب اپریل۔
مئی اور ستمبر۔اکتوبر2024 میں منعقد کئے جبکہ بھارت نے دعوی کیا کہ ایسے اقدامات جمہوری اصولوں کے لیے اس کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں، میں زور دینا چاہوں گا کہ بھارتی آئین کے تحت کوئی بھی انتخابی عمل حق خودارادیت کی فراہمی کا متبادل نہیں ہو سکتا، بین الاقوامی قانون کی رو سے جموں و کشمیر کی حتمی حیثیت کا تعین بھارتی آئین کے تابع کسی عمل سے نہیں ہو سکتا، یہ ایک بین الاقوامی سطح پر مسلمہ متنازعہ علاقہ ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ کچھ سالوں سے بھارتی رہنما آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کے متعلق بے بنیاد دعوے کرتے رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کا پابند ہے، بھارتی رہنمائوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں، بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اس رابطہ گروپ کے اراکین کو ایسے بیانات کی طرف توجہ دینی چاہیے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے بھی خلاف ہیں۔
انہوں نے اعادہ کیا کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے جموں و کشمیر کے تنازعے کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) امت مسلمہ کی اجتماعی خواہشات کی عکاس ہے۔ یہ تنظیم دہائیوں سے مظلوم مسلمانوں کی مختلف برادریوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کرتی رہی ہے۔
جموں و کشمیر کے حوالے سے او آئی سی کے اعلامیے کشمیر کی تحریک کے لیے ایک اہم سہارا ہیں۔ کونسل آف فارمنسٹرز کے 50 ویں اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد اس تنظیم کے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے غیر متزلزل حمایت کی تازہ ترین مثال ہے۔ پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام ایسی قراردادوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں تاہم کشمیری جدوجہد کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کو دیکھتے ہوئے او آئی سی کو اپنے اعلامیوں کو عملی اقدامات میں تبدیل کرنا چاہیے۔
تنظیم کو کشمیری عوام کے مصائب کو کم کرنے اور جموں و کشمیر کے تنازعے کے منصفانہ حل کے لیے اپنی کوششیں بڑھانی چاہئیں۔ او آئی سی اور اس کے رکن ممالک کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارت پر زور دینا چاہیے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنائے، سیاسی قیدیوں کو رہا کرے، ظالمانہ قوانین کو ختم کرے، آبادی والے علاقوں سے فوجی موجودگی کو کم کرے اور اقوام متحدہ کی متعلقہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس اجلاس کے لیے ایک مشترکہ اعلامیہ کا مسودہ رابطہ گروپ کے تمام اراکین کو ارسال کیا ہے، دیگر اراکین کی طرف سے موصول ہونے والی تجاویز کو بھی شامل کیا گیا ہے۔