کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 جون2025ء) وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑونگا چاہے میری جان چلی جائے مجھے میرے دوست احباب کہتے ہیں کہ خاموش رہا کریں میں انہیں کہتاہوں کہ مجھے اللہ اور آئین نے ذمہ داری دی ہے کہ اس خاتون کی ننگ و ناموس کے ساتھ کھڑا ہوں جس کے سامنے موسیٰ خیل میں اس کے شوہر اور بیٹے کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا ،آئندہ مالی سال میں صوبے میں گورننس، عام آدمی کو سروس ڈیلیوری، امن وامان ،پی ایس ڈی پی اصلاحات کے شعبوں کے لئے 75ارب روپے کی خطیر رقم رکھی ہے ، اگلے ہفتے صوبے کے 164صحت مراکز کو دوبارہ کھولنے جارہے ہیں جس سے 12لاکھ لوگ سالانہ مستفید ہونگے ۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ سال 1200نئے اسکول تعمیر کئے جائیں گے ،صوبے میں پیپلز ایئر ایمبولینس سروس شروع کرنے جارہے ہیں ،10ارب روپے کی لاگت سے سیف سٹی منصوبے شروع کر نے جارہے ہیں، بلوچستان میں بلوچستان کے اضلاع میں سبزیاں منڈیاں، بس ٹرمینل، لائیوسٹاک مارکیٹ بنانے جارہے ہیں ، زمین کی سیٹلمنٹ کے لئے 6ارب روپے ،چاغی میں انڈسٹریل اسٹیٹ بنانے جارہے ہیں، 5ارب کی لاگت سے چاغی میں سولر سسٹم دیں گے،کمانڈایریا کی بہتری کے لئی4ارب روپے رکھے ہیں،کوئٹہ میں حکومت پیپلزٹرین سروس شروع کرنے جارہی ہے، بلوچستان میں کلچرل پروگرام شروع کر نے کے لئے 2ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔
(جاری ہے)
یہ بات انہوں نے بدھ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث سمیتٹے ہوئے اظہار خیال کرتے ہوئے کہی ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ حکومت عوامی خدمت کا فریضہ بخوبی نبھا رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور ،ارکان اسمبلی کا شکرگزارہوں کہ انہوں نے موقع دیا کہ میں بلوچستان اسمبلی کی سربراہی اور ان کی خدمت کر سکوں ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا مشکور ہوں کہ جب بھی بلوچستان میں مسائل آئے اور تکلیف ہوئی انہوں نے بلوچستان کی آواز پر لبیک کہا اور ترجیح دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر اور ان کی ٹیم کی بدولت بلوچستان میں سول اور عسکری قیادت میں عدم توازن کم ہوا ہے صوبے میں امن وامان ہو ، قدرتی آفات ہوں افواج نے بلوچستان حکومت کی مدد کی اور شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ(ن) ،بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی سمیت تمام حکومتی ارکان کا شکر گزارہوں کہ انہوں نے میری رہنمائی کی اور مدد کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا کردار اہم ہے ایسا نہیں ہے کہ ان کی سوچ کے مطابق بجٹ آیا اور انہیں بجٹ پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بلوچستان اسمبلی میں دیگر اسمبلیوں کے برعکس روایات کے مطابق بہترین انداز میں بجٹ پیش کرنے دیا جس پر ان کا شکر گزارہوں ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ آئندہ چند سالوں کے لئے ایک روڈ میپ بنایا گیا ہے صوبے میں گورننس، عام آدمی کو سروس ڈیلیوری، امن وامان ،پی ایس ڈی پی پر کھل کربات کرونگا تاکہ بلوچستان کے عوام کو پتہ لگ سکے کہ حکومت کی سمت کیا ہے حکومت نے ان چارشعبوں کے لئے 75ارب روپے کی خطیر رقم رکھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گورننس کی وجہ سے ایک بے چینی ہے بلوچستان میں ہر ایک نے اپنا راگ الاپا ہے بلوچستان میں جو کمزوریاں ہیں ان پر کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا لیکن حکومت نے کوشش کی ہے کہ اسے بہتر کرے ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں دفاتر تھے تو ملازمین نہیں تھے، ملازمین تھے تو دفاتر نہیں تھے جہاں یہ دونوں تھے تو ان کے پاس کام کرنے کی صلاحیت نہیں تھی اور اسے چیک کر نے کا نظام نہیں تھا حکومت نے فیصلہ کیا ہے ہم اپنے لوگوں کے پاس پہنچیں گے صوبے میں 26سب ڈویژن ایسے تھے جہاں اسسٹنٹ کمشنر نہیں تھے آج وہاں اسسٹنٹ کمشنر موجود ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ نوکریوں، تعیناتیوں پر جب تک میرٹ نہیں ہوگا صورتحال بہتر نہیں ہوگی حکومت میرٹ کو ترجیح دے رہی ہے ہم میرٹ کے برخلاف کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کر کے صوبے کے تمام بند دفاتر کو کھولیں گے اس کے ساتھ ہی منظم طریقہ کار کے تحت کام کو چیک کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ سروس ڈیلیوری نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بلخصوص نوجوان نظام، اسمبلی، افسران سے متنفر ہو جاتے ہیں ہم سروس ڈیلیوری کو بہتر بنا کر نوجوانوں کو یہ احساس دلائیں گے کہ حکومت دن رات ان کے لئے کام کر رہی ہے دور دراز کے عوام کے گلے شکوے حکومت تک نہیں پہنچتے ہم نے فنڈز مختص کئے ہیں کہ ہم اپنے نوجوانوں ، مائوں ،بہنوں کی شکایات سن کر انہیں حل کریں گے اور اس کام کی خود نگرانی کرونگا۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال حکومت نے 3200بند سکول کھولے ہیں ،کئی مراکز صحت کو فعال کیا گیا ہے ایک سال میں 16ہزار بھرتیاں کر کے دیکھائی ہیں وزراء سے کہہ رہا ہوں کہ آئندہ چند میں محکموں میں خالی آسامیوں پر غریب بلوچستانیوں کی میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ آئندہ تین ماہ میں غیر فعال بی ایچ یو، ہسپتال فعال کریں گے ،حکومت نوجوانوں کے لئے روزگارکے مواقعے پیدا کریگی ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 43فیصد حصے کو 250ارب سے ترقی نہیں دی جاسکتی لیکن ان محدود وسائل کی کیا صحیح معائنوں میں نشاندہی کی جارہی تھی حکومت نے پی ایس ڈی پی میں تبدیلیاں کی ہیں اس پر اپنے رفقاء کار کا شکرگزار ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو طعنہ دیا جاتا تھاکہ آپ بجٹ 60فیصد سے زائد خرچ نہیں کرتے مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ آج حکومت نے 100فیصد بجٹ استعمال کیا ہے اس کاوش کو آج یہاں روکنے نہیں جارہے آج سے آئندہ مالی سال پر کام شروع کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ بھی 100فیصد خرچ کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو یہ شکایت تھی کہ عملی طور پر کام کا معیار بہتر نہیں بلوچستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی معیار کے مطابق کام کرنا ممکن نہیں لیکن ہمارے پاس جو 200ار ب روپے ہیں وہ عوام پر خرچ ہوں اس حوالے سے میکنزم بنایا ہے کہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے جانچ پڑتال کی جاسکے تاکہ معیار بہتر ہوسکے ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کامسئلہ بڑا چیلنج ہے بلوچستان کے امن و امان پر پورا ملک فکر مند ہے کچھ نام نہاد دانشور ایسے تجزیے کرتے جس کا حقیقی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ایک رات بھی بلوچستان میں نہیں گزاری وہ بلوچستان کے رہنے والے لوگ ہیں اور ہم کسی اور ملک سے آئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک سنجیدہ علیحدیگی کی تحریک سے نبردآزما ہیں اگرچہ ان کی استعداد نہیں ہے میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ ایک انچ زمین بھی دو گھنٹے تک قبضہ نہیں کر سکتے سیکورٹی فورسز کو دوردراز علاقو ں، قومی شاہراہوں کی ایک ،ایک انچ کا دفاع کر رہی ہیں آج میں ایوان میں کہہ رہا ہوں کہ وعدہ کیا تھا کہ قومی شاہراہیں بند نہیں ہونگی آج 95فیصد اس وعدے پر عمل ہوا ہے مجھے کامل یقین ہے کہ حکومت ، فورسز، رفقاء کے ساتھ ملکر امن و امان کے چیلنج کو قبول کر تے ہوئے قومی شاہراہوں پر آنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر بلوچستان کے بچے بچے کو امن و خوشحالی کی جانب لیکر جائیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جاری جنگ کو پارلیمنٹ، عوام سمیت تمام طبقات نے سیکورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان جنگ تصور کیا تھا ہم نے اس تصور کو تبدیل کر کے لڑائی کو اپنی لڑائی سمجھا ہے وفاقی حکومت اور صدر مملکت کا شکرگزارہوں کہ سی ٹی ڈی کو مستحکم کر نے کے لئے 10ارب روپے فراہم کئے گئے اتنی ہی رقم بلوچستان حکومت بھی ادا کریگی ۔ انہوں نے کہا کہ تھانوں اور سی ٹی ڈی دفاتر کی دیواریں نہیں ہیں ہم 100تھانوں کی دیواریں تعمیر کریں گے ،پراسیکوشن کے شعبے کو بہتر بنائیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت آئندہ مالی سال محکمہ انڈسٹریز میں انٹرپرائز ڈوپلمنٹ کے لئے 16ارب روپے رکھے ہیں کیا ہم نوجوانوں کو یہ مستقبل دے رہے ہیں کہ وہ زمباد گاڑی لیں ہم نوجوانوں کو کاروبار کے مواقع دیں گے تاکہ وہ قانون تجارت کر سکیں ۔انہوں نے کہا کہ 10ارب روپے کی لاگت سے سیف سٹی منصوبے شروع کر نے جارہے ہیں کوئٹہ کے چند کیمرے خراب تھے ہم نے پی ڈی کو فارغ کیا لیکن وہ عدالت سے اسٹے کے ذریعے بیٹھا ہے ہم انکوائری کے ذریعے انہیں فارغ کریں گے جہاں غفلت ہوگی سزا دی جائیگی ۔
انہوں نے کہا بلوچستان میں بلوچستان کے اضلاع میں سبزیاں منڈیاں، بس ٹرمینل، لائیوسٹاک مارکیٹ بنانے جارہے ہیں ، زمین کی سیٹلمنٹ اہم مسئلہ ہے اسے بہتر کرنے کے لئے 6ارب روپے کی لاگت سے سیٹلائٹ سسٹم لانے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مستقبل معدنیات سے وابستہ ہے چاغی میں سعودی عرب، چین سمیت دیگر ممالک کی دلچسپی ہے چاغی میں انڈسٹریل اسٹیٹ بنانے جارہے ہیں، 5ارب کی لاگت سے چاغی میں سولر سسٹم دیں گے تاکہ توانائی کی ضروریات پوری ہوسکیں ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ڈیموں کی کمانڈ ایریا پر کام نہیں ہوا حکومت نے کمانڈایریا کی بہتری کے لئی4ارب روپے رکھے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے لوگوں کے لئے جام کمال خان نے ڈوپلمنٹ پیکج شروع کیا کوئٹہ کے گرین بسیں شروع کیں اب حکومت پیپلزٹرین سروس شروع کرنے جارہے ہیں جو کچلاک سے شیخ زید ہسپتال تک چلے گی ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کلچرل پروگرام شروع کر نے کے لئے 2ارب روپے کی رقم مختص کی ہے ۔
بلوچستان میں لو بی ٹی یو گیس موجود ہے 18ویں ترمیم کے تحت ہم صوبے میں فرٹیلائزر سٹی بنانے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چمن، گوادر، چاغی اور تربت میں میٹ پیکجنگ پلانٹ بنا کر گوشت کو ایسکپورٹ کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ واشک میں بہت بڑ ا ڈیم تعمیر کرنے جارہے ہیں جس سے واشک، چاغی اور خطے کے تمام لوگ مستفید ہونگے اس ڈیم سے صنعتوں کو بھی پانی مہیا کریں گے ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگلے ہفتے صوبے کے 164صحت مراکز کو دوبارہ کھولنے جارہے ہیں جس سے 12لاکھ لوگ سالانہ مستفید ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال 1200نئے اسکول تعمیر کئے جائیں گے ،صوبے میں پیپلز ایئر ایمبولینس سروس کے لئے پائلٹس کی ٹریننگ مکمل ہوگی جبکہ جہاز اوور ہالنگ کر نے جارہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہوابازی کے لئے یونٹ بنایا ہے مقامی پائلٹس کو انہی جہازوں میں اڑان کے گھنٹے دیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میںنیشنل بینک کے ساتھ ملکر پنک اسکوٹیز خواتین کو جاری کرنے جارہے ہیں ، صوبے میں یوتھ پالیسی بنائی گئی ہے اس پالیسی پر عملدآمد شروع کردیا گیا ہے ، صحت کارڈ کو ری ویمپ کرنے جارہے ہیں سرکاری ملازمین کو ہیلتھ انشورنس دیں گے تاکہ خزانے پر 7سے 8ارب کا بوجھ کم ہوسکے ۔انہوں نے کہا کہ صوبے کی ہر یونین کونسل میں فلٹریشن پلانٹ لگا کر عوام کو صاف پانی دیں گے ۔
وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے صوبے کے تمام اضلاع کے لئے مختص کئے گئے اہم منصوبے بھی ایوان میں بتائے ۔وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ سولین شہداء کے معاوضے کو 15لاکھ سے بڑھا کر دہشتگردی کے شکار افراد کو 25لاکھ روپے دیں گے ، سیکورٹی فورسز اور سول افسران کے معاوضے کر بڑھا کر 30لاکھ سے 40لاکھ کردیا گیا ہے ، گریڈ 1سی17تک کے ملازمین کے لئے پلاٹ کے لئے رقم 20لاکھ کردیاگیا ہے جبکہ دیگر گریڈز کے لئے بھی بتدریج اضافہ کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ، اسمبلی سیکرٹریٹ، گورنر سیکرٹریٹ، سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کے لئے ایک ماہ کی تنخواہ بونس کے طور پردیناکا اعلان کرتاہوں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے مثبت تنقید کو ہمیشہ خندہ پیشانی سے لایا ہے بجٹ منز ل نہیں ہے ہماری منزل عوام کا اعتماد جیتنا، امن دینا، دربدر بلوچستانی تک اصلاحات پہنچانا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑونگا چاہے میری جان چلی جائے یا کوئی بھی قربانی دینی پڑے بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرنے والوں کے رحم و کرم پر عوام کو نہیں چھوڑیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کو ایک لاحاصل جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے اس جنگ میں خون ریزی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا فیصلہ کیا ہے ان لوگوں کے آگے کبھی سرینڈر نہیں کرونگا اور کھڑا رہونگا مجھے میرے دوست احباب کہتے ہیں کہ خاموش رہا کریں میں انہیں کہتاہوں کہ مجھے اللہ اور آئین نے ذمہ داری دی ہے کہ اس خاتون کی ننگ و ناموس کے ساتھ کھڑا ہوں جس کے سامنے موسیٰ خیل میں بس سے اتار کر اس کے شوہر اور بیٹے کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا اور وہ حیران تھی کہ اپنی چادر شوہر پر ڈالوں یا بیٹے پر۔
انہوں نے کہا کہ آئین ،میری ذمہ داری مجھے خاموش رہنے سے منع کرتی ہیں میں انہیں للکارتا رہونگا ،بلوچ قوم اور پاکستان کے لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرتا رہونگا جو بھی تشدد کریگا وہ دہشتگرد ہوگا جو دوست مجھے خاموش ہونے کا کہتاہیں ان سے کہتاہوں ’’جب کے بت خانوں میں اثنام کی پوجا جاری ہو،جب ایک انسان کی عظمت ایک پتھر کا دم بھاری ہو، جب من کی جمنا میلی ہو اور روح میں ایک بیزاری ہو ،جب جھوٹ کے بھگوانوں سے ایمان پر لرزا طاری ہو ، اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو، ہم اہل عرب ہیں اب ہم سے یہ کفر گوارا کیسے ہم لوگ انا اورحق بولیں گے ، جب را کے اشارے پر میرے دیس پر حملہ ہوتاہے،جب غیروں کے ہتھیاروں تلے میرے پیارے جان سے جاتے ہیں جب اپنے ظالم جابر کی عظمت کا قصیدہ لکھتے ہیں جب حق کی باتیں کہنے پر انسان کی زبانیں کٹتی ہوں اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو ، جس دور میں کعبے والوںکو گرجے کے نظارے بھاتے ہوں ،جس دور میں مشرق والے بھی مغرب کے ترانے گاتے ہوں جس دور میں مسلم لیڈر بھی کچھ کہنے سے گھبراتے ہوں جس دور میں ہمدم غیرت اسباب عدم ہوجاتے ہوں اس دور میں ہم دیوانوں کو تم کہتے ہو خاموش رہو‘‘۔
اس موقع پر اسپیکر نے وزیراعلیٰ کے لئے شعر سنایا کہ ’’فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا مردصحرائی یا بندہ کوہستانی۔‘‘