یکطرفہ بھارتی اقدامات نے مسئلہ کشمیر کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا: سردار مسعود خان

جمعہ 11 جولائی 2025 14:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جولائی2025ء)پاکستان کے سابق سفیر برائے اقوام متحدہ، چین اور امریکہ، اور سابق صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان کی خارجہ پالیسی، کشمیری عوام کی جدوجہد اور عالمی سیاسی منظرنامے میں ملک کی حکمتِ عملی پر تفصیل سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر سفارتکاری کے میدان میں حقیقت پسندی اور تاریخی بصیرت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عالمی سفارتکاری کی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے تاکہ ہم نئے چیلنجز کا مؤثر انداز میں مقابلہ کر سکیں۔اپنے انٹرویو میں سردار مسعود خان نے پاکستان کے ماضی کے وزرائے خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان، آغا شاہی، خورشید محمود قصوری اور حنا ربانی کھرکی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر دور میں پاکستان کو الگ نوعیت کے چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ ایوب خان یا ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار کا موازنہ نہ تو 1980 کی دہائی سے کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی آج کے بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات سے۔ انہوں نے کہا کہ سفارتکاری کی نوعیت اب بنیادی طور پر بدل چکی ہے۔ہم خفیہ ٹیلیگرامز اور کوڈ شدہ فیکسز کے دور سے نکل کر حقیقی وقت پر مبنی ڈیجیٹل سفارتکاری میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں سفارت خانے تنہائی میں نہیں بلکہ عوام کی نظر میں کام کرتے ہیں اور ہر عالمی مسئلے پر فوری ردِعمل دینا پڑتا ہے۔

سردار مسعود خان نے مسئلہ کشمیر کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون قرار دیتے ہوئے کہا کہ مختلف ادوار میں اس مسئلے پر عالمی توجہ کم یا زیادہ ہوتی رہی ہے، تاہم 2019 میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کیے جانے کے بعد مسئلہ کشمیر عارضی طور پر عالمی منظرنامے سے پس منظر میں چلا گیا تھا۔ لیکن حالیہ مہینوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس مسئلے کو ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر کرنے سے بھارت کو سخت پریشانی لاحق ہوئی ہے۔

بھارت کے دوہرے معیار اور سفارتی چالاکیوں پر تنقید کرتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت ہمیشہ دوطرفہ بات چیت کا راگ الاپتا ہے، مگر خود ہی معاہدوں سے پیچھے ہٹ جاتا ہے اور مسئلہ کشمیر کو عالمی ایجنڈے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن دنیا اب اس کھیل کو بخوبی سمجھ چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں پاکستان کے لیے نئے سفارتی امکانات پیدا ہوئے ہیں، خصوصاً امریکہ میں بھارت کے روس اور چین کے ساتھ تعلقات پر بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات نے پاکستان کو ایک نیا موقع فراہم کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب واشنگٹن میں پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت کو دوبارہ سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے، جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق ماضی کی کوششوں اور آئندہ لائحہ عمل پر بات کرتے ہوئے سردار مسعود خان نے مشرف اورمنموہن سنگھ مذاکرات کو نیک نیتی پر مبنی، مگر ناقابلِ عمل قرار دیا۔ ان کے مطابق مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی پائیدار حل کشمیری عوام کی آواز اور پاکستان کے بنیادی قومی مفادات کو شامل کیے بغیر ممکن نہیں۔

انہوں نے 1950 کی دہائی کو پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا سنہری دور قرار دیا اور کہا کہ چوہدری محمد علی اور فیروز خان نون جیسے رہنماؤں نے، ایک نوزائیدہ ریاست کے باوجود، اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف اس قدر موثر انداز میں پیش کیا کہ وہ مقام پھر دوبارہ حاصل نہ ہو سکا۔سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو سیاسی وابستگیوں کی بجائے قومی مفاد کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب وقت ہے کہ پاکستان خود کو اقتصادی اور اسٹریٹجک بنیادوں پر مضبوط کرے، تاکہ عالمی سطح پر ایک باوقار اور موثر ریاست کے طور پر اپنی حیثیت دوبارہ منوا سکے یہ خصوصی انٹرویو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور پاکستان کو اپنی سفارتی حیثیت کو مستحکم کرنے کا نادر موقع میسر آیا ہے۔ سردار مسعود خان کے مطابق واشنگٹن، بیجنگ، برسلز، ریاض اور ماسکو میں پاکستان کے متوازن، سنجیدہ اور ذمہ دارانہ کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے، جب کہ اس کے برعکس بھارت کی سخت گیر، منفی اور توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عالمی سطح پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔