ًبلوچستان میں مزدوری کرنیوالے افراد کی حفاظت حکومت کی اولین ذمہ داری ہے : جاوید قصوری

:پہلے بھی ایسے متعدد واقعات ہو چکے ہیں مگر قانون نافذ کرنیوالے اصل ذمہ داران کو گرفتار کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں ؔسازش کے تحت بلوچستان میں بھارت اور اسرائیل پاکستان کی سلامتی پر وار کر رہے ہیں، امیر جماعت اسلامی پنجاب

پیر 14 جولائی 2025 21:30

(لاہور (آن لائن) امیر جماعت اسلامی پنجاب محمد جاوید قصوری نے منصورہ لاہور میں سیکرٹری جنرل بابر رشید اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات محمد فاروق چوہان کے ہمراہ بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 افراد کا بیہمانہ قتل اور حکومت پنجاب کی کسان دشمن پالیسیوں پر اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جماعت اسلامی بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایسے متعدد واقعات ہو چکے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اصل ذمہ داران کو گرفتار کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں محنت اور مزدوری کرنے افراد کی حفاظت حکومت کی اولین ذمہ داری ہے بد قسمتی سے ایک تسلسل کے ساتھ بلوچستان میں پنجاب کے لوگوں کو قتل کیا جار ہا ہے۔

(جاری ہے)

پوری قوم حکمرانوں سے سوال پوچھتی ہے کہ حکومت نے ان بے گناہ اور نہتے لوگوں کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ آہستہ آہستہ حالات سنگین ہوتے جا رہے ہیں بلوچستان پورے ملک سے تعلق رکھنے والوں کے لئے علاقہ غیر بنتا جا رہا ہے۔

ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بلوچستان میں بھارت اور اسرائیل پاکستان کی سلامتی پر وار کر رہے ہیں۔ جاوید قصوری نے کہا کہ الحمد اللہ ہماری بہادر افواج نے ملکی سرحدوں کی طرح جیسے حفاظت کی ویسے ہی ان مٹھی بھر دہشت گردوں کا قلع قمع کرے گی۔ قوم ساتھ کھڑی ہے۔ جماعت اسلامی پنجاب بے گناہ مزدوروں کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے کی پشت پر کھڑی تمام قوتوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔

ملک کے دو صوبوں میں پچھلے دو برسوں سے دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔افواج پاکستان کی دلیرانہ کارروائیوں اور جانی قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کی سنگین وارداتیں روز کا معمول ہیں۔ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور احتجاج کو ’ویک اپ کال‘ کے طور پر لیا جائے۔بلوچستان میں 6 ماہ دوران دہشتگردی کے 501 واقعات میں 257 افراد جاں جبکہ 238 اہلکاروں سمیت 492 افراد زخمی ہوئے۔

حکومت اور سیکورٹی اداروں کے تمام دعووں کے برعکس بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں 45 فیصد جبکہ سیٹلر ز کی ٹارگٹ کلنگ میں 100 فیصد اضافہ ہوا جو کہ اس با ت کا ثبوت ہے کہ دہشت گردی کی عفریت سے ابھی مکمل طور پر نجات حاصل نہیں ہوئی۔دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سیکورٹی فورسز کا عزم صمیم اور جوانوں کی قربانیاں قابل قدر ہیں، انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ درپیش حالات کے تناظر میں دہشت گردی کا سلسلہ ختم نہ ہونے کے اسباب کا بے لاگ جائزہ لیا جائے۔

اس مقصد کیلئے سیاسی، عسکری اور عوامی حلقوں اور تحقیقی اداروں کی وسیع تر مشاورت سے حکومت حالات کے مطابق موثر اور قابل عمل حکمت عملی وضع کرکے اس کا نفاذ عمل میں لائے، جو اُسی صورت ممکن ہے جب ہم سیاسی اختلافات کو بھلا کر قومی یکجہتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کے مطابق اس گزشتہ برس ملک میں مجموعی طور پر 444 دہشت گردانہ حملے ہوئے، جس میں سیکورٹی فورسز کے 685 جوانوں سمیت 1,612 افراد شہید ہوئے۔

جو کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں 66فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ دہشت گردوں کی جانب سے صوبے میں فتنہ گری‘ سکیورٹی اداروں پر حملے اور معصوم شہریوں‘ خواتین‘ بچوں اور مسافروں جیسے سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنانا دہشت گردی کی بدترین صورت ہے۔ان حملوں سے دہشت گرد جو خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ اس میں کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتے۔بلوچستان کا نوجوان طبقہ بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔

جس کا فائدہ کالعدم جماعتیں اور غیر ملکی دہشت گرد اُٹھا رہے ہیں، صوبے کا المیہ یہ بھی ہے کہ سردار اور نواب سمیت چند لوگ کروڑ اور ارب پتی ہیں اور اکثر عوام غریب، بے روزگار اور غیر تعلیم یافتہ ہیں، بدقسمتی سے سب سے زیادہ ناخواندگی بلوچستان میں ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کی شرح 35 فیصد سے بھی کم ہے اور لڑکوں کی تعلیم 40 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

پنجاب حکومت کی عیاشیاں عروج پر ہیں، مراعات، پروٹوکول،شاہانہ اخراجات پر اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں، المیہ یہ ہے کہ ڈنگ ٹپاؤ اقدامات سے اور اشتہارات سے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے، ترقی کرتے پنجاب کی ترقی صرف اشتہارات تک محدود ہے۔ پنجاب میں اس وقت 4کروڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔ 7کروڑ لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں،1کروڑ بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں جبکہ کسان اور زراعت کا شعبہ پنجاب حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں، کاشتکار بے یارو مددگار اور حکومتی اقدامات سے مایوس ہو چکے ہیں۔

صوبائی حکومت نے طاقت اور جبر سے گندم سستی کروانے کے لئے غریب کسان کا گلا دبا کر اس کا معاشی قتل کیا، اب چینی 200روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے، قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی منظم نظام نہیں نظر نہیں آتا۔چچا بھتیجی کی انھوں نے کہا کہ حکومتوں نے شوگر مافیا کو کھلی چھوٹ دیے رکھی ہے۔ جماعت اسلامی اپنے کسان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، حکومت کوبے حسی ختم کرنی ہو گی اور کاشتکاروں کے مطالبات ماننے ہونگے۔

وزیر اعلیٰ چینی مافیا کو کنٹرول کرنے کی بجائے کاشتکاروں پر مظالم ڈھا رہی ہیں۔ کسان کو معاشی تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ موجودہ حکومت نے کسان دشمنی بلکہ کسان کشی کی تمام حدوں کو عبور کر لیا ہے۔بجلی کے نرخ کم کئے جائیں۔نیزتمام زرعی ادویات، بیج، کھادیں اور زرعی آلات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی جائے۔کسان خوشحال ہو گا تو صوبہ خوشحال ہو گا۔

حکومت کسانوں کو لوٹنے اور اونے پونے فصلیں خریدنے والے مافیاز کی سرپرستی کر رہے ہے۔پنجاب 25کروڑ پاکستانیوں کی 70سے 80فیصد غذائی ضروریات کو پورا کرنے والا صوبہ ہ۔47فیصد آبادی اس سے منسلک ہے۔ پاکستان کے عوام کا غذائی تحفظ اور انہیں سستی روٹی کسان کے معاشی تحفظ سے جڑا ہے۔کسان کا معاشی قتل، اس سے روٹی چھین کر یا اس کا استحصال کرکے ملک کو نہیں چلایا جا سکتا۔ حکومت نے کاشتکاروں کو مایوس کر دیا ہے۔کسان فصلیں اگانے کی بجائے اپنی زمین بغیر کاشت چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں