4 گھنٹوں میں بھارت کو شکست دینے والے 40 سالوں سے ملک سے دہشت گردی کوختم کرنے میں کیوں ناکام؟
دہشت گردی کے خلاف سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے مگر جو مہاجر ہوئے وہ آج بھی دربدر ہیں، دہشت گردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے، مولانا فضل الرحمٰن
بدھ 23 جولائی 2025 22:44
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 جولائی2025ء)جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ 4گھنٹوں میں بھارت کو شکست دینے والی افواج چالیس سالوں سے ملک سے دہشت گردی کوختم کرنے میں کیوں ناکام ہورہی‘ کیا ریاست دہشت گردی کو ختم کرنے میں غیر سنجیدہ ہے؟ ملک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں‘ 18سال سے کم عمرشادی پر پابندی کا بل منظور کرکے غیر شرعی روابط کو بڑھانے میں مدد دی جارہی ہے‘موجودہ حالات میں دینی جماعتوں کو متحد ہوکر جرت مندانہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔بدھ کو ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ میں آج کی مجلس قائدین میں مدعو کرنے پر علامہ سید ساجد علی نقوی کا مشکور ہوں انہوں نے کہاکہ ہم نے بہت سے اقدامات کیلئے آواز اٹھائی بعض میں کامیاب ہوئے جبکہ بعض نہیں ہوسکے‘26 ویں آئینی ترمیم آئی تو ہم نے 26 ویں ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبرداری پر مجبور کیا اس کے بعد یہ 22 نکات پر منحصر ہوا جس میں ہم نے پھر مزید اقدامات تجویز دیئے۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہاکہ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کی آخری تاریخ دی ہے کہ سود ختم کیا جائے اب باقاعدہ دستور میں درج ہے کہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ ہوگا ہم سب کو اس پر نظر رکھنی چاہیے اگر حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا اور اگر ہم عدالت میں گئے تو حکومت کیلئے آسان نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ہی آئین کے خلاف اٹارنی جنرل کھڑا کرے۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی سپریم کورٹ کا اپیلٹ کورٹ میں جائے تو وہ معطل ہو جاتا ہے اب صورتحال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد اب یکم جنوری 2028 کو اس پر عمل ہوگا اگر اس کے خلاف کوئی اپیل ہوئی تو ایک سال کے اندر یہ مہلت ختم ہوگی اور فیصلہ نافذ العمل ہوگا۔انہوں نے کہاکہ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا وفاقی شرعی عدالت کا کوئی جج چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا اب شرعی عدالت کا جج شرعی عدالت کا چیف جسٹس بن سکتا ہے اور اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بحث کے لیے پیش کی جائیں گی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ 18 سال سے کم عمر کی شادی پر سزاکا قانون بنایا گیا ہے ملک میں زنا کے لئے سہولت اور نکاح کے لئے رکاوٹیں کیوں پیدا کی جارہی ہیں انہوں نے کہاکہ غیرت کے نام پر قتل کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی ہے انہوں نے کہاکہ کچھ قوانین اپنے ملک کے غلط یا درست رواج کو بھی دیکھ کر کی جانی چاہئے یہ کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس میں نکاح میں رکاوٹیں اور زنا کے لئے سہولتیں دی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش ہوتی تھیں اب اس پر بحث ہوگی یہ کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دی یہ کیسا اسلامی جمہوریہ ہے کہ زنا بالرضا کی سہولت اور جائز نکاح کیلئے دشواری ہے۔ انہوں نے کہاکہ غیرت کے نام پر قتل انتہائی قابل مذمت، یہ غیر شرعی، قانون سازی معاشرے کی اقدار کے مطابق ہونی چاہیے اگر معاشرتی اقدار کا خیال نہ رکھا جائے تو قانون سازی پر دونوں طرف سے طعن و تشنیع ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ افغانستان پر جب امریکہ نے حملہ کیا تو اس وقت ایک انتشاری کیفیت تھی اس وقت ملک میں متحدہ مجلس عمل فعال تھی اتحاد امہ کیلئے ہم اس وقت جیلوں میں بھی گئے انہوں نے کہاکہ پاکستان میں دینی مقاصد کیلئے بھی اسلحہ اٹھانا غیر شرعی قرار دیا گیا ہے‘پاکستان میں مسلح جدو جہد کو ہم حرام قرار دے چکے ہیں ہم اس وقت سے آئین کیساتھ کھڑے ہیں سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے مگر جو مہاجر ہوئے وہ آج بھی دربدر ہیں اور دہشت گردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے افسوس کہ حکومت نام کی رٹ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں نہیں ہے اور دن کے وقت بھی وہ دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے انہوں نے کہاکہ یہ لوگ جو افغانستان گئے تھے وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے انہوں نے کہاکہ ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے یہ بدامنی ریاستی اداروں کی نااہلی ہے یا شعوری طور پر کی جارہی ہے ہمیں جرت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ دہشتگردی کا معاملہ نائن الیون کے بعد آیا علما نے باوجود امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف آپریشن کئے لوگ آپریشنز کی وجہ سے آج تک بے گھر ہوئے اب پھر لوگوں پر دبا دیا جارہا ہے کہ پھر شہر خالی کرو بتائیں یہ لوگ افغانستان گئے کیسے تھے اور واپس کیسے آئے ہیں انہوں نے کہاکہ دہشتگردی کو چالیس سال سے ختم نہیں کیا جاسکا بتائیں ہمارے افواج نے بھارت کو چار گھنٹے میں شکست دے دی تو دہشتگردی کو چالیس سال سے شکست کیوں نہیں دی جاسکی کیا شعوری طورپر تو دہشتگردی کو شکست دینا ترجیح نہیں ہے انہوں نے کہاکہ کشمیر پر پاکستان تسلسل سے پیچھے ہٹتا گیا ہے مجھے کہا جاتا تھا کہ میں نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کے لئے کیا کیااب تو کئی سالوں سے میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین نہیں ہوں اب کیا کیا ہے بتائیں یہ تین حصوں میں کشمیر کی تقسیم کی بات کیوں کی گئی بتائیں جنرل پرویزمشرف نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کی بات کیوں کی پانچ اگست 2019کو کشمیر پر قرارداد میں آرٹیکل 370کو واپس لینے کا مطالبہ بھی شامل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی دوسری طرف فاٹا کو شامل کیا گیا ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ فاٹا کی حیثیت کشمیر کی حیثیت کو متاثر کرے گی اب حکومت کہہ رہی ہے کہ فاٹا کے انضمام کا جائزہ لینا ہوگا اب حکومت کمیشن بناکر فاٹا پر ازسر نو جائزہ لینا چاہتی ہے آج فاٹا کے لوگوں پر فوج بھی ڈرون حملے کررہی ہے اور طالبان بھی ڈرون حملے کررہے ہیں طالبان کے پاس بھی ڈرون مارنے کی صلاحیت موجود ہے اور قبائلی اپنے گھروں میں مررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اب فاٹا کے دوبارہ بحالی کی باتیں ہو رہی ہیں فاٹا کی بحالی کے لیے صوبائی اسمبلی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ انہوں نے کہاکہ فلسطین پر پاکستان کا پہلا دن کا موقف ہے اسرائیل کی خارجہ پالیسی کی اساس پاکستان کے خلاف ہے یہ کون لوگ ہیںجو پاکستان میں بیٹھ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حماس کے رہنما خالد مشعل کا مجھے فون آیاہے خالد مشعل نے کہا ہے کہ پاکستان جنگ میں ہماری مدد نہیں کرسکتا تو انسانی امداد کے لئے کردار ادا کرے۔