اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 اگست2025ء) وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی ہدایت پر تمام وفاقی وزراء کو فوری طور پر خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بھیجا جا رہا ہے تاکہ وہ ذاتی طور پر ریلیف اور بحالی کے کاموں کی نگرانی کریں، وزراء زمینی سطح پر موجود ہوں تاکہ امدادی سرگرمیوں کو مؤثر انداز میں ہم آہنگ کر سکیں تاکہ امدادی سرگرمیوں کو مؤثر انداز میں ہم آہنگ کر سکیں۔
پیر کووفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ وزیر اعظم نے حکم دیا ہے کہ وزراء متاثرہ علاقوں میں موجود ہوں تاکہ امدادی سرگرمیوں کو مؤثر انداز میں ہم آہنگ کر سکیں، ہر وزیر یہ یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوگا کہ متاثرہ علاقوں میں بجلی، پانی کی فراہمی اور سڑکوں کا نظام جلد از جلد بحال ہو۔
(جاری ہے)
انہوں نے بتایا کہ اہم شاہراہوں کو 24 گھنٹوں کے اندر دوبارہ کھول دیا جائے گا جبکہ خصوصی ٹیمیں بجلی کے گرڈ اور پانی کی فراہمی کے متاثرہ نظام کو بحال کرنے پر کام کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ہے کہ ہر وفاقی وسیلہ ان لوگوں تک پہنچے جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وفاقی حکومت فوری ریلیف کے ساتھ ساتھ طویل مدتی معاونت بھی فراہم کرے گی تاکہ حالیہ سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کی بحالی ممکن ہو۔
انہوں نے زور دیا کہ اس بحران سے نمٹنے کے لئے وفاقی اور صوبائی ذمہ داریوں میں کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ میں ان تمام افراد سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں جنہوں نے اپنے پیاروں، اپنے گھر یا ذریعہ معاش کھو دیا۔انہوں نے کہا کہ ایسے نقصانات کا اصل ازالہ ممکن نہیں لیکن وفاقی حکومت، صوبوں کے ساتھ مل کرہر ممکن مدد فراہم کرے گی تاکہ متاثرہ خاندانوں کو سہارا دیا جا سکے اور ان کے گھر بحال کئے جا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے کاربن کے اخراج کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے سرفہرست سات یا آٹھ آلودگی پھیلانے والے ممالک 75 فیصد سے زیادہ اخراج کے ذمہ دار ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی 85 فیصد عالمی ماحولیاتی مالی امداد حاصل کرتے ہیں۔مصدق ملک نے اس صورتحال کو عالمی سطح پر واضح منافقت قرار دیا اور کہا کہ پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھاتا رہے گا، ساتھ ہی اپنے ہاں آفات سے نمٹنے اور ماحولیاتی لچک کو مضبوط بنانے کے لئے کام کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی مدد سے ایک مکمل مربوط ابتدائی انتباہی اور موسم کی پیش گوئی کا نظام تیار کیا جا رہا ہے تاکہ بروقت اطلاعات دی جا سکیں اور قیمتی جانیں بچائی جا سکیں۔وفاقی وزیر نے صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ دریاؤں اور پہاڑی ندی نالوں کے کنارے رہنے والی کمزور آبادیوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل کریں،یہ عام نالے نہیں ہیں ،جب پہاڑوں سے سیلابی ریلے آتے ہیں تو وہ تباہ کن طاقت کے ساتھ آتے ہیں، ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہے اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ہے۔
مصدق ملک نے عوام کو یقین دلایا کہ مستقبل میں تمام انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبے وقت پر بجٹ کے اندراور اعلیٰ معیار کے ساتھ مکمل کئے جائیں گےاور ان پر سخت نگرانی رکھی جائے گی تاکہ پچھلے منصوبوں کی طرح تاخیر نہ ہو۔اس موقع پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے خبردار کیا کہ مون سون کی صورتحال اگست کے آخر تک خطرناک بنی رہے گی جبکہ ستمبر کے آخر تک معمول پر آنے کی توقع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موجودہ مون سون کا سلسلہ جمعہ تک کم ہو جائے گا تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ملک میں مزید شدید بارشوں کے خطرات بدستور موجود ہیں اور آئندہ ہفتوں میں دو سے تین مزید بارشوں کے سلسلے متوقع ہیں، آخری بارشوں کا سلسلہ 10 ستمبر تک ختم ہونے کی امید ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی صورتحال ستمبر کے آخر تک معمول پر آ جائے گی۔چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ جاری مون سون سیزن کے دوران اب تک 670 افراد جاں بحق جبکہ 1,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ 80 سے 90 افراد تاحال لاپتہ ہیں، تلاش کا عمل جاری ہے اور اگر لاپتہ افراد نہ ملے تو انہیں بھی سرکاری ہلاکتوں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 425 سے زائد ریلیف کیمپس قائم کئے جا چکے ہیں جہاں بنیادی ضروریات اور طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، بے گھر ہونے والے خاندانوں کو سرکاری عمارتوں، خصوصاً سکولوں میں عارضی طور پر ٹھہرایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم راشن پروگرام کے تحت خوراک کی تقسیم کا عمل بھی جاری ہے جو صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں کے ساتھ ہم آہنگی سے کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف کی ہدایت پر خصوصی فوجی یونٹس تعینات کر دی گئی ہیں جبکہ شدید زخمی افراد کو ہسپتالوں میں فضائی راستے سے منتقل کیا جا رہا ہے، فیلڈ ایمبولینسز مریضوں کو متحرک انداز میں منتقل کر رہی ہیں اور تمام بڑے ہسپتال مکمل طور پر سرگرم ہیں، نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این ای او سی ) ہائی الرٹ ہے اور مسلسل مختلف ذرائع سے حاصل کردہ ڈیٹا جاری کر رہا ہے تاکہ امدادی کارروائیوں کو مؤثر بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان آرمی ایوی ایشن کے اڈے ریزرو سسٹمز کو فعال کر چکے ہیں تاکہ مون سون کی جاری ہنگامی صورتحال میں انخلاء کی کارروائیاں کی جا سکیں ، شدید زخمیوں کو بڑے ہسپتالوں میں منتقل کیا جائے گا جبکہ ملک بھر کے بڑے کمبائنڈ ملٹری ہسپتالوں (سی ایم ایچ ) کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔این ڈی ایم اے مسلح افواج اور صوبائی حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں فوری طبی امداد اور لاجسٹک معاونت کو یقینی بنایا جا سکے۔
انہوں کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے پانی اور ملبے کا بہاؤ نشیبی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتا ہے، سڑکوں، پلوں اور بنیادی سہولیات کی بحالی کا کام جاری ہے۔چیئرمین این ڈی ایم اے نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان میں نقصانات کا سروے مکمل کر لیا گیا ہے اور نقصانات کا مرتب شدہ ڈیٹا 10 ستمبر تک شیئر کیا جائے گا، بارش سے متعلق نقصانات کا تخمینہ وفاقی اور صوبائی محکموں پر مشتمل ایک مربوط نظام کے تحت تیار کیا جا رہا ہے۔