ایوان بالا نے انسداد دہشت گردی(ترمیمی)بل 2025 کی منظوری دے دی

منگل 19 اگست 2025 17:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 اگست2025ء) ایوان بالا نے کثرت رائے سے انسداد دہشت گردی(ترمیمی)بل 2025 منظور کرلیا جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ دہشت گردی سے نجات کے لئے ہمیں سیاست سے بالاتر ہوکر قانون سازی کرنا ہوگی۔منگل کو ایوان بالا میں وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے تحریک پیش کی کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں مزید ترمیم کرنے کا بل قومی اسمبلی سے منظور کردہ صورت میں زیر بحث لانے کی اجازت دی جائے، اس پر اپوزیشن کی جانب سے اعتراض کیاگیا۔

اس پر بات کرتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ قانون غیر معمولی وقت میں ملک کو غیر معمولی صورتحال سے نکالنے اور دہشت گردی کی کی لعنت سے نکالنے کے لئے بنایا گیا،اس وقت لاکھوں پاکستانی اس دہشت گردی کی وجہ سے شہید ہوئے،اس وقت انتہا پسندی ہے۔

(جاری ہے)

ہم سب دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ایک ساتھ ہیں اور یہ جنگ جیتیں گے تاہم اس ترمیمی بل کی منظوری میں جلد بازی نہ کی جائے، اس ترمیم کو کمیٹی میں بھیجا جائے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ محرم علی کیس میں، میں بھی اس کی پروسیڈنگ کا حصہ رہا۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد اپوزیشن کی مشاورت سے یہ ترمیم کی گئی تھی۔آرٹیکل 10 میں نظر بندی کے قانون کو واضح کیا گیا ہے اگر یہ 1973 کے آئین سے متصادم ہوا تو میں سر تسلیم خم کروں گا۔انہوں نے کہا کہ اگر ان آئینی ضمانتوں کے مطابق ہے تو ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے،ان دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار فورسز کو تحفظ دینا اس پارلیمان کا کام ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ صرف افواج کے زیر استعمال نہیں ہوگا۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ افواج کو سول انتظامیہ کی مدد کے کئےطلب کرسکتی ہیں، فوج وہیں پر اس ترمیم کا حق استعمال کرسکے گی، صوبوں میں استعمال ہوگی تو اس کی صوبائی حکومتیں منظوری دیں گے۔یہ نظر بندی یا تحویل تین ماہ کے لئے ہوگی۔کسی کے بارے میں مستند اطلاعات ہیں کہ سلامتی،امن وامان ریاست کی خودمختاری کے حوالے سے خطرات اور افراتفری کی صورت میں 90 دن کے لئے تحویل میں لے لیا جائے گا۔

245 کے احکامات کو چیلنج کرنے کے لئے وفاقی یا صوبائی سطح پر ریویو بورڈ ہوں گے وہاں یہ تحویل چیلنج ہوگی اور اس کا فیصلہ ہونا ہے کہ اس میں توسیع یا خاتمہ کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ حفاظتی تحویل کے لیے شواہد اور ٹھوس وجوہات ہوں۔اس کی انکوائری کرنی ہے لاپتہ یا غائب نہیں کرنا، جبری گمشدگیوں کا خاتمہ مقصد ہے۔احد چیمہ کو اٹھایا گیا سواتین سال جیل میں رکھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ قانون رائج الوقت تھا۔انسداد دہشت گردی کا قانون بہت سخت تھا،گاڑیوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر گولیاں ماری جاتی ہیں کہ تو پنجابی ہے اور تجھے جینے کا حق نہیں ہے، یہ کہاں کا قانون ہے،کون سا قانون یا آئین اس کی اجازت دیتا ہے،کیوں ہم ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہیں،کیوں ہم ایکشن نہیں لیتے،ریاست بے بس کیوں ہے،یہ قانون سازی اس ایوان کا فرض ہے،اس پر سیاست نہ کریں، ملک ہوگا تو اقتدار ہوگا اور ہم اور آپ سب اقتدار میں آئیں گے، پاکستان کو سب سے پہلے رکھیں۔

انہوں نے کہا کہ اللہ کرے ہم دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ 1973 کے آئین کے مطابق آرٹیکل 10 کے مطابق باقاعدہ کیس بناکر ایسے ملزم کو تحویل میں رکھا جائے گا۔ہمارے موجودہ معروضی حالات میں اس سے زیادہ حفاظتی تحویل میں رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔اس قانون کی جوڈیشل سکروٹنی ہوچکی ہے۔ اس کو منظور کیاجائے،2014 کو نافذ ہوا اور دو سال نافذ العمل رہا، دوسالہ مدت کے لئے نافذ تھا اور پھر مدت پوری ہونے کے بعد ختم ہوا، اس کو بہتر کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں ترامیم شامل کی گئیں۔

شیری رحمان نے کہا کہ ہم نے اس بل پر بہت عرق ریزی کی ہے،ہم یہاں لوگوں کے حقوق کے ضامن ہیں ، ہم دنیا میں کسی بھی ملک سے زیادہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ہم ، قربانیاں دے کر یہاں آئے ہیں،ہمیں لاپتہ کیا گیا۔ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ انصاف ہو اور آئین کے مطابق ہو، ایسا نہ ہو کہ جعفر ایکسپریس کا سانحہ ہو اور اس کے مجرم بھی چھوٹ جائیں۔

اس قانون کے تحت اٹھائے جانے اور اس کے متعلق آگاہی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اے پی ایس کے بعد اس پر مہینہ بحث ہوئی اس پر عملدرآمد صوبہ کرے گا۔سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ وزیر قانون بہت سی وضاحتیں کرچکے ہیں۔آئین پاکستان میں حفاظتی تحویل شامل تھی ہم بھی اس کا شکار رہے،ہمارے سمجھوتوں کی وجہ سے ملک دہشت گردی کا شکار ہوا۔جہاں کوئی سیاسی کارکن لاپتہ ہے اسے عدالت میں پیش کریں،سزا دیں جیل میں ڈالیں۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کر رہے ہیں ان سے نمٹنے کے لیے یہ سہولیات درکار ہیں۔دہشت گرد کو پناہ میں دینا جرم ہے۔مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم موقف اچھے طریقے سے نہیں پہنچاتے، جو بریفنگ یہاں دی گئی یہ باہر ہونی چاہیے تھی،یہ ہماری کمزوری ہے،اس کو تسلیم کرتے ہیں۔اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

کسی بھی شخص کو قید،جیل یا منہ پر کپڑے ڈالے ہوئے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔فواد چوہدری کو منہ پر کپڑا ڈال کرلے جانے پر میں نے یہاں اعتراض اٹھایا تھا۔اسی طرح شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑی میں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔کوئی احساس رکھنے والا شخص ان چیزوں کی حمایت نہیں کر سکتا۔ہم نہیں چاہتے کہ اپوزیشن کے ساتھ ایسا ہو جیسا ہمارے ساتھ ہوا۔تاہم ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ملک میں دہشت گرد دندناتے پھریں ،ہمارے معصوم لوگ ذبح ہوتے رہیں، یہ لوگ کون ہیں،ان مسائل کی وجہ سے ہماری فیڈریشن اور یکجہتی متاثر ہوتی ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ کوئی بہت جمہوری قانون ہے لیکن حالات کی ضرورت کے تحت قانون سازی ہوتی ہےیا پھر ہم دہشت گردوں کے آگے ہاتھ ہتھیار ڈال دیں۔یہ قانون کسی جرم کی روک تھام کے لئے ہوگا ، جس کو گرفتار کیا جائے گا انہیں پہلے جرم کے حوالے سے آگاہ کیاجائے گا۔انہوں نے کہا کہ ملک آگ میں جل رہا ہے اس قانون سازی میں مدد کریں،ہمیں اس دہشت گردی کے طوفان کو روکنا ہے۔

اس قانون کو اپوزیشن کا راستہ روکنے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے۔باپ کے پارلیمانی لیڈر منظور کاکڑنے کہا کہ پاکستان کب تک اس دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے گا۔اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہمیں مل کر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ہم سب مل کر اپنے بچوں کے لئے ایک اچھا اقدام اٹھانے جارہے ہیں اس پر عمل ہونا چاہیے۔نورالحق قادری نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے قانون کی کوئی مخالفت کرتا ہے تو یہ تصور نہ کیاجائے کہ دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں،ہم دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔

اس ترمیم سے دیکھا جائے کہ اس ترمیم سے دہشت گردی بڑھے گی یا ختم ہوگی۔کامران مرتضی نے کہا کہ حکومتی ترامیم کی مخالفت کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کوئی دہشت گردی کا حامی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔90 دن کی تحویل کے بعد مزید وقت تک زیر حراست رکھے جانے کی شق شامل ہے اس میں دورانیہ نہیں دیا گیا۔تحریک کی منظوری کے بعد چیئرمین نے شق وار منظوری لی اور اس میں حکومتی ترامیم منظور کرلی گئی۔کامران مرتضی نے کہا کہ ترمیم کے ساتھ یہ تحریک بھی شامل تھی کہ اس کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے۔انہوں نے ترمیم پیش کی، ایوان میں پیش کی گئی ترمیم کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔اس کے بعد وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے بل منظوری کے لئے پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دے دی۔