Live Updates

پنجاب میں سیلاب سے کئی شہروں کے بند ٹوٹ گئے، دیہات زیر آب، رابطے منقطع

ہفتہ 30 اگست 2025 13:38

پنجاب میں سیلاب سے کئی شہروں کے بند ٹوٹ گئے، دیہات زیر آب، رابطے منقطع
قصور، بہاولپور، جھنگ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 اگست2025ء) پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے سیلاب کا خطرہ ٹل گیا، قصور کے مقام پر تاریخ کا سب سے بڑا سیلابی ریلا گزر گیا، ملتان میں آج بڑا ریلا داخل ہوگا، پاکپتن، احمد پور شرقیہ، چشتیاں میں حفاظتی بند ٹوٹنے سے کئی بستیاں زیر آب آ گئیں اور رابطے منقطع ہو گئے۔راوی، چناب اور ستلج کے بپھرنے سے پنجاب کے 1769 موضع جات زیر آب ہیں اور پندرہ لاکھ کے قریب افراد سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 28 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کیمقام پر انتہائی اونچیدرجے کا سیلاب برقرار ہے جس کے باعث تلوارپوسٹ سے ملحقہ دیہات خالی کرانے کے لیے اعلانات کیے گئے۔

(جاری ہے)

گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کے بہاؤ میں کمی کا سلسلہ جاری ہے جہاں بہاؤ 3 لاکھ 90 ہزار کیوسک سے کم ہو کر صبح چھ بجے 3 لاکھ 3 ہزار 828 کیوسک پر آگیا ہے تاہم ہیڈ سلیمانکی اور ہیڈ اسلام پر اب بھی سیلابی خطرات موجود ہیں۔

ادھر دریائے راوی میں ہیڈ بلوکی پر پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور بہاؤ ایک لاکھ 92 ہزار 545 کیوسک تک جا پہنچا ہے، ہیڈ سدھنائی پر بھی پانی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ شاہدرہ لاہور اور جسڑ پر بہاؤ میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، دریائے چناب میں ہیڈ پنجند کے مقام پر بھی پانی کی آمد بڑھ رہی ہے۔ڈائریکٹر جنرل پرونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی پنجاب عرفان علی کاٹھیا نے کہاکہ بھارت میں بند ٹوٹنے کے سبب پانی قصور کی طرف بڑھا، دریائے ستلج میں قصور کے مقام پر 1955 کے بعد تاریخ کا سب سے بڑا پانی آیا ہے۔

قصور شہرکو بچانیکا چیلنج درپیش ہے۔انہوں نے کہا کہ لاہور اب بالکل محفوظ ہے جبکہ دریائے راوی میں طغیانی کے سبب آئندہ 24 سے 48 گھنٹے اوکاڑہ، ساہیوال اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سمیت لاہور سے نیچے کے اضلاع کے لیے سخت ہوں گے۔پی ڈی ایم اے کے مطابق اب تک سیلاب کے باعث صوبے میں 28 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں تاہم بروقت ریسکیو آپریشنز کے باعث مزید جانی نقصان سے بچاؤ ممکن ہوا ہے۔

بھارتی مقبوضہ علاقے سے آزاد کشمیر میں دریائے جہلم میں پانی چھوڑ دیا گیا ہے، بھارت کی طرف سے چھوڑا گیا پانی کا ریلا کنٹرول لائن چکوٹھی کے مقام سے آزاد کشمیر میں داخل ہو رہا ہے۔پاکپتن میں اونچے درجے کے آبی ریلے نے تباہی مچادی جس کے باعث متعدد حفاظتی بند ٹوٹ گئے جبکہ کئی بستیاں زیرِ آب آگئیں، اہم سڑک کے ڈوبنے سے کئی آبادیوں کا زمینی راستہ منقطع ہوگیا ہے جس سے علاقہ مکینوں کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا۔

ظفروال سے لہڑی کو ملانے والے واحد راستے پر شگاف پڑ گیا، درجنوں دیہات کا رابطہ منقطع ہوگیا، ہزاروں ایکڑ پر چاول کی فصلیں تباہ ہوگئیں، سیالکوٹ کے قصبہ بڈیانہ سے گزرنے والے برساتی نالے نے تباہی مچا دی، گردونواح کی آبادیاں زیر آب آ گئیں۔سیالکوٹ پسرور روڈ ٹریفک کیلئے بند کردی گئی، بجوات کے 85 دیہات کا سیالکوٹ سے زمینی رابط منقطع ہوگیا، سیلابی پانی کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔

ملتان کی حدود میں آج شام تک سیلاب کا بڑا ریلا داخل ہونے کا امکان ہے، 3 لاکھ سے زائد افراد کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے، متاثرین نے کشتیاں کم ہونے اور مویشیوں کی منتقلی کے انتظامات نہ کرنے پر انتظامیہ سے شکوہ کیا ہے۔جلالپور پیروالا کے قریب دریائے ستلج سے 50 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے، جس سے 140دیہات متاثر ہوئے ہیں، راجن پور میں اونچے درجے کے سیلاب کیپیش نظر نشیبی علاقوں سے لوگوں کی منتقلی جاری ہے۔

بہاولپور میں دریائے ستلج کیکناروں پر نشیبی علاقوں کے مکینوں کی نقل مکانی جاری ہے۔فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ میں سیلابی صورتحال کے پیش نظر ہائی الرٹ کردیا گیا ہے جبکہ دریائی اور نشیبی علاقوں کے مکینوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کی جارہی ہے۔دریائے چناب کے سیلابی ریلے کے بعد وزیر آباد اور حافظ آباد کے علاقے متاثر ہیں، حافظ آباد کے چالیس دیہات اب بھی ڈوبے ہوئے ہیں۔

چشتیاں کے نواحی علاقوں میں ستلج کی طغیانی سے سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، بند ٹوٹنے سے پانی گھروں اور آبادیوں میں داخل ہوگیا، 50 کے قریب بستیاں شدید متاثر ہوئی ہیں جس کے باعث علاقہ مکینوں کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل کیا جارہا ہے۔لاہور میں شاہدرہ کے مقام پر دریائے راوی میں پانی کی سطح میں کمی ہونے لگی ہے، اس وقت شاہدرہ کے مقام سے ایک لاکھ 38 ہزار کیوسک ریلا گزر رہا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز دریائے راوی میں شاہدرہ کے مقام پر ایک لاکھ 90 ہزار کیوسک سے زائد کا ریلا گزر رہا تھا، جس کے بعد کئی بستیاں پانی میں ڈوب گئی تھیں۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کشتی میں سوار ہوکر دریائے راوی میں شاہدرہ کے مقام پر سیلاب کی صورت حال کا جائزہ لیا تھا۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں بھی شدید سیلابی صورتحال کا خطرہ ہے، 3 سے 4 ستمبر کے دوران 9 سے ساڑھے 9 لاکھ کیوسک تک کے ریلے پنجند ہیڈ ورکس سے گزریں گے۔

بند توڑ کے بہاؤ کا رخ بدلنے کی صورت میں 8 لاکھ 25 ہزار سے 9 لاکھ کیوسک کے ریلے متوقع ہیں، گڈو بیراج پر 5 سے 6 ستمبر کے دوران 8 لاکھ سی11 لاکھ کیوسک بہاؤ متوقع ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے نشیبی علاقوں میں شدید اونچے درجے کا سیلاب متوقع ہے، بالائی علاقوں میں موجود شدید بہاؤ نشیبی علاقوں میں اونچے درجے کی سیلابی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔

پنجاب کے بعد صوبہ بلوچستان بھی سیلاب کی زد میں آنے کا امکان ظاہر کر دیا گیا ہے۔وزیر آبپاشی بلوچستان صادق عمرانی نے کہا ہے کہ 2 ستمبر کو سیلاب دریائے سندھ سے بلوچستان میں داخل ہونے کا امکان بتایا گیا ہے، جعفر آباد، روجھان، اوستہ محمد، صحبت پور کے زیر آب آنے کا خدشہ ہے۔صادق عمرانی نے آگاہ کیا کہ سندھ حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے، ممکنہ سیلاب کے پیش نظر کیمپ آفس نصیرآباد میں قائم کر دیا گیا ہے۔ریسکیو پنجاب کے ترجمان فاروق احمد کے مطابق اب تک دریائے سندھ، چناب، راوی، ستلج اور جہلم کے ملحقہ علاقوں سے 92,844 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
Live سیلاب کی تباہ کاریاں سے متعلق تازہ ترین معلومات