اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 ستمبر 2025ء) پاکستان میں شدید بارشوں اور طغیانی نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا رکھی ہے، حکام اور اقوام متحدہ کے مطابق 16 لاکھ افراد بڑے پیمانے پر سیلاب کی زد میں آنے کے خطرے میں ہیں اور انہیں فوری طور پر نقل مکانی یا ریسکیو کی ضرورت ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق دریاؤں میں طغیانی، فلیش فلڈز، شہری علاقوں میں پانی بھرنے، لینڈ سلائیڈنگز اور گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے 'پھٹنے‘ سے اب تک 928 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین افئیرز کے رابطہ دفتر (او سی ایچ اے) کے مطابق ملک کے شمالی ہمالیائی خطے، شمال مغربی پہاڑی علاقوں اور وسطی میدانی حصوں میں اب تک 60 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
(جاری ہے)
صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے مطابق اب تک دو لاکھ سے زائد افراد کو دریائی پٹیوں سے نکالا جا چکا ہے اور مزید ریسکیو کے لیے اقدامات جاری ہیں۔
پنجاب میں فوج اور ریسکیو ادارے کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اب تک 20 لاکھ سے زیادہ افراد کو نکال چکے ہیں، جن میں سے صرف دو دن میں تین لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ادھر کراچی میں بدھ کے روز اسکول بند رہے اور شہر کی سڑکیں سنسان نظر آئیں کیونکہ رات بھر کی بارش کے بعد تقریباً پورا شہر زیر آب آ گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جولائی سے ستمبر تک جاری رہنے والا مون سون سیزن حالیہ برسوں میں غیر متوقع اور زیادہ خطرناک ہو گیا ہے، جس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا بہت بڑا کردار ہے۔اس جنوبی ایشیائی ملک میں سن 2022 کے سپر فلڈز میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں متاثر ہوئے تھے، جن میں بعد میں پھیلنے والی بیماریوں کے سبب ہونے والی اموات بھی شامل تھیں۔
ادارت: مقبول ملک