اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 ستمبر 2025ء) اپنے وطن افغانستان میں طالبان کی طرف سے خواتین پر کالج جانے کی پابندی کے بعد، بہارا ساغری نے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔
اکیس سالہ ساغری نے کئی سال تک روزانہ آٹھ گھنٹے تک انگریزی کی مشق کی اور بالآخر ایلی نوائے کی ایک پرائیویٹ لبرل آرٹس کالج میں بزنس ایڈمنسٹریشن کورس میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
وہ امید کر رہی تھیں کہ اس سال موسم خزاں میں امریکہ پہنچ جائیں گی، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سفری پابندی کی وجہ سے ان کے منصوبے ایک بار پھر ناکام ہو گئے۔ساغری نے کہا، ''آپ سوچتے ہیں کہ آخرکار آپ اپنے خواب کی حقیقت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پھر اچانک کچھ ہو جاتا ہے اور سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
ہزاروں طلبہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو ٹرمپ انتظامیہ کی سفری پابندی اور 19 ممالک کے شہریوں پر عائد پابندیوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
ان میں سے بہت سے طلبہ نے امریکہ آنے کے لیے وقت اور پیسہ لگایا مگر اب خود کو پھنسے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔کچھ ممکنہ بین الاقوامی طلبہ اس موسم خزاں میں امریکی کیمپسز میں داخلہ کی پیشکش کے باوجود وہاں پہنچ نہیں سکے کیونکہ ویزا درخواستوں میں رکاوٹیں پیش آئیں، جنہیں ٹرمپ انتظامیہ نے سخت جانچ کے دوران مزید سست کر دیا۔ کچھ نے وسیع تر امیگریشن کریک ڈاؤن اور طلبہ کی قانونی حیثیت ختم ہونے کے باعث اپنا ارادہ بدل لیا۔
لیکن سب سے بڑے مسائل ان طلبہ کو پیش آئے جو براہِ راست سفری پابندی سے متاثر ہوئے۔ گزشتہ سال، محکمہ خارجہ نے مئی سے ستمبر کے درمیان 19 متاثرہ ممالک کے افراد کو 5,700 سے زیادہ افراد کو ایف ون اور جے ون ویزے (جو غیر ملکی طلبہ اور محققین کے لیے ہوتے ہیں) جاری کیے۔ ان میں سے نصف سے زیادہ ویزے ایران اور میانمار کے شہریوں کو دیے گئے۔
امریکہ اب بھی طلبہ کی پہلی پسند
ایران کے شہر شیراز سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ پویا کرامی نے اپنی تعلیمی تلاش صرف امریکہ پر مرکوز رکھی۔
انہوں نے کہا کہ سائنس میں تحقیق کے وہ مواقع کسی اور ملک میں نہیں۔ وہ اس موسم خزاں میں کینساس کے پٹس برگ اسٹیٹ یونیورسٹی میں پولیمر کیمسٹری پڑھنے جا رہے تھے، لیکن سفری پابندی کے باعث اپنے منصوبے ملتوی کرنا پڑے۔کرامی نے داخلہ اگلے سال تک مؤخر کر دیا ہے اور اب بھی امید لگائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے سفارتخانے کی انٹرویو کی تیاری کر رہے ہیں اور امریکی سیاستدانوں سے رابطہ کر رہے ہیں کہ طلبہ پر پابندیاں ختم کی جائیں۔
انہوں نے کہا، ''میں اس کے لیے جو کر سکتا ہوں، کر رہا ہوں۔‘‘
مکمل سفری پابندی افریقہ، ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور کیریبین کے 12 ممالک کے شہریوں پر اثرانداز ہوئی ہے۔ یہ زیادہ تر افراد کو نئے ویزے حاصل کرنے سے روکتی ہے، اگرچہ کچھ کو استثنیٰ حاصل ہے جیسے گرین کارڈ ہولڈرز، دوہری شہریت رکھنے والے اور کچھ کھلاڑی۔ دیگر سات ممالک کے لیے بھی سخت پابندیاں ہیں جو طلبہ ویزوں پر لاگو ہوتی ہیں۔
جون میں جب ٹرمپ نے پابندی کا اعلان کیا تو انہوں نے وجہ بیان کی کہ کچھ ممالک کے ویزا اوور اسٹے کی شرح بہت زیادہ ہے اور غیر مستحکم یا مخالف حکومتوں سے قومی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک کے اسکریننگ سسٹم ''ناکافی‘‘ ہیں اور یہ پابندی تب تک برقرار رہے گی جب تک ''خامیاں دور‘‘ نہیں ہوتیں۔
خاندانوں کی امیدیں طلبہ سے وابستہ
میانمار میں ایک 18 سالہ طالب علم کے خاندان نے اس کی تعلیم کو سب سے بڑی ترجیح دی اور اسے بیرون ملک بھیجنے کے لیے اپنی آمدنی بچائی۔
خاندان نے اپنی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا تاکہ اسے بہتر زندگی کا موقع ملے۔ اس طالب علم نے، جس نے اپنا اصل نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی اور صرف اپنی عرفیت "گو گو" بتائی، کہا کہ وہ امریکی یا میانمار حکومت کی تنقید سے بچنا چاہتا ہے۔اس نے بتایا کہ جب اس نے اپنی فیملی چیٹ میں یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا کا لیٹر شیئر کیا تو سب نے خوشی کے ایموجیز بھیجے۔
لیکن ایک رات اس کی والدہ نے اسے اٹھایا اور امریکی سفری پابندی کی خبر بتائی۔ لمحوں میں اس کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے۔میانمار میں اس کی عمر کے بہت سے طلبہ فوج میں بھرتی کر لیے گئے ہیں یا مزاحمتی گروہوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ خانہ جنگی کے دوران وہ امریکہ میں عام آزادیوں جیسے اکیلے اسکول جانا یا اسپورٹس میں حصہ لینے کا انتظار کر رہا تھا۔
گو گو نے کہا، ''میں مکمل طور پر امریکہ کے لیے پرعزم تھا، تو یہ سب میرا دل توڑ دیتا ہے۔‘‘
متبادل کی تلاش
افغان طالبہ ساغری نے جولائی میں پاکستان میں اپنی ویزا انٹرویو اپائنٹمنٹ کو اگست تک مؤخر کیا لیکن پھر منسوخ کر دیا۔ ناکس کالج نے اس کی داخلہ مؤخر کرنے کی درخواست رد کر دی۔
بعد میں اس نے یورپ میں کالجوں میں درخواست دی لیکن داخلے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک جرمن یونیورسٹی نے کہا کہ اسے انگریزی کا دوبارہ امتحان دینا ہو گا کیونکہ پرانا اسکور ختم ہو چکا ہے، لیکن افغانستان میں سیاسی حالات کے باعث پہلی بار امتحان دینا بھی مشکل تھا۔اسے اب پولینڈ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ کی پیش کش ملی ہے بشرطیکہ وہ فیس پہلے ادا کرے۔ اس کی درخواست تاحال جانچ کے عمل میں ہے۔
ایران کے 28 سالہ گریجویٹ عامر بھی سفری پابندی کی وجہ سے یونیورسٹی آف پینسلوینیا میں وزیٹنگ اسکالر کے طور پر نہیں جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ موقع ضائع ہونے کے بعد تحقیق پر توجہ دینا مشکل ہے۔ان کے پروفیسر نے ان کی تحقیق کی پوزیشن اگلے سال تک مؤخر کر دی ہے، لیکن سامر نے کہا کہ یہ ''اندھیرے میں تیر چلانے‘‘ جیسا ہے۔ وہ یورپ میں مواقع دیکھ رہے ہیں، لیکن اس کے لیے نئے زبان سیکھنے اور وقت لگانے کی ضرورت ہو گی۔
انہوں نے کہا، ''آپ دنیا کو مثالی نظر سے دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ لگتا ہے کہ اگر میں محنت کروں، اگر میں باصلاحیت ہوں، اگر میں تعاون کروں تو کہیں نہ کہیں جگہ ہے۔ اور پھر آپ کو پتا چلتا ہے کہ نہیں، شاید لوگ آپ کو وہاں نہیں چاہتے۔ یہ برداشت کرنا مشکل ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین