Live Updates

کرکٹ ایشیا کپ: ٹورنامنٹ کے بعد بھی سیاسی ڈرامہ جاری

DW ڈی ڈبلیو پیر 29 ستمبر 2025 13:40

کرکٹ ایشیا کپ: ٹورنامنٹ کے بعد بھی سیاسی ڈرامہ جاری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 ستمبر 2025ء) گزشتہ شب کھیل کے میدان پر ایک عجیب و غریب نظارہ اس وقت دیکھنے کو ملا، جب بھارتی کرکٹ ٹیم نے ایشیا کپ کے فائنل مقابلے میں پاکستان سے میچ جیتنے کے بعد ایشیائی کرکٹ کونسل کے سربراہ اور پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار کر دیا۔

کسی بھی بھارتی کھلاڑی نے اپنے گلے میں تمغہ نہیں پہنا اور بھارتی کپتان سوریہ کمار یادو نے ٹرافی بھی نہیں لی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سربراہ محسن نقوی ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی ہیں اور روایت کے مطابق انہیں کو یہ ٹرافی جیتنے والی ٹیم کو دینی ہوتی ہے، تاہم بڑے ڈرامائی انداز میں بھارتی ٹیم نے اس سے انکار کر دیا۔

بھارتی ٹیم کے کپتان سوریہ کمار یادو نے بعد میں کہا کہ ٹیم نے نقوی سے ٹرافی وصول نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور وضاحت کی چونکہ انہوں نے ٹرافی نہیں حاصل کی، اسی لیے انہیں بعد میں دی بھی نہیں گئی۔

(جاری ہے)

فائنل میچ کے بعد سوریہ کمار پریس سے بات چیت میں کہا، "ہم نے بطور ٹیم ٹرافی (محسن نقوی سے) نہ لینے کا فیصلہ کیا، کسی نے ہمیں ایسا کرنے کے لیے نہیں کہا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ جو ٹیم ٹورنامنٹ جیتتی ہے وہ ٹرافی کی مستحق ہے۔"

پاکستانی کھلاڑیوں کو ان کا رنر اپ میڈل دیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بھارتی کھلاڑی ابھیشیک شرما اور تلک ورما نے پلیئر آف دی سیریز اور پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کا ایوارڈ حاصل کیا، تاہم کپتان سوریہ کمار یادیو نے ٹرافی لینے سے منع کر دیا۔

بھارتی ٹیم کرکٹ کے وقار سے کھیل رہی ہے

پاکستانی کپتان سلمان علی آغا نے اس موقع پر بھارتی ٹیم کی جانب سے مصافحہ نہ کرنے اور محسن نقوی سے ٹرافی نہ لینے کے فیصلے پر شدید تنقید کی۔ واضح رہے کہ سوریہ کمار یادو نے 14 ستمبر کو گروپ مرحلے کے کھیل کے دوران سلمان سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد تنازعات کا سلسلہ شروع ہوا۔

سلمان آغا نے فائنل میچ کے بعد کہا، "بھارت نے ہمارے ساتھ کیا کیا (ہاتھ نہ ملانا، محسن نقوی سے ٹرافی نہیں لینا)، وہ نہ صرف ہماری بے عزتی کر رہے ہیں، بلکہ وہ کرکٹ کے کھیل کے وقار سے کھیل رہے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "اس کو دیکھ کر اگر دوسری ٹیمیں بھی ایسا ہی کرنے لگیں؟ پھر ہم لائن کہاں کھینچیں گے، یہ کہاں رکے گا؟ کرکٹرز کو رول ماڈل سمجھا جاتا ہے، تو بچے میدان میں اس طرح کے رویے کو دیکھ کر کیا سیکھیں گے؟ اس ٹورنامنٹ میں جو کچھ ہوا وہ بہت برا ہے۔

"

آپریشن سیندور جاری ہے، تو کھیلا کیوں؟

بھارت کی سیاسی جماعتیں اس ٹورنمنٹ کے آغاز سے ہی اس پر بیانات دیتی رہی ہیں اور فائنل میچ کے بعد اس پر مزید تلخ بیانی کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ٹیم کی جیت کے بعد دبئی میں ہونے والے مقابلے کا موازنہ اس آپریشن سیندور سے کیا، جس کے تحت مئی کے اوائل میں بھارتی فوج نے پاکستان پر حملہ کیا تھا اور پھر دونوں ملکوں میں ایک مختصر سی جنگ ہوئی تھی۔

مودی نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا: "کھیلوں کے میدان پر #آپریشن سیندور۔ نتیجہ ایک ہی جیسا ہے، بھارت جیت گیا! ہمارے کرکٹرز کو مبارک ہو۔"

وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس پر لکھا، "ایک غیر معمولی فتح۔ ہمارے لڑکوں کی زبردست توانائی نے حریفوں کو پھر سے اڑا دیا۔ بھارت کا مقدر جیتنا ہے، میدان چاہے کوئی بھی ہو۔

"

مودی کے ایک اور وزیر کرن رجیجو نے حارث رؤف کے آؤٹ ہونے پر بھارتی گیند باز بمراہ کے اشارے کا ایک اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر شیئر کیا اور اپنی پوسٹ میں لکھا، "پاکستان اسی سزا کا مستحق ہے۔"

بی جے پی نے البتہ اپوزیشن رہنما اور کانگریس پارٹی کے لیڈر راہول گاندھی کی جانب سے اس پر کوئی بھی رد عمل نہ آنے پر، انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور پارٹی کے قومی ترجمان پردیپ بھنڈاری نے کانگریس رہنما راہول گاندھی کو پاکستانی فوجی سربراہ عاصم منیر کا "بہترین دوست" قرار دیا۔

انہوں نے کہا: "جب پاکستان کو مکمل طور شکست ہوئی ہے، کانگریس کے رہنما پاکستان کے خلاف اسپورٹس مین کی اسپرٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں! کانگریس ہمیشہ بھارت پر پاکستان کی حمایت کیوں کرتی ہے!"

انہوں نے کانگریس کو ’’پاکستان کی بی ٹیم‘‘ کہتے ہوئے لکھا: "آپریشن سیندور میں، کانگریس پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی، آپریشن تلک میں، کانگریس پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔

راہول گاندھی عاصم منیر کے بہترین دوست ہیں!"

ادھر بی جے پی لیڈر امیت مالویہ نے بھی میچ پر کانگریس کی خاموشی کو "راہول گاندھی اور کانگریس کو پاکستان کا حامی" بتایا۔

انہوں نے لکھا، "ایسا لگتا ہے کہ ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان کے خلاف بھارت کی شاندار جیت نے راہول گاندھی اور پوری کانگریس کو بے چینی میں ڈال دیا ہے۔

بالکل اسی طرح جیسے آپریشن سیندور کے بعد بھی وہ بھارتی فوج کو اس کے شاندار حملوں پر مبارکباد نہیں دے سکے تھے۔ اب وہ محسن نقوی اور ان کے دوسرے ہینڈلرز سے اجازت کے منتظر ہیں۔"

تاہم کانگریس پارٹی نے اس پورے ڈرامے کو ایک مذاق اور ڈراما سے تعبیر کیا اور ایشیا کپ 2025 جیتنے پر پی ایم مودی کی جانب سے بھارتی ٹیم کو مبارکباد دینے والی پوسٹ پر، کانگریس کے ایک رہنما اتل لوندھے پاٹل نے کہا کہ "کبھی کبھی مجھے اس بات پر شک ہوتا ہے کہ کیا بھارتی وزیر اعظم مودی کو خارجہ پالیسی اور ڈپلومیسی کا کوئی علم بھی ہے؟"

انہوں نے مزید کہا، "اگر ہم کھیلے تو ہمیں اسپورٹس مین اسپرٹ کے ساتھ کھیلنا چاہیے تھا۔

اگر آپریشن سیندور جاری ہے، تو ہمیں کھیلنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اور اگر کھیلوں کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت کی جائے، تو حالات کو بہتر بنانے کے لیے بات چیت کی جا سکتی ہے۔ ہر چیز کو آپریشن سیندور سے جوڑنا درست نہیں ہے۔"

اس دوران کرکٹ ایشیا کپ کے فائنل کے بعد جو ڈراما دبئی میں ہوا، وہ اب بھارتی میڈیا میں خوب چھایا ہوا ہے اور بیشتر میڈیا ادارے کھیل کو سیاست سے جوڑنے کے اس کھیل کی نہ صرف تعریف کر رہے، بلکہ کھلاڑیوں کے متنازعہ بیانات اور ان کی متنازعہ حرکتوں کی فوٹیج کو بھی خوب نشر کیا جا رہا ہے۔

ادارت: جاوید اختر

Live ایشیاء کپ سے متعلق تازہ ترین معلومات