پاکستان میں کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہ سوچے

دو ریاستی حل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، حماس کو شامل کیے بغیر فیصلہ نامنظور ہے ، امریکہ فلسطین پر ڈنڈے والی سیاست ترک کرے، حماس اصل فریق ہے،وزیراعظم شہباز شریف کے خطاب اور ٹویٹ میں واضح فرق ہے، اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، پاکستان کے بنیادی مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، مولانا فضل الرحمان

منگل 30 ستمبر 2025 20:20

پاکستان میں کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہ سوچے
 اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 ستمبر2025ء) جمعیت علما اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہ سوچے انہوں نے کہاکہ قطر سے امریکہ نے کس لیے معافی مانگی کیا اس نے فلسطینیوں کے قتل عام پر معافی مانگی ہے انہوں نے کہاکہ دو ریاستی حل دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اس دو ریاستی حل میں فلسطینیوں اور حماس کو شامل کیا جائے وگرنہ کوئی فیصلہ قبول نہیں ہوگا۔

(جاری ہے)

منگل کو لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ وزیر اعظم شہبازشریف نے جنرل اسمبلی میں جو خطاب کیا ہے اس میں اس کے ٹویٹ میں کتنا فرق ہے انہوں نے کہاکہ امت مسلمہ کے کمزور موقف سے عرب دنیا شکست کھا جائے گی وزیر اعطم شہبازشریف کو سوچنا ہوگا کہ کہیں پاکستان کے بنیادی موقف سے پیچھے تو نہیں ہٹ رہا ہے انہوں نے کہاکہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اسے کبھی قبول نہیں کریں گے انہوں نے کہاکہ آج امریکہ صدر ٹرمپ پوری دنیا کے مسائل کا مالک بن رہا ہے اور ڈنڈا اٹھا کر بات منواتا ہے یہ نہ تو اخلاقی ہے نہ ہی سیاسی اور جب تک فلسطین کے مسئلہ پر خود فلسطینی فیصلہ نہ کریں تو زبردستی فیصلہ مسلط نہیں کیا جا سکتا ہے ان کاکہنا تھاکہ دو ریاستی حل کو فلسطینیوں پر تھونپا نہیں جا سکتاامریکہ انتہا پسندی و ڈنڈے والی سیاست نہ کرے،ان کاکہنا تھاکہ امریکہ نے مذاکرات سے حماس کو لاتعلق کیاہوا ہے وہ تو اصل فریق ہے حماس کے بغیر مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو سکتا،ان کاکہنا تھاکہ سترہ اکتوبر کو کور کمانڈر کانفرنس میں اعلامیہ جو عاصم منیر کی صدارت میں ہوا نیویارک میں بیان وہ دونوں دیکھ لیں شہبازشریف نے جنرل اسمبلی میں جو خطاب کیا اور ٹوئٹ میں کتنا فرق ہے، ان کاکہنا تھاکہ کمزور موقف سے عرب دنیا شکست کھا جائے گی اسرائیل ہمیشہ امن کی پشت پر خنجر کھونپ دیتاہے،،ان کاکہنا تھاکہ آج جو ٹرمپ و نیتن یاہو کابیانیہ اسرائیل کی توسیع کا منصوبہ ہو سکتا ہے لیکن فلسطین کی آبادی ک فارمولہ نہیں ہو سکتااگر کسی نے دو ریاستی حل دیا بھی تو آزادی فلسطین جس کا دارلخلافہ بیت المقدس ہوگا،ان کاکہنا تھاکہ جو سیاسی لیڈران علاقائیت و صوبائیت پر بات کرنے والے آئین سے انحراف کررہیہیں جبکہ شہبازشریف کو سوچنا ہوگا کہ کہیں پاکستان کے بنیادی موقف سے پیچھے تو نہیں ہٹ رہا ،ان کاکہناتھاکہ مسئلہ فلسطین کیلیے پاک سعودی دفاعی موثر نہیں ہو سکتا نوبل انعام امن کا ممکن نہیں ہے جنگ کا نوبل انعام ٹرمپ کیلیے ہوسکتا ہے،ان کاکہنا تھاکہ ذاتی اندازہ ہے حکمرانوں پر بھارت کی جنگ سوار ہے کہ امریکہ بھارت کی طرف نہ چلا جائے جبکہ میثاق جمہوریت کے تناظر میں چھبیسویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں منظور کی گئی ،ان کاکہنا تھاکہ سیاسی جماعتیں ہوں یا حکمران جماعتیں مسئلہ فلسطین کو وہ مقام نہیں دے رہیں جو ملنا چاہیئے اور پاکستان میں کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہ سوچے ،ایک سوال کے جواب میں ان کاکہنا تھاکہ حکومت کے وقت پورا کرنے یا نہ کرنے کا دارو مدار اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہے اگر تعلقات اچھے رہے تو وقت پورا ہوگا وگرنہ نہیں ہوگا۔