جرمنی، ایک ہی عبادت خانے میں مسجد، چرچ اور سیناگوگ کی تعمیر کا منصوبہ، برلن کا خیال ہے وہ مذہبی تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے کیونکہ وہاں کے مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں نے ایک ایسا عبادت خانہ تعمیر کرنے پر اتفاق کیا ہے جس میں سب عبادت کر سکیں گے،اسے ’دی ہاوٴس آف ون‘ یعنی بیت الوحدت کا نام دیاگیاہے ،یک ہی چھت کے نیچے وہاں بیک وقت مسجد، گرجا اور سیناگوگ (یہودیوں کی عبادت گاہ) ہوں گے

پیر 23 جون 2014 05:27

برلن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23جون۔2014ء)جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایک نئی مذہبی پیش قدمی کے طور پر ایک چھت کے نیچے مسجد، چرچ اور سیناگوگ کی تعمیر کا منصوبہ بنایا جارہا ہے ۔برطانو نشریاتی ادارے کے مطابق برلن کا خیال ہے کہ وہ مذہبی تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے کیونکہ وہاں کے مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں نے ایک ایسا عبادت خانہ تعمیر کرنے پر اتفاق کیا ہے جس میں سب عبادت کر سکیں گے۔

اسے ’دی ہاوٴس آف ون‘ یعنی بیت الوحدت کا نام دیاگیاہے کیونکہ ایک ہی چھت کے نیچے وہاں بیک وقت مسجد، گرجا اور سیناگوگ (یہودیوں کی عبادت گاہ) ہوں گے۔اس کے لیے ایک فن تعمیر کا مقابلہ کرایا گیا تھا اور اس کے فاتح کا انتخاب ہو چکا ہے۔ اس فن تعمیر کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اینٹ کی عمارت ہوگی جس میں ایک مربع نما اونچا مرکزی ٹاور ہوگا اور اس سے ملحق صحن میں تینوں مذاہب کے لیے عبادت خانے ہوں گے۔

(جاری ہے)

اس کی تعمیر کے لیے برلن کے قلب میں مشہور مقام پرٹیپلاٹز کو منتخب کیا گیا ہے۔اس کی تعمیر میں شامل تین مذہبی رہنماوٴں میں سے ایک ربی ٹوویا بن کورین کے مطابق یہ مقام اپنے آپ میں بہت ہی اہم ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہودیوں کے نقطہ نظر سے ایک ایسے شہر میں جہاں یہودیوں کی کلفتوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اب اسی شہر میں تین وحدانی مذاہب کا ایک مرکز قائم ہو رہا ہے جنھوں نے یورپ کی تاریخ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ولفریڈ کوہن کے منصوبے کو اس مثالی عبادت خانے کے لیے منتخب کیا گیاکیا سب متحد ہوکر اسے جاری رکھ سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا: ’ہاں ہم کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہر برادری میں ایسے لوگ ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور یہی ہمارا مسئلہ ہے۔ لیکن آپ کو کہیں نہ کہیں شروعات تو کرنی ہے اور یہی ہم کر رہے ہیں۔اس کی تعمیر میں شامل امام قادر سانسی نے کہا کہ ’بیت الوحدت دنیا کے لیے ایک ایسی علامت اور اشارہ جو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کی بڑی اکثریت پرتشدد ہونے کے بجائے پرامن ہے۔

یہاں اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے پیروکار اتحاد کی علامت کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک ایسی جگہ ہوگی جہاں مختلف ثقافت کے لوگ ایک دوسرے سے سیکھ سکیں گے۔ولفریڈ کوہن نے بتایا کہ اس عمارت میں تینوں عبادت خانوں کا سائز برابر ہوگا تاہم اس کا فن تعمیر اور انداز مختلف ہوگا۔انھوں نے بتایا کہ ’ہر ایک عبادت خانہ اس کی مذہبی ضرورتوں کے تحت ڈیزائن کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر مسجد اور سیناگوگ کے لیے دو منزلہ عمارت ہے جبکہ چرچ کے لیے ایک ہی منزل ہے۔ اور چرچ میں ایک آرگن ہے جبکہ مسجد میں وضو خانہ ہے۔انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ تینوں مذاہب کے عبادت خانوں کے طرز تعمیر کا مطالعہ کیا اور ان میں توقعات سے زیادہ یکسانیت پائیں۔کوہن نے کہا ’دلچسپ بات یہ ہے کہ جب آپ ماضی میں بہت پہلے جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی طرز تعمیر میں بہت مماثلتیں ہیں اور وہ آج کی طرح مختلف نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر مسجد کے لیے مینار کا ہونا لازمی نہیں ہے۔ امکان تو ہے لیکن ضرورت نہیں ہے۔ اور چرچ کو ٹاور کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ان مذاہب کے شروعاتی دنوں میں جھانکنے سے نظر آتا ہے جب ان کے طرز تعمیر میں بہت مماثلتیں ہوا کرتی تھیں۔ماضی میں مختلف عقیدے کے لوگ ایک ہی عمارت کا استعمال کرتے تھے لیکن عام طور پر ان کے علیحدہ اوقات میں۔

سپین کی مساجدوں کو عیسائیوں کی فتح کے بعد کلیساوٴں میں تبدیل کر دیا گیا تھا جبکہ ترکی میں گرجا گھروں کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔برطانیہ میں ویلش کے گرجا گھر مساجد میں تبدیل ہوگئے جب وہاں کی آبادی میں تبدیلی آئی۔ ایسٹ اینڈ لندن کی برک لین مسجد 18ویں صدی میں ایک کلیسا کے طور پر شروع ہوئی تھی اور پھرسیناگوگ کے طور پر استعمال ہوئی لیکن اب یہ وہاں آنے والی مسلم آبادی کے لیے مسجد ہے۔

تاہم برلن میں ایک چھت کے نیچے تعمیر ہونے والی یہ عبادت گاہیں ان سب سے مختلف ہے۔

پیسٹر گریگور ہوہبرگ کا کہنا ہے کہ ’یہ نیا عبادت خانہ اسی مقام پر تعمیر کیا جائے گا جہاں برلن کا پہلا چرچ تھا جو 12ویں صدی عیسوی میں بنایا گیاتھا۔ واضح رہے کہ سینٹ پٹری کا چرچ دوسری جنگ عظیم میں بری طرح تباہ ہو گیا تھا اور جنگ کے بعد بھی وہ اسی تباہ شدہ ملبے کی حالت میں مشرقی جرمنی کے حکام کے زیر اثر رہا۔

چھ سال قبل ماہرین آثار قدیمہ نے ایک پرانے قبرستان سے اس کے باقیات تلاش کیے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کے بارے میں کچھ کیا جانا چاہیے اور عبادت گاہ کو از سر نو بحال کیا جانا چاہیے۔ یہ پروجیکٹ وسیع تر ہوتا گیا اور ایک عقیدے سے اب تین عقیدے کی عبادت گاہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اب اس کے لیے فنڈ اکٹھے کیے جا رہے ہیں تاکہ معمار کا منصوبہ اینٹ اور گارے کا حقیقی روپ دھار سکے۔

متعلقہ عنوان :