خواتین جہیز مخالف قانون کا غلط استعمال کرتی ہیں‘بھارتی عدالت عظمیٰ ،قانون خواتین کی مدد کے لیے بنایا گیا تھا تاہم ناراض بیویاں اس کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں، پو لیس ایسی کسی بھی در خوا ست پر عمل درآ مد سے قبل تما م نکا ت کا تفصیلی جا ئزہ لے، عدا لتی حکم

ہفتہ 5 جولائی 2014 07:41

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5جولائی۔2014ء)بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد ملک میں جہیز مخالف قوانین کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے شوہروں اور سسرال والوں کو ہراساں کر رہی ہیں۔عدالت کا کہنا ہے کہ یہ قانون خواتین کی مدد کے لیے بنایا گیا تھا تاہم ناراض بیویاں اس کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔عدالت نے اب پولیس کو حکم جاری کیا ہے کہ جہیز سے متعلق کسی بھی درخواست کے سلسلے میں کسی کو گرفتار کرنے سے پہلے نو نکات پر مشتمل ایک چیک لسٹ پوری کی جائے۔

نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں ہر سال آٹھ ہزار خواتین کو قتل کیا جاتا ہے اور جہیز سے منسلک جرائم ایک سنگین مسئلہ ہیں۔بھارت میں 1961 سے جہیز دینا غیر قانونی ہے لیکن اس کے باوجود یہ روایت اب بھی جاری ہے۔

(جاری ہے)

اس مسئلے پر کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس سے خواتین مشکل حالات کا سامنا کرتی ہیں اور انھیں گھریلو تشدد یا موت کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔

اس حوالے سے خواتین کے تحفظ کے لیے بھارت میں 1983 میں ایک جہیز مخالف انتہائی سخت قانون دفعہ 498 اے متعارف کروایا گیا تھا۔اس قانون کے تحت ملزم کو فوری طور پر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اب اکثر اس قانون کو غلط استعمال کیا جاتا ہے اور خواتین جھوٹے مقدمے درج کرواتی ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کے دو رکنی بینچ کے جسٹس سی کے پرساد اور پی سی غوض نے اپنے حکم میں کہا: ’دفعہ 498 اے قابلِ سماعت اور ناقابلِ ضمانت جرم ہے، جس کی وجہ سے یہ خاصا بدنام ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ اسے ناراض بیویاں ڈھال کی بجائے بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔

‘حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’کسی شوہر یا اس کے خاندان والوں کو ہراساں کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اس قانون کے تحت انھیں گرفتار کروا دیا جائے۔ بہت سے کیسوں میں شوہر کے ضعیف دادا اور دادی تک کو یا کئی سالوں سے ملک سے باہر موجود نندوں کو گرفتار کروایا گیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2012 میں اس قانون کے تحت 47951 خواتین سمیت دو لاکھ کے قریب افراد گرفتار ہوئے مگر ان میں سے صرف 15 فیصد کو سزا ہو سکی۔

اس قانون کے غلط استعمال کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہویے جج صاحبان نے پولیس کو حکم کیا ہے کہ وہ ملزم کو فوری گرفتار کرنے کے بجائے نو نکات کی ایک چیک لسٹ پوری کر لیں تاکہ انھیں خود یقین ہو کہ گرفتاری کی ضرورت ہے۔عدالت نے کہا کہ اگر پولیس نے گرفتاری کر لی تو پھر مجسٹریٹ کو مزید حراست کی اجازت دینا ہوگی۔