بے اولاد جوڑوں کے لیے خوشخبری، وہ اب بے اولاد نہیں رہیں گے،سویڈن میں رحم مادر کی کامیاب پیوندکاری کے ذریعے پہلے بچے کی پیدائش، دنیا کی طبی تاریخ کی اس پیش رفت سے خواتین میں بانجھ پن کے خاتمے کا امکان پیدا ہو گیا،رپورٹ

اتوار 5 اکتوبر 2014 10:01

سٹاک ہوم(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5اکتوبر۔2014ء)بے اولاد جوڑوں کے لیے خوشخبری کی نوید ہے کہ وہ اب بے اولاد نہیں رہیں گے۔سویڈن میں رحم مادر کی کامیاب پیوندکاری کے ذریعے پہلے بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔ دنیا کی طبی تاریخ کی اس پیش رفت سے خواتین میں بانجھ پن کے خاتمے کا امکان پیدا ہو گیا۔ غیرملکی خبررساں ا دارے کے مطابق سویڈن سے تعلق رکھنے والی خاتون میں تقریباً دو سال قبل رحمِ مادر ٹرانسپلانٹ کیا گیا تھا۔

اْس عورت نے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ اس اہم طبی پیش رفت سے اب خواتین کے بانجھ پن کے مکمل خاتمے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔معتبر میڈیکل جریدے دی لانسیٹ کی اشاعت میں ایک بہت ہی بڑی طبی پیش رفت کا انکشاف کیا گیا اور اِس پیش رفت کو ماہرین نے عورتوں کے بانجھ پن کے خاتمے کی جانب ایک بہت بڑی جَست قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

سویڈن سے تعلق رکھنے والی خاتون نے تقریباً ایک ماہ قبل ایک بچے کو جنم دیا تھا۔

حمل میں چند پیچیدگیاں پیدا ہو جانے پر سویڈش خاتون نے اکتیسویں ہفتے میں بچے کو جنم دیا۔ بچے کی ولادت سی سیکشن یا آپریشن کے ذریعے ہوئی۔ پیدائش کے وقت بچے کا وزن پونے دو کلو گرام تھا۔ ابھی تک زچہ و بچہ دونوں صحت مند ہیں۔جس خاتون نے بچے کو جنم دیا، جب وہ پیدا ہوئی تھی تو سب نارمل تھا لیکن اْس کے بدن میں رحمِ مادر (Womb) موجود نہیں تھا لیکن بیضہ دانیاں (Ovaries) موجود تھی۔

بعد میں ایک اکسٹھ برس کی خاتون نے اپنی وومب یا رحم مادر عطیے کے طور پر دے دی۔ اکسٹھ سالہ خاتون کا مینوپاز شروع ہو چکا تھا۔ رحمِ مادر کے ٹرانسپلانٹ کے بعد اگلے مرحلے میں خاتون کے رحم میں عورت ہی کے بیضوں کو افزائش کے لیے رکھا گیا۔ تین ہفتوں کے بعد خاتون کے حاملہ ہونے کا لیبارٹری ٹیسٹ مثبت آ گیا۔ بچے کی ولادت تک سویڈش خاتون کا مسلسل طبی معائنہ کیا جاتا رہا۔

سویڈن کے دوسرے بڑے شہر گوتھن برگ کی یونیورسٹی کے شعبہ گائناکالوجی اور ولادتِ نومولود (obstetrics) کے پروفیسر ماٹس برینسٹرْوم نے رحمِ مادر کے ٹرانسپلانٹ کا کامیاب آپریشن کیا تھا۔ بعد میں انہوں نے نو دوسری خواتین میں رحم کو ٹرانسپلانٹ کیا لیکن دو میں کامیابی حاصل نہ ہونے پر اس پیوند کردہ رحم کو نکال دیا گیا تھا۔ اب بقیہ سات میں سے دو عورتیں پچیس ہفتوں کے حمل کے ساتھ ہیں۔

پروفیسر برینسٹرْوم کا کہنا ہے کہ رحمِ مادر کی تبدیلی کے لیے ان کی ٹیم نے دس برس تک ریسرچ کا عمل جاری رکھا تھا اور ایک دہائی کی محنت سے وہ کامیابی کا زینہ طے کر پائے۔ اِس ریسرچ کے اخراجات سویڈن کے سائنسی تحقیق کے لیے وقف جین اینڈ اولسن فاوٴنڈیشن نے برداشت کیے ہیں۔ ریسرچ کے ایام کے دوران رحم مادر کی تبدیلی کئی جانوروں میں کی گئی اور جب کامیابی کا سو فیصد یقین ہو گیا تو پہلا تجربہ کیا گیا اور اب اْس میں بھی پروفیسر برینسٹرْوم اور اْن کی ٹیم کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

اِس کامیابی کے باوجود امریکی اور کئی دوسرے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ایک خاصا مہنگا طریقہ? علاج ہونے کے علاوہ اِس میں طویل سرجری کا عمل شامل ہے جو پیچیدگیوں سے عبارت بھی ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب اور ترکی میں بھی رحم مادر کی ٹرانسپلانٹیشن کی گئی تھی لیکن بچے کی ولادت ممکن نہیں ہو سکی۔ اس وقت برطانیہ، فرانس، جاپان اور ترکی ایسے ہی ٹرانسپلانٹ کا ارادہ رکھتے ہیں۔

طبی ریسرچ کے برطانوی جریدے نے سویڈش سرجن پروفیسر ماٹس برینسٹرْوم کے حوالے سے بتایا کہ اْن کو یقین ہے کہ اب دنیا بھر میں اِس پیش رفت کے بعد بانجھ خواتین کے یقینی طور پر ماں بننے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر برینسٹرْوم کا کہنا تھا کہ ایک مینوپاز والی خاتون کے رحم کو ٹرانسپلانٹ سے کامیابی حاصل کی گئی ہے جو خاصی اہم ہے۔ سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہولم میں بچے کی پیدائش کے وقت پروفیسر برنسٹرْوم بھی موجود تھے۔ سویڈش معالج کے مطابق بچے کی ولادت پر جو خوشی انہیں ملی وہ اپنی جگہ لیکن جو مسرت بچے کی ماں اور باپ کے چہرے پر پھیلی وہ ناقابلِ بیان ہے۔

متعلقہ عنوان :