سپریم کورٹ نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی 350 ایکڑ اراضی کے حوالے سے حکم امتناعی جاری کر دیا ، ساحل سمندر کے قریب 600 ایکڑ اراضی کی فروخت کیخلاف حکم امتناعی برقرار ،پورٹ ٹرسٹ کی 350 ایکڑ اراضی کے حوالے سے ریونیو بورڈ سندھ سے 13 جنوری تک جواب طلب کر لیا ،کراچی کے تمام ادارے پراپرٹی کے کاروبار میں ملوث ہیں کسی کو غیرقانونی قبضے اور اراضی کی فروخت کی اجازت نہیں دیں گے،چیف جسٹس ناصرالملک

بدھ 17 دسمبر 2014 08:26

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17دسمبر۔2014ء) سپریم کورٹ نے ساحل سمندر کے قریب 600 ایکڑ اراضی کی فروخت کیخلاف حکم امتناعی برقرار جبکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی 350 ایکڑ اراضی کے حوالے سے بھی حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے ریونیو بورڈ سندھ سے 13 جنوری2015ء تک جواب طلب کیا ہے اور سندھ ہائیکورٹ میں اس سے متعلقہ مقدمات پر مزید کارروائی بھی تا حکم ثانی روک دی ہے‘ عدالت نے یہ حکم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی درخواست پر جاری کیا ہے۔

چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ 600 ایکڑ اراضی کس کی ہے اس کا پتہ لگایا جائے گا‘ المیہ یہ ہے کہ کراچی کے تمام ادارے پراپرٹی کے کاروبار میں ملوث ہیں کسی کو غیرقانونی قبضے اور اراضی کی فروخت کی اجازت نہیں دیں گے‘ بورڈ آف ریونیو کیا کام کررہا ہے‘ لگتا ہے کہ اس نے بھی اپنا کام روک دیا ہے‘ اہم معاملہ ہے کہ اسے ایسے نہیں چھوڑ سکتے جبکہ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ ہاکس بے کی میلوں لمبی اراضی سمندر میں غرق کردی گئی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ وگ اس زمین کو دبئی سے ملادیں گے‘ ہاکس بے کی اراضی فروخت کردی گئی‘ کے پی ٹی چلانے کی بجائے لگتا ہے کہ انہوں نے کسی اور چیز کا بیڑا اٹھالیا ہے‘ سیکرٹری سطہ کے افسر کو رپورٹ پر دستخط کرکے جمع کرانے کو کہا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دئیے۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے عادل گیلانی نے سندھ حکومت کے اقدام کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کی۔ اس دوران عدالت نے عادل گیلانی کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار بھی کیا کہ اس طرح کے اہم معاملے میں صرف درخواست ڈال کر پیش نہیں ہوئے‘ عادل گیلانی کو خود پیش ہونا چاہئے۔

350 ایکڑ اراضی کے حوالے سے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ اراصی کے پی ٹی کی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ نے کراچی پورٹ ٹرسٹ چلانے کی بجائے کیا کام شروع کردیا ہے۔ پراپرٹی کا کاروبار کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ المیہ یہی ہے کہ تمام اداروں نے باقی کام چھوڑ کر پراپرٹی کا کام شروع کردیا ہے۔ یہ اراضی جس کی بھی ہے اس کا پتہ لگایا جائے گا جبکہ 26 نومبر 2013ء کو عدالت نے 600 ایکڑ اراضی کیخلاف حکم امتناعی جاری کیا تھا اس کے حوالے سے بھی سماعت ہوئی تو اراضی کا مالک نورالدین عدالت میں پیش ہوا اور کہا کہ یہ اراضی اس کی ہے اور 1936ء سے اس کے مالک ہیں اس پر عدالت نی کہا کہ وہ 600 ایکڑ اراضی کے مالک کیسے بن گئے۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ میں نے سمجھا تھا کہ 1948ء میں یہ اراضی آپ کو ملی‘ کبھی نہیں سنا ہے کہ 600 ایکڑ اراضی کا کراچی میں کوئی مالک ہو۔ 10 ایکڑ اراضی مالک ہونا بھی بڑی بات ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عادل گیلانی کو ہونا چاہئے تھا کہ ان کی درخواست پر سماعت کیلئے مقدمہ مقرر کیا گیا اور نوٹس جاری کئے گئے انہیں عدالتی معاونت کیلئے خود پیش ہونا چاہئے۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ اہم معاملہ ہے اور سندھ کے اسسٹنٹ مختار کار نے رپورٹ جمع کرائی ہے جس پر سیکرٹری سطح کے افسر کو رپورٹ پر دستخط کرنے کو کہا گیا ہے۔ رپورٹ کے ہر صفحے پر اسسٹنٹ مختار کار کے دستخط ہیں۔ بعدازاں عدالت نے ڈائریکٹر لینڈز سندھ اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ سندھ کو معاملے کا جائزہ لے کر 13 جنوری 2015ء تک رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔