زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے سستی اور زیادہ موثر ویکسین ایجاد کرکے درآمدی ویکسین اور اسکی مسلسل کولڈ سٹوریج پر اُ ٹھنے والے اربوں روپے کی بچت ممکن بنا دی

ہفتہ 20 دسمبر 2014 09:15

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20دسمبر۔2014ء)زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سائنس دانوں نے پولٹری سیکٹر کی سب سے مہلک اور نقصان دہ بیماری رانی کھیت سے بچاؤکیلئے درآمدی ویکسین کے مقابلہ میں سستی اور زیادہ موثر ویکسین ایجاد کرکے درآمدی ویکسین اور اسکی مسلسل کولڈ سٹوریج پر اُ ٹھنے والے اربوں روپے کی بچت ممکن بنا دی۔ زرعی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف مائیکروبیالوجی کے زیراہتمام منعقدہ تربیتی ورکشاپ کے افتتاحی سیشن میں بتایا گیا کہ پولٹری کا شعبہ ایک ارب سے زائد مرغیوں اور اڑھائی سو ارب روپے کے بزنس کے ساتھ کاٹن کے بعد ملک کا دوسرا بڑا کاروبار ہے جس میں لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔

افتتاحی سیشن سے مہمان خصوصی کے طور پر یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں نے ویکسین تیار کرنیوالے ماہرین ڈاکٹر محمد شاہد محمود‘ ڈاکٹر افتخار حسین اور ڈاکٹر فیصل صدیق کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہزار مرغیوں کیلئے ڈیڑھ سو سے ساڑھے تین ہزار روپے میں دستیاب رانی کھیت کی درآمدی ویکسین کودور دراز علاقوں تک ٹرانسپورٹیشن و ہینڈلنگ کے مختلف مراحل میں زیادہ سے زیادہ 4ڈگری سینٹی گریڈ تک تسلسل کے ساتھ محفوظ رکھنا پڑتا ہے جبکہ مقامی سطح پر تیارکی جانیوالی تھرمووَیک ویکسین عام درجہ حرارت میں بھی پوری قوت سے بیماری پر اثرانداز ہوتی ہے جسے کمرشلائز کرکے نچلی سطح پر مرغبانوں کیلئے درآمدی ویکسین پر اُٹھنے والے اربوں روپے کی بچت ممکن ہوگی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پنجاب ایگری کلچرل ریسرچ بورڈ کی معاونت سے سیل کلچر کے ذریعے متعارف کروائی گئی تھرمووَیک اگر درآمدی ویکسین کے مقابلہ میں دس روپے میں بھی مہیا کر دی جائے تو مرغبانوں کو کم از کم 10ارب روپے سالانہ کا فائدہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پولٹری کی 90فیصد ویکسین بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہے جبکہ یونیورسٹی میں متعارف کروائی گئی ویکسین کواگر بڑے پیمانے پر تیار کرکے مارکیٹ کیا جائے تو درآمدی اخراجات میں اربوں روپے بچائے جا سکیں گے۔

انہوں نے اس امر پر خوشی اور اطمینان کااظہار کیا کہ تھرمووَیک ویکسین کا پبلک و پرائیویٹ سیکٹر کے پولٹری فارمز پر وسیع پیمانے پر کامیاب ٹرائل مکمل کر لیاگیا ہے اور مثالی نتائج کے بعد اسے پبلک کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ برسوں کے دوران حکومتی اعدادو شمار پولٹری سیکٹر میں 8فیصد بڑھوتری کی نویددے رہے ہیں جس سے جانوروں کی تعداد اور مقامی طور پر تیار کی گئی ویکسین کوریج میں اضافہ سے مرغبانوں کی آمدن میں اضافے اور درآمدی اخراجات میں واضح کمی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پارب کی طرف سے یونیورسٹی میں 6منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں ماہرین نے اطلاقی تحقیق میں نمایاں پیش رفت کے ذریعے بہترین پیداوار اور ذائقے کی حامل آم کی دس نئی ورائٹیاں اور پولٹری کے شعبہ میں رانی کھیت کی ارزاں مقامی ویکسین متعارف کروادی ہے جبکہ دوسرے منصوبوں میں بھی اہم سنگ میل طے کئے جائینگے جس سے انڈسٹری اور کمیونٹی کو فائدہ ہوگا۔

پنجاب زرعی تحقیقاتی بورڈ (پارب) کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر نور الاسلام خان نے ویکسین کی تیاری پر سائنس دانوں اور یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران یونیورسٹی نے کمیونٹی سروسز اور انڈسٹری کے ساتھ راوبط کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا ہے جس سے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں سیل کلچر کے ذریعے ویکسین کی تیاری سے حقیقی خوشی ہوئی ہے اور ان کا ادارہ اطلاقی تحقیق اور پراڈکٹ ڈویلپمنٹ کیلئے فنڈنگ کو ترجیحات کا حصہ بنائے ہوئے ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی ماہرین کوترقی یافتہ ممالک میں تربیتی ورکشاپس کی راہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ا طلاقی تحقیق کے نتیجہ میں سامنے آنے والی ٹیکنالوجی کا مشاہدہ کرنے اور اسے پاکستان میں قابل عمل بنانے کیلئے ان کاادارہ وسائل فراہم کرے گا۔

انہوں نے فیکلٹی اور گریجوایٹس میں تشخیصی مہارتوں میں اضافہ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ یونیورسٹی کو پولٹری کے شعبہ میں تمام سٹیک ہولڈرز کی بڑی ورکشاپ منعقدکرنا چاہئے تاکہ ویکسین کی وسیع پیمانے پر مقامی تیار میں پرائیویٹ شعبہ کو شامل کیا جاسکے۔ڈین کلیہ ویٹرنری سائنس ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے کہا کہ یونیورسٹی قیادت نے بزنس انکوبیشن سنٹر اور ایکسپوسنٹر کے ذریعے یونیورسٹی انڈسٹری روابط کو مزید مضبوط کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کلیہ میں ورکنگ گروپس تشکیل دے کر قابل عمل اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں جن سے اچھے نتائج برآمدہونگے۔ ورکشاپ سے ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف مائیکروبیالوجی ڈاکٹر افتخار حسین‘ ڈاکٹر محمدشاہد محمود ‘ویٹرنری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر فرحان افضل اور رندھاوا پولٹریز کے ڈاکٹر سجاد رندھاوا نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :