پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف متحد ہے، معاونین کو بھی سزا دی جائے، قومی مجروموں کو چوراہوں پر لٹکانے کا قانون بنایا جائے : پنجاب اسمبلی میں اراکین کی تقاریر اور سانحہ پشاور کی مذمت

ہفتہ 20 دسمبر 2014 09:09

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20دسمبر۔2014ء)پنجاب اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو کر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ قوم کے معصوم بچوں کا خون ناحق نہیں بہنے دیا جائے گا۔ یہ اتفاق رائے تین روز کے وقفے سے شروع ہونیوالے اجلاس میں کہا گیا جس میں معمول کی کارروائی موخر کرکے سانحہ پشاور پر بحث اور مذمت کی گئی۔

ارکان اسمبلی نے طالبان کو بھائی کا درجہ دینے والوں کا سوشل بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور میڈیا پر بھی زور دیا گیا کہ وہ ملک دشمن اور ایسے افراد کو ٹی وی سکرین پر نہ بلایا جائے جو طالبان کی دہشت گردی کی مذمت بھی نہیں کرتے۔ ارکان تقاریر کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور بعض کی آواز بھرا گئی۔

(جاری ہے)

سانحہ پشاور کے شہداء کے لئے فاتحہ خوانی کے بعد سپیکر نے معمول کی کارروائی معطل کرنے کا اعلان کیا اور ایوان نے سوگوار خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔

بحث کا آغاز کرتے ہوئے راولپنڈی سے رکن پنجاب اسمبلی راجہ اشفاق سرور نے کہا کہ سانحہ پشاور پر ہر آنکھ اشکبار ہے ہر دل سوگوار ہے۔ دیکھنے سننے والے دل گرفتہ ہیں۔ اس سانحہ کے وقت تمام پاکستانی مل کر ایک پیج پر آتے ہیں۔ اور آج سب کی ایک آواز ہے کہ ہم ملکر دہشت گردی کا مقابلہ کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے جس بوجھل دل سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہدا کے لواحقین کو اپنی ہر قسم کی خدمات پیش کیں جبکہ وزیراعظم نے تمام پارٹیوں، قوتوں اور ہر مکتبہ فقر کے لوگوں کو ایک پیج پر اکٹھا کیا اور اتفاق رائے سے دہشت گردی کا قلعہ قمع کرنے کا عزم کیا۔

انہوں نے کہا کہ جناب سپیکر ہم اسوقت بطور قوم بہت شرمندہ ہیں۔ راجہ اشفاق سرور نے کہا کہ ایسا واقعہ دنیا میں کبھی نہیں پیش آیا جو ہمارے ساتھ ہوا۔ دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے ہم سب کو ملکر اپنا اپنا رول ادا کرنا ہو گا۔ ساری قوم دکھی ہے اور کسی کے پاس وہ الفاظ نہیں جو شہدا کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ انہوں نے بتایا کہ آرمی پبلک سکول کی پرنسپل سکول سے باہر آئی اور جب بچوں کے لواحقین نے اپنے بچوں کے بارے میں سوال کیئے تو بولیں! کہ اچھا میں ان کو لیکر آتی ہوں۔

واپس اندر گئیں تو درندوں نے ان کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ بس یہی نہیں ایک لیڈی ٹیچر کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا یہ ایسا ہولناک واقعہ جس پر ہم سب شرمندہ ہیں۔ مخدوم شہاب الدین نے کہا کہ سب سے پہلے میں حکومت پاکستان کو اس سانحے کے بعد کریڈٹ دیتا ہوں کہ وزیراعظم پاکستان نے فوراً اس واقعے کا سنتے ہی آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور سب کو آن بورڈ لیا جس میں بہت اہم فیصلے لئے گئے اس وقت ہم سب کو یکجا ہو کر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے۔

انہوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے رول کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہمیں پی ٹی آئی کو ہاؤس میں بلانا چاہئے اور تمام فیصلے پارلیمنٹ میں کرنے چاہئیں۔ اسوقت ہمیں ملکر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ اپوزیشن لیڈر سردار حسن اختر موکل نے کہا کہ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہر پاکستانی غم و غصے کی تصویر بنا ہوا ہے۔ گزشتہ 14 برس سے ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے بچوں ، ماؤں، بہنوں اور بھائیوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں اور ہمیں اس دہشت گردی کی جنگ کو جتنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ دہشت گرد کون ہیں اور ان کے عزائم کیا ہیں۔ کس مذہب میں معصوم بچوں کو ختم کرنا موجود نہیں ہمیں ملکر اس خوف کی فضاء کو پر امن فضا میں تبدیل کرنا ہو گا۔ اس کے لئے خواہ ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

عظمی بخاری نے کہاکہ میں 12 برس سے ہاؤس کی رکن ہوں۔ یہ وقت میری زندگی کا مشکل ترین وقت ہے جبکہ میں 15 سالہ بچے کی ماں ہوں اور سانحہ پشاور میں شہید ہونیوالے 15 سالہ بچے کی مال کا درد میں بخوبی سمجھتی ہوں۔ میڈیا ایسے لوگوں کو ٹی وی پر بلا کر دکھاتاہے جنہوں نے اس واقعہ پر ایک مرتبہ بھی اظہار افسوس نہیں کیا۔ کیا یہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں۔

وہ تصویریں جسطرح پبلک کی گئیں اس سے سب کے دل مجروح ہوئے ہیں۔ اگر ہم نے آج بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر بہت دیر ہو جائے گی۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ ق کے چودھر ی عامر سلطان چیمہ نے پشاور میں دہشت گردی کی مزمت کی اور قومی قیادت کا اس معاملے پر سر جوڑ کر بیٹھنا خوش آئند قرار دیا۔ تاہم انہوں نے بعض تکنیکی خامیوں کی نشاندہی بھی کی اور کہا کہ دہشت گردی ختم کرنے کیلئے جو مناسب اقدامات کرنا ضروری تھے وہ سابق اور موجودہ کسی حکومت نے نہیں کیے۔

آج تک دہشت گردوں کی پلاننگ فیل کرنے کی حکمت عملی نہیں بنائی گئی، قومی اداروں اور فورسز کو ضروری وسائل فراہم نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے ہم دہشت گردوں سے نمٹ نہیں سکے نہ ہی ان کے خلاف ثبوت و شہادتیں اکٹھی کر سکے اور وہ عدم ثبوت کی بناء پر جیلوں سے چھوٹتے رہے۔ عامر سلطان چیمہ نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کی پلاننگ کرتے وقت ہمیں اس آپریشن کے رد عمل میں پیش آنے والی صورتحال سے نمٹنے کی پلاننگ بھی کرنا چاہیے تھی اور عوام الناس کا تحفظ یقینی بنانے کے اقدامات کرنا چاہیں تھے لیکن ان اقدامات کے بغیر ہی آپریشن شروع کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ قوم کو موٹروے، میٹروبس نہیں تحفظ چاہیے، ایک سال کیلئے ایمرجنسی نافذ کرکے تمام وسائل دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے وسائل فراہم کرنا چاہئیں کیونکہ ہمارے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کا محکمہ تو موجود ہے مگر ان کا سراغ لگانے، ثبوت اکٹھا کرنے اور مقابلہ کرنے کیلئے جدید آلات دستیاب نہیں، عامر سلطان چیمہ نے کہا کہ دہشت گردوں کو موت کی سزا دینا لازم ہے۔

سزائے موت کے خلاف یورپی یونین سمیت عالمی دباؤ برداشت نہیں کرنا چاہیے، یہ عجیب بات ہے کہ بنگلہ دیش، کشمیر میں تو بات کوئی نہیں کرتا اور ہمارے معاملہ میں سب بات کرتے ہیں۔ جبکہ پوری دنیا کی جنگ ہے جو ہم اکیلے لڑ رہے ہیں پھر بھی ہمیں ڈو مور اور ڈائی مور کے لئے کہا جاتا ہے۔ ہم نے صرف اور صرف پاکستان اور اپنی قوم کو دیکھنا ہے اور اس کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنا ہیں، دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان درختوں کو جڑوں سے کاٹنا ہے اور ان کی آبپاری کرنے والوں کی بھی سرکوبی کرنا ہو گی۔

حکومتی رکن رانا محمد ارشد نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پشاور میں جس بربریت کا مظاہر کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی، پوری سیاسی قیادت متحد ہو چکی ہے۔ انشاء اللہ آپریشن ضرب عضب کامیابی سے ہمکنار ہو گا، شرپسندوں کا پاکستان میں جینا حرام کر دینگے۔ قوم کے دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے گا۔ اب 7136 دہشت گردوں کو سزائے موت دینا ہماری ڈیوٹی ہے۔

اپوزیشن رکن احسن ریاض فتیانہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے دہشت گردوں کے معاونین ی سرکوبی کی بھی بات کی تھی مگر مولانا عبدالعزیز جسے معاونین سب کے سامنے ہیں، ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے بچوں کی ذہنی بحالی کیلئے ان کی کونسلنگ کے اقدامات بھی کیے جائیں، تعلیمی اداروں میں عسکری تربیت دی جانے اور بنایا جائے کہ ناگہانی صورتحال میں کس طرح تحفظ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب 9/11 ہوا تو امریکہ نے سات سمندر پار جنگ کی، پشاور میں دہشت گردی میں کونسا ملک ملوث ہے ہمیں یہ نہیں سوچنا بلکہ یہ سوچنا چاہئے کہ ہم پر حملہ کیا گیا، اگر افغانستان پر حملہ یا آپریشن کرنا پڑے تو کیا جائے ان کا کہنا تھا کہ اگر بارہ سال سے ضرب عضب جیسا آپریشن کیا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ انہوں نے مقامی سطح پر عوامی نمائندوں کی مدد سے گلی محلوں میں واچ سسٹم شروع کرنے کی تجویز پیش کی۔

حکومتی رکن ڈاکٹر فرزانہ نذیر نے پشاور میں دہشت گردی کی شدید مذمت کی اور کہا داخل سکیورٹی کا معاملہ اٹھایا۔ تو سپیکر نے انہیں اس ایشو پر بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ پوری قوم اسوقت متحد ہے اور دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہے۔ حکومتی رکن ذوالقرنین ڈوگر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا وہ مرکزی جمعیت اہلحدیث کی نمائندگی کرتے ہوئے پشاور میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔

تمام سیاسی جماعتوں کا ایک نکتے پر اکٹھا ہونا قابل تعریف ہے۔ امید ہے کہ ملک دشمن اب ہماری طاقت کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے۔ حکومتی رکن وارث کلو نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پشاور کے سانحہ کے بعد جب میں اپنے پوتوں کو سکول بھینے لگا تو میرا دل گھبرا اٹھا چنانچہ میں نے انہیں رو کیا۔ انہوں نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں جو بچے دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں ان کے والدین سے اظہار یک جہتی اور جھوٹی تسلیاں دینے کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تمام سیاسی قیادت اکٹھی ہوئی ہے۔ سب یہی بات کر رہے ہیں لیکن میں اس کی تعریف نہیں کروں گا کیونکہ آج کے حالات کاری سیاسی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ ہماری تاریخ سانحات سے بھری پڑی ہے۔ سانحہ پشاور اورتاتاریوں کے بعد سب سے بڑی بربریت ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آج تک ااپنے اپنے مفادات کی سیاست کی جا رہی 1979 میں اس کے خلاف چند ڈالروں کی خاطر یہاں نرسریاں بنا دی گئیں۔

ہمیں سب کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، حکومتی رکن امجد علی جاوید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پشاور کا واقعہ پوری نیا کا بدترین سانحہ ہے جس کا تاریخ جواب نہیں دے سکے گی۔ جو لوگ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تذبذب کا شکار تھے اور انہیں اپنے بھٹکے ہوئے بھائی کہتے تھے وہ تمام لوگ آج پوری قوم کے پریشر کی وجہ سے ایک پیج پر اکٹھے ہو گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ پوری قوم کی طرف سخت ترین پیغام جانا چاہیے کہ ملک و قوم کو للکارنے اور انسانیت سے جنگ کرنے والوں کے خلاف ہم متحد ہیں اور اس طبقے کو بھی قابل نفرت بنانا ہے جو دہشت گردوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ دنیا بھر کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر قانون میں ترمیم کی جائے اور دہشت گردوں کو چوراہوں میں سرعام لٹکایا جائے۔ ہمیں یورپی یونین کی مخالفت کی پروا نہیں، ہم سختیاں برداشت کر لیں گے مگر خونی مجروموں کو سزا دینگے۔ اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔