افغانستان میں سینئر طالبان کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی غیر موثر رہی، سی آئی اے

ہفتہ 20 دسمبر 2014 09:20

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20دسمبر۔2014ء ) امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان کے اعلیٰ رہنماوٴں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی غیر موثر رہی، جس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کی سینئر قیادت اپنے ٹھکانے تیزی سے بدلتی رہتی تھی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق وکی لیکس کی طرف سے سی آئی اے کی 2009ء میں تیار ہونے والی ایک خفیہ رپورٹ منظر عام پر لائی گئی ہے، جس کے مطابق افغانستان میں اتحادی افواج کے طالبان کی لیڈر شپ کے خلاف زیادہ تر آپریشن غیر موثر یا ناکام رہے ہیں۔

وکی لیکس کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کی طرف سے یہ رپورٹ اس وقت تیار کی گئی تھی، جب امریکی صدر باراک اوباما نے القاعدہ اور طالبان کو پیچھے دھکیلنے اور شکست دینے کے لیے طاقت کے اضافی استعمال کا حکم دیا تھا۔

(جاری ہے)

وکی لیکس کی ویب سائٹ کے مطابق اس خفیہ رپورٹ کے بعد امریکی ڈرون حملوں میں ایک دم سے اضافہ ہو گیا تھا۔

سی آئی اے کی طرف سے اس رپورٹ کا نام ایچ وی ٹی یعنی ہائی ویلیو ٹارگٹنگ رکھا گیا تھا۔ اس رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اور دیگر جنگجووٴں کی چھپنے کی حکمت عملی کامیاب رہی تھی۔ اسی حکمت عملی کے تحت القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن بھی ایک عرصے تک چھپنے اور فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ اسامہ بن لادن نے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی کم کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ اسامہ بن لادن کی نقل و حرکت بھی انتہائی محدود تھی۔تاہم سی آئی اے کی طرف سے اس رپورٹ میں ہدف بنا کر قتل کرنے یا ٹارگٹ کلنگ کے خطرات سے بھی آگاہ کیا گیا تھا۔ سی آئی اے نے کہا تھا کہ اس طریقے سے مسلح گروپوں کے لیے ہمدردیاں بڑھیں گی اور وہ مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ کہا گیا تھا کہ اس طرح مسلح گروپوں کے کارکنوں میں بھی انتہا پسندی بڑھے گی اور ہلاک ہونے والے لیڈروں کی جگہ ان سے بھی زیادہ سخت مزاج اور انتہا پسند لیڈر ان کی جگہ لے سکتے ہیں۔

رپورٹ م?ں سی آئی اے کا خطرات بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ باغیوں کو مشتعل کرنے سے کئی طریقوں سے انہی کی تنظیموں کو فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں سی آئی اے کے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ہمیشہ ہائی ویلیو ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کی بجائے طالبان کی درمیانے درجے کی قیادت کو نشانہ بنایا جائے تاکہ سینئر قیادت کی جگہ زیادہ انتہا پسند جنگجو نہ لے سکیں۔یہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ طالبان اپنی درمیانے درجے کی قیادت کو بھی بچانے میں کافی حد تک کامیاب رہے کیونکہ طالبان کی یہ قیادت بھی انتہائی تیزی سے اپنے ٹھکانے تبدیل کرتی رہتی تھی۔

متعلقہ عنوان :