سینیٹ کمیٹی کا سیس کے نفاذ سے قبل صنعتوں سے گیس دیویلپمنٹ انفراسٹرکچر سیس کی مد میں وصول رقم واپس کرنیکا مطالبہ ،اناملی کمیٹی ضرورت نہیں کیپٹو پاورز اور انڈسٹری دو الگ الگ شعبے ہیں،کہ کیپٹو پاور کے ریٹس میں کمی کا اختیار وفاقی وزیر خزانہ کو ہے ،شاہد خاقان،کہ پہلے بورڈز ختم کئے گئے عدالتوں سے حکم امتناہی آیا آرڈیننس نافذ کیا گیا اور پارلیمنٹ کے ایکٹ کے علاوہ پھر بھی معاملات عدالتوں میں ہیں معاملے کو ختم کرنے کیلئے حکومت فوری اقدامات اٹھائے،سلیم ایچ مانڈوی والا،جنہوں نے سیس ادا کر دیا واپس کیا جائے 21مئی 2015سے ٹیکس لگایا جائے اس سے پہلے کے دورانیہ کا ٹیکس نہ لگایا جائے،ٹیکس کے نفاذ سے بلوچستان سندھ اور خیبر پختونخوا متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ وہاں پر بجلی نہیں ہے ان صوبوں کو دہرا ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، عثمان سیف اللہ

جمعرات 8 اکتوبر 2015 09:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8اکتوبر۔2015ء) سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے جی آئی ڈی سی نے سیس کے نفاذ سے قبل صنعتوں سے گیس دیویلپمنٹ انفراسٹرکچر سیس کی مد میں وصول ہونے والی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے ،ٹیکس کے نفاذ سے بلوچستان سندھ اور خیبر پختونخوا متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ وہاں پر بجلی نہیں ہے ان صوبوں کو دہرا ٹیکس ادا کرنا پڑے گا،کمیٹی کا اجلاس کنوینئر سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا کی صدار ت میں اجلاس منعقد ہو ا جس میں سینیٹرز حاصل خان بزنجو ، سلیم ایچ مانڈوی والا، عثمان سیف اللہ خان ، محسن عزیز ، ساجد میر ، ہلا الرحمان ، عثمان خان کاکڑ کے علاوہ وفاقی وزیر پیڑولیم شاہد خاقان عباسی ، سیکریٹری وزارت ارشد مرزا ، ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی پی ایل کے ایم ڈیز کے علاوہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

اجلاس میں مجوزہ بل پر مزید غوروخوض پر بحث کے دوران وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اناملی کمیٹی ضرورت نہیں کیپٹو پاورز اور انڈسٹری دو الگ الگ شعبے ہیں ممبران کمیٹی کے تحفظات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ کیپٹو پاور کے ریٹس میں کمی کا اختیار وفاقی وزیر خزانہ کو ہے ۔ سابق وفاقی وزیر خزانہ سنیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ پہلے بورڈز ختم کئے گئے عدالتوں سے حکم امتناہی آئی آرڈیننس نافذ کیا گیا اور پارلیمنٹ کے ایکٹ کے علاوہ پھر بھی معاملات عدالتوں میں ہیں انہوں نے وفاقی وزیر سے کہا کہ معاملے کو ختم کرنے کیلئے حکومت فوری اقدامات اٹھائے۔

سینیٹر عثمان سیف اللہ خان نے کہا کہ جنہوں نے سیس ادا کر دیا ہے واپس کیا جائے 21مئی 2015سے ٹیکس لگایا جائے اس سے پہلے کے دورانیہ کا ٹیکس نہ لگایا جائے اور کہا کہ اس ٹیکس سے صوبہ سندھ ، بلوچستا ن اور کے پی کے سب سے زیادہ متاثر ہیں بجلی موجود نہیں گیس سے بجلی پیدا کرتے ہیں دوہرا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے حکومت بجلی فراہم کرے ۔ گیس سے بجلی نہیں بنائیں گے ۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ جن صوبوں سے گیس پیدا ہوتی ہے وہاں نہ ترقیاتی منصوبہ ہے نہ گیس کنکشن دیے جا رہے ہیں مجوزہ ٹیکس اسلام آباد اور لاہور کے لئے لگایا جا رہا ہے ۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ کیپٹو پاور کے ریٹس میں کمی کی جائے اور کہا کہ خود بجلی بنانے اور فروخت کرنے والے کے بارے میں پتا چلانے کا کوئی میکنزم نہیں ہے سی این جی کے شعبے کو حکم امتناہی اور ان صارفین کے حق میں سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے ۔

انڈسٹریل اور کیپٹو پاور کو الگ الگ رکھا جائے وفاقی وزیر نے ایوان بالا میں تقریر کرتے ہوئے مجوزہ سیس ٹیکس کے حوالے سے یقین دہانی کرائی تھی کہ معاملات کمیٹی میں زیر بحث آئیں گے اور ایوان کے فیصلے پر عمل درآمد ہو گا۔ وفاقی وزیر نے آگاہ کیا کہ چار کیٹاگریز بنائی گئی ہیں جن میں وصولی کی ادائگی کی گئی ، نہ وصولی کی نہ ادائیگی ۔ وصولی بھی کی گئی اور ادائیگی بھی کی گئی اور کہا کہ 10ہزار صنعتوں کے ذمے چالیس ارب کے واجبات واجب الادا ہیں کمیٹی اجلاس میں ممبران کی بحث اور وفاقی وزیر اور سرکاری اہلکاران کے غیر تسلی جوابات کی وجہ سے بل کی منطوری موخر کر دی گئی اور وفاقی وزیر پیڑولیم شاہد خاقان عباسی کی 5بڑی آڈٹ کمپنیوں سے آڈٹ کرانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا چیئر مین کمیٹی سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ کیپٹو پاور کے ریٹس کے بارے میں وفاقی وزیر خزانہ اسحا ق ڈار سے خود بات کرونگا اور کہا کہ جنہوں نے سیس ادا کر دیا اور جن کے ذمہ وجب الادا ہے اور جن کے معاملات عدالتوں میں ہیں یا حکم امتناہی حاصل کئے جا چکے ہیں ان معاملات کو اگلے اجلاس میں باہمی مشاورت کے ذریعے حل کیا جائیگا۔

کمیٹی اجلاس میں سیس بل کے حوالے سے صوبہ بلوچستان او ر صوبہ خیپر پختونخواہ کے سینیٹرز کے تحفظات سامنے آئے ۔ سینیٹر عثمان سیف اللہ خان نے کہا کہ صنعت کار انکم ٹیکس کے علاوہ یہ نیا ٹیکس بھی ادا کریں گے جس سے پیدواری اشیاء کی قیمتیں کم ہونگی اس سے بہتر ہے کہ صوبے کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا جائے ۔