امر یکہ نے مسئلہ فلسطین کے حل میں نا کامی کا اعتراف کر لیا ،اوباما کے دور میں مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو گاتاہم امریکی حکومت فلسطین۔ اسرائیل کشیدگی کم کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے گی،: امریکی حکام

ہفتہ 7 نومبر 2015 09:09

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6نومبر۔2015ء)امریکی حکام نے واضح کیا ہے کہ صدر براک اوباما کی مدت صدارت کے بقیہ عرصے میں فلسطین۔اسرائیل تنازع کے حل کا کوئی امکان نہیں ہے، تاہم امریکی حکومت فلسطین۔ اسرائیل کشیدگی کم کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق امریکی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کی مدت صدارت کے باقی چند ماہ میں مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کا کوئی امکان نہیں ہے۔

صدر اوباما مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے جس جرات کا اظہار کر رہے تھے عملاً اس میں ناکام رہے ہیں۔امریکی سفارت کاروں کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے دور ریاستی حل میں صدر باراک اوباما کی ناکامی کی بات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیلی وزیراعظم امریکا کے دورے پر پہنچ رہے ہیں جہاں وہ سوموار کو صدر اوباما سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے۔

(جاری ہے)

اس ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے معاون مشیر بن روڈس، وائٹ ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ذمہ دار رابرٹ مالی اور اسرائیل میں امریکا کے سفیر ڈان شابیر نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ صدر اوباما کی بقیہ مدت صدرت میں مسئلہ فلسطین کے حل کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ صدر اوباما سوموار کے روز وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران مسئلہ فلسطین سے متعلق بات کریں گے مگر اس میں کسی عملی پیش رفت کا امکان نہیں ہے۔

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ اسرائیلی وزیراعظم کے دورے کے دوران فلسطینی قیادت کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کرے گی۔ اس وقت امریکی حکومت کی توجہ صرف فلسطین۔ اسرائیل کشیدگی کم کرنے پر مرکوز ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے فلسطینی قیادت کو بھی یہ باور کرایا جائے گا کہ اگر امن عمل آگے نہیں بڑھ رہا ہے تو اس کا مطلب کشیدگی، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان کھنیچا تانی اور لڑائی بھڑائی نہیں ہونا چاہیے۔

امریکا فریقین سے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنے کامطالبہ کرے گا اور ساتھ ہی دونوں فریقوں سے اشتعال انگیز طرز عمل ترک کرنے کا مشورہ دے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران صدر امریکا واضح کریں گے کہ فلسطین کے غرب اردن کے علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیرو توسیع حالات کو مزید بگاڑنے کا باعث بن رہی ہے اور اس حوالے سے امریکا کا موقف بھی واضح ہے۔

خیال رہے کہ امریکی سیاہ فام صدر باراک اوباما کے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ امید کی جانی لگی تھی کہ مسئلہ فلسطین کا کوئی مثبت حل نکل آئے گا۔ خود براک اوباما نے تنازع فلسطین کے حل کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اپنے وعدے کی تکمیل کے لیے انہوں نے پہلی بار صدر منتخب ہونے کے بعد جارج میچل کو مشرق وسطیٰ کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا مگر وہ ناکام رہے۔ اس کے بعد صدر اوباما بھی ڈھیلے پڑ گئے تھے۔

سنہ 2013ء میں دوسری مرتبہ امریکا کے صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے جان کیری کو اپنا وزیرخارجہ چنا اور خود بھی فلسطین اور اسرائیل کا دورہ کیا۔ جان کیری نے اسرائیل فلسطین کے میراتھن دورے تو کیے مگر وہ بھی مسئلے کے حل کی کوئی سبیل تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ حتیٰ کہ سرے سے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان بات چیت ہی تعطل کا شکار ہو کر رہ گئی۔