اقوا م متحدہ کا احتجاج نظرانداز‘نئی دہلی کے مضافات میں غریبوں کی بستی مسمار

بستی میں کم از کم پانچ ہزار گھر موجود ہیں اور ان کے علاوہ یہاں اسکول اور عبادت گاہیں بھی موجود ہیں نئی دہلی کے قریب ہی واقع اس بستی میں ہزارہا لوگ رہتے ہیں جسے سپریم کورٹ نے ہٹانے کا فیصلہ دیا تھا

اتوار 18 جولائی 2021 12:15

اقوا م متحدہ کا احتجاج نظرانداز‘نئی دہلی کے مضافات میں غریبوں کی بستی مسمار
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 جولائی2021ء) بھارتی حکام نے ہفتے کے روز نئی دہلی کے مضافات میں واقع غریبوں کی ایک بستی کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس بستی کی مسماری کے فیصلے پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور اقوام متحدہ کے ماہرین کی طرف سے احتجاج کیا گیا ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بلڈوزروں اور ملبہ ہٹانے والی مشینوں نے رواں ہفتے کھوڑی نامی بستی کی مسماری کا کام شروع کیا تھا۔

نئی دہلی کے قریب ہی واقع اس بستی میں ہزارہا لوگ رہتے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس زمین کو محفوظ جنگلاتی زمین قرار دیتے ہوئے اس پر موجود بستی کو ہٹانے کا فیصلہ دیا تھا۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے پر موجود جنگل کئی دہائیاں قبل وہاں کان کنی کے سبب تباہ ہو گیا تھا جس کے بعد وہاں غریب مزدوروں اور دوسرے شہروں سے آ کر بسنے والوں نے وہاں اپنے گھر بنائے اور اب وہ وہاں 30 برس سے بھی زائد عرصے سے رہائش پذیر ہیں۔

(جاری ہے)

بھارتی سپریم کورٹ نے کھوڑی نامی بستی کی زمین کو محفوظ جنگلاتی زمین قرار دیتے ہوئے اس پر موجود بستی کو ہٹانے کا فیصلہ دیا تھا۔نئی دہلی پولیس نے جمعہ 16 جولائی کو رکاوٹیں لگا کر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو اس بستی کی طرف جانے سے روک دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس زمین کو 19 جولائی تک صاف کیا جانا ہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس بستی میں کم از کم پانچ ہزار گھر موجود ہیں اور ان کے علاوہ یہاں اسکول اور عبادت گاہیں بھی موجود ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم 'نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹ‘ سے منسلک وِمل بھائی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،یہ زمین پہلے کان کنی کے لیے استعمال ہو رہی تھی اور جب کان کنی پر پابندی لگی تو جرائم پیشہ افراد کی طرف سے اس زمین کو گاؤں کے لوگوں میں فروخت کر دیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا حکومت کی غلطیوں اور کمزور پالیسیوں کی قیمت گاؤں غریب دیہاتی ادا کر رہے ہیں۔

کھوڑی نامی اس بستی میں مسماری کا عمل شروع کرنے سے قبل وہاں کی بجلی اور پانی کی سپلائی روک دی گئی جبکہ وہاں پانی کے ٹینکروں کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ بلڈوزروں کے ساتھ ڈنڈا بردار پولیس بڑی تعداد میں موجود ہے تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ وہاں کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوا۔اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کی طرف مقرر کردہ انسانی حقوق کے ماہرین نے جمعہ 16 جولائی کو بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں بے گھر کرنے کے اس عمل کو روکے۔

ان کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ہماری لیے یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کہ بھارت کی سب سے بڑی عدالت نے، جو ماضی میں رہائشی حقوق کی حفاظت کرتی رہی ہے، وہ اب لوگوں کو بے گھر کرنے کے عمل کی سربراہی کر رہی ہے۔ اس عمل کے سبب لوگوں کے داخلی طور پر بے گھر ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بستی کی مسماری سے اس فیصلے سے کورونا وائرس کے سبب پہلے سے ہی مشکلات میں گھرے غریب لوگوں کے لیے زندگی اجیرن ہو جائے گی اور اس سے ہزارہا بچے اور خواتین شدید متاثر ہوں گی۔

نئی دہلی میں شائع ہونے والی مزید خبریں