Open Menu

Aisi Munafa Bakhsh Sarmaya Kaari Mein Ghaflat O La Parwahi Kyun? - Article No. 3276

Aisi Munafa Bakhsh Sarmaya Kaari Mein Ghaflat O La Parwahi Kyun?

ایسی منافع بخش سرمایہ کاری میں غفلت و لاپرواہی کیوں ؟۔۔تحریر:محمد اکرم اعوان - تحریر نمبر 3276

ماں باپ کے نافرمان کاکوئی بھی عمل، چاہے اس عمل کا تعلق حقوق اللہ سے ہویا حقوق العبادسے ہو،اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا اوراٹل حقیقت ہے کہ ماں باپ کانافرمان دُنیا میں بھی ذلیل ونامراد ہوتا ہے اورآخرت میں بھی رسوا ئی اورناکامی اس کامقدرہے

منگل 12 نومبر 2019

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔اسلام معاشرہ میں خاندان کوبنیادی اکائی قراردیتاہے۔اللہ رب العزت نے انسان کواشرف المخلوقات بنایا۔انسانوں میں سب سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لئے اچھا ہواوردوسروں کو فائدہ پہنچائے۔اسلام میں مسلمان کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ کے ضررسے مسلمان محفوظ رہیں اورمومن اُسے کہا گیاکہ جس کی طرف سے لوگوں کو اپنی جان اوراموال کے بارے میں کوئی خوف اورخطرہ نہ ہو۔
آج تعلیم کے مواقع پہلے کی نسبت زیادہ ہیں، دینی مدارس،جامعات،سکول وکالجز کی بھرمارہے۔ہونا تویہ چاہیے تھا کہ تعلیم کے ساتھ شعوروآگاہی میں اضافہ ہوتا اوروقت گزرنے کے ساتھ حقوق اورفرائض کی ادائیگی کے حوالہ سے ایسا مثالی معاشرہ تشکیل پاتا،جہاں اتفاق ومحبت اوربرکت کادوردورہ ہوتا ۔

(جاری ہے)

ہر کسی کی جان ومال ،عزت وآبرو محفوظ ہوتی۔مگرافسوس کی بات تویہ ہے کہ دوسروں کے حقوق اوراحترام تودورکی بات،ہمارے اپنے بھی، ہمارے شرسے محفوظ نہیں اورخاص کربوڑھے اورضعیف والدین کے ساتھ ہمارا سلوک اوررویہ ناقابل ِ برداشت اورشرمناک ہوتا جارہا ہے۔

اس حوالہ سے ہم نے اسلامی تعلیمات کوبالکل ہی پس پشت ڈال دیا ہے۔حالانکہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اورنیکی اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے۔ماں باپ کوراضی کرنے سے اللہ تعالی راضی ہوتاہے۔ماں باپ کی نافرمانی گناہ ِکبیرہ ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(مفہوم):"تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کی نافرمانی حرام کردی۔"(بخاری)۔یہاں تک تنبیہ کی گئی ہے کہ ماں باپ کے نافرمان کاکوئی بھی عمل، چاہے اس عمل کا تعلق حقوق اللہ سے ہویا حقوق العبادسے ہو،اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا اوراٹل حقیقت ہے کہ ماں باپ کانافرمان دُنیا میں بھی ذلیل ونامراد ہوتا ہے اورآخرت میں بھی رسوا ئی اورناکامی اس کامقدرہے۔
حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے: رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:"اس کی ناک خاک آلود ہو،اس کی ناک خاک آلودہو،اس کی ناک خاک آلودہو۔عرض کی گئی،کس کی یا رسول اللہ ﷺ؟آپ ﷺ نے فرمایا:جس نے اپنے والدین ان میں سے کسی ایک کابڑھاپاپایااس کے باوجودجنت میں داخل نہیں ہوا۔"(مسلم) ماں باپ کا حق صرف ان کی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کی وفات کے بعدبھی اولادکی ذمہ داری ہے کہ ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔
ایک مرتبہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کی یا رسول اللہ ﷺکیاوالدین کے مرنے کے بعدکوئی نیکی ان سے کرسکتاہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ان کے کئے وعدے پورے کرو۔ان کے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرواوران کے دوستوں کی عزت کیا کرو۔"(ابوداؤد) ماں باپ کی طرف اُٹھائی گئی محبت واحترام کی نظرکوبھی عبادت فرمایا گیا۔
آقائے دوجہاں ﷺکے ارشادپاک کا مفہوم ہے، "ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والاجب اپنے والدین کومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کے ہرمرتبہ دیکھنے کے عوض(اس کے اعمال نامے میں)ایک مقبول حج کاثواب لکھتاہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین نے عرض کی اگرچہ وہ دن میں سومرتبہ والدین کودیکھے؟آپ ﷺ نے فرمایا :ہاں۔"(مسلم) ہم سوچیں کہ ہماری پریشانی اورناکامی کا سبب عالمی و ملکی حالات، ہمارے حکمران وسیاستدانوں سے زیادہ ہمارے اپنے پیدا کئے گئے حالات اور والدین کے حقوق میں برتی جانے والی غفلت ولاپرواہی ہے۔
ہم اس دُنیا کی عارضی ،نامستقل کامیابی کے حصول کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اوردُنیاوآخرت کی یقینی عزت وکامیابی جوہمارے پاس، قریب اورنہایت آسان ہے، اُس سے یکسرغافل اور ہمارے نزدیک اس چیزکی کوئی اہمیت،قدروقیمت ہی نہیں رہ گئی۔یہی وجہ ہے کہ جب ہم گھرسے باہرنکلتے ہیں توخودکوہرجگہ بے بس اوربے وقعت پاتے ہیں۔ اپنے ماں باپ کے لئے وقت نکالیں،اُن کے پاس بیٹھیں، اُن سے باتیں کریں،اُن کی خیریت دریافت کریں،اُن کی خدمت کریں، انہیں اپنے بیوی ،بچوں، نوکر اورخادموں کے حوالے نہ کریں بلکہ زیادہ سے زیادہ اس شرف اوراعزاز کواپنے ہاتھوں سے سرانجام دیں، والدین ایسی نعمت ہیں جن کاکوئی نعم البدل اورثانی ہرگزنہیں۔
ان سے ہمیشہ مسکرا کراورادب واحترام سے بات کریں، تلخ لہجہ اوراُکتاہٹ کا اظہار بالکل نہ کریں۔ان سے بدتمیزی نہ کریں،اُن کی طرف سے پیش آنے والی ناگوار بات اورامرکو برداشت کریں اورجاہلوں کی طرح اونچی آوازمیں بات نہ کریں، بلکہ آہستہ آواز میں بطریق احسن گفتگوسے اس کا اچھا پہلواورحل ان کے سامنے رکھیں۔ اُن کونا اُمیدنہ کریں بلکہ حوصلہ دیں۔
اُن کے ساتھ ہمیشہ خیرخواہی اوربھلائی کا معاملہ کریں،اُن کی ناراضی سے بچیں،عمربڑھنے کے ساتھ انسان کی برداشت اورہمت جواب دے جاتی ہے،غصہ جلدی آجاتاہے۔اگروہ کسی بات پرغصہ یا ناراض ہوں توآپ اسے برداشت کریں اورجواب میں ویسے ہی سخت وتلخ جواب سے پرہیزکریں۔ یادرکھیں انہوں نے تمھاری زندگی سنوارنے کے لئے دربدرکی ٹھوکریں کھائیں،دُنیاکے طعنے برداشت کئے،دن رات محنت و مشقت کی۔
اپنے آرام وسکون کی پرواہ نہ کی کہ تم سکون سے رہ سکو۔ وہ جنہوں نے زندگی تمہارے لئے وقف کردی،وہ جوتمہاراحال بہتربنانے کے لئے ہرحال سے گزر گئے،ساری خوشیاں تمہارے نام کردیں، خواہشوں کوتم پرقربان کردیا،آج اُن کے لئے تمہارے پاس وقت نہیں،تیرے پاس سوشل میڈیا ،ٹاک شو،اخبارسے دُنیا بھر کے حالات جاننے کے لئے وقت ہے،مگرافسوس اپنے والدین کے حال سے بے خبراوربے پرواہ،ان سے بات کرنے کاوقت نہیں۔
ان کے پاس بیٹھنے کاوقت نہیں۔ان کی دلی جوئی کے لئے تیرے پاس الفاظ نہیں۔پھرکہاجاتا ہے حالات ٹھیک نہیں، پریشانیوں نے گھیرلیا،کسی نے کچھ کردیا ہے۔کسی نے کچھ نہیں کیا ،جوکچھ کیاتم نے خودکیا۔اپنا حال بہتر کرناہے ،آسودہ اورخوشحال زندگی کی خواہش ہے تواپنے والدین کا خیال رکھیں،انہیں ایسے خوش رکھیں جیسے اپنے دوستوں کوخوش رکھتے ہیں اورخوش رکھنے کے بہانے ڈھونڈیں کہ ان کی مسکراہٹ اورمعصوم ہنسی میں نہ صرف تمہاری بلکہ تمہاری آنے والی نسلوں کی کامیابی اورخوشی پوشیدہ ہے۔
آج وقت ہے اس باب میں سرمایہ کاری کا، جس میں نقصان کااحتمال نہیں،جس میں فائدہ ہی فائدہ ہے،جس کے انڈیکس میں روزاول سے استحکام اورمنافع ہے،توپھرایسی منافع بخش سرمایہ کاری میں غفلت ولاپرواہی کیوں ۔دُعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کووالدین سے حسن سلوک کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔(آمین)

Browse More Islamic Articles In Urdu