Open Menu

Daur E Hazir Mein Ilmi Qeht - Article No. 3288

Daur E Hazir Mein Ilmi Qeht

دور حاضر میں عِلمی قحط۔۔۔تحریر: طاہر ایوب جنجوعہ - تحریر نمبر 3288

آئیں بحیثیت مسلمان اپنے سماج کی اس روحانی بیماری کے علاج کے لئے موثر اقدامات کریں،علم کی مشعلیں تھام لیں،اور روشنی کے سفیر بن کر اپنے آس پاس عزیز و اقارب،گلی،محلے کے لوگوں کو شعور دیں، کتاب و سنت کے سچے اور صافی سرچشمے سے خود بھی اور اوروں کو بھی سیراب کریں

پیر 9 دسمبر 2019

علم ایک گراں بہا نعمت ہے، جو بنی نوع انسان کو خدائے ذوالجلال کی طرف سے خصوصی طور پر ودیعت کی گئی ہے،یہ علم ہی ہے جس کی بدولت انسان شعور کی منازل طے کرتا ہوا آگہی اور معرفت و عرفان کی بلندیوں تک پہنچ پاتا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ علم کے بغیر انسان کا ضمیر ایک چلتی پھرتی لاش کی مانند ہے،جو قوت سماعت و بصارت اور قوت گویائی جیسی نعمتوں کے باوجود مُردوں کی سی زندگی بسر کرتا ہے- یہ انسانی فطرت کا ہی تقاضا ہے کہ انسان ہمیشہ سے کائنات کے نت نئے اسرار و رموز جاننے کی جستجو میں لگا رہتا ہے، اور جیسے جیسے وہ علمی ارتقاء کی منازل طے کرتا ہے، اس کی ذھنی،فکری، اور نفسیاتی صلاحیتیں نشونما پا کر اس کے جذبات و احساسات کی شکل میں نکھر کر سامنے آنا شروع ہوجاتی ہیں،جس سے اس کے افکار و خیالات میں وسعت اور قلب و نظر میں اطمینان و سکون کی کیفیت پیدا ہوتی ہے- جب کہ علم کے بغیر انسان جہالت و پسماندگی کی ایک ایسی دبیز تہہ کے نیچے دبا ہوتا ہے،جو ہمیشہ اس کی دل و روح کے سکون کی خرابی کا باعث بنتی ہے، اور اُسے دوسروں کا محتاج اور تہی دست بنا کے رکھتی ہے- اگرچہ علم کی اہمیت و ضرورت تو روز ازل سے ہی مسلّم ہے، وجود کائنات سے لے کر آج تک دنیا کے ہر خطے، قوم،قبیلے اور ممالک میں علوم و فنون کے حصول کو ناگزیر اور قاطع جہالت و پسماندگی گردانا جاتا رہا، اور اس مسئلے کے حل کے لئے قومی و بین القوامی ہر سطح پر بڑے بڑے منصوبہ جات اور انقلابی اقدامات بھی ترتیب دئیے گئے، لیکن دنیائے عالم کو علم کی اصل روح اور اس کے حقیقی ماٰخذ اور اس کے نور و روشنی سے منور و تاباں کرنے کی بہت کم کوششیں ہوئیں،یا شائد اس میں کہیں نہ کہیں دانستہ یا نادانستہ طور پر چشم پوشی کا عنصر بھی کارفرما رہا،یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں جہالت بے شعوری،کم عقلی اور بے حسی کے ساتھ ساتھ حیوانیت اور شقیق القلبی کا بھی دور دورہ ہے، کہیں بھوک ننگ،عسرت و تنگی اور افلاس کے سبب انسانیت گلتی سڑتی جا رہی ہے،اور کہیں اقتدار،اختیار،مادی وسائل،مذھب، فرقے اور علاقائیت کی بنیاد پر لوگ آپس میں گتھم گتھا ہیں،اور ظلم و جبر اور تشدد و بربریت کی نئی نئی داستانیں جنم لے رہی ہیں- بحیثیت مسلمان ہمارے لئے علم کی اہمیت و افادّیت کچھ اور بھی زیادہ ہے،کیونکہ ہمارے دین کی ابتدا ہی لفظ ''اقراء'' سے ہوئی، اس لحاظ سے دین اسلام کی مضبوط عمارت کی بنیاد ہی علم و آگہی پر کھڑی ہے، اور اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے ماننے والے اپنے علم و حکمت اور فہم و ادراک کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف تسخیر کائنات کے رازوں سے آشنا ہوں،بلکہ دنیا کے مسائل و مصائب کے پرپیچ رستوں پر راہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دیں-بلاشبہ اللہ کا کلام یعنی ''قرآن'' اور سنت نبوی (صلی اللہ وسلم) علم و آگہی کی اس فضیلت و ترغیب پر شاہد ہیں- لیکن صد حیف کہ آج کا مسلمان اپنی اس متاع حیات سے بالکل نابلد و ناواقف نظر آتا ہے، جاہ و حشمت، اقتدار و اختیار، گروہی و ذاتی مفادات، اور مادیت پرستی کی لذتوں سے چُور، آج کے مسلمان کی طرز معاشرت اپنے علم و عمل کی میراث کھو چکی ہے، اور جہالت و گمراہی کی ایسی پرخار وادیوں میں سرگرداں ہے جہاں کی منزل تباہی و بربادی کے عمیق گڑھوں کے سوا کچھ نہیں- آج ڈگریوں کے سیلاب میں علم کے قحط والا محاورہ حقیقی روپ دھارے ہمارے سامنے کھڑا ہے،یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت جیسی پرفیکٹ،بے نقص و بے عیب اسناد کے باوجود امت مسلمہ خلفشار و بحرانی کیفیات کا شکار نظر آتی ہے، کہیں عقائد و نظریات میں شدت پسندانہ اور انتہاپسندانہ رویوں کی زہریلی آمیزش ہے،اور کہیں تعصبات، توہمّات اور فرسودہ نظریات کی تیرگیاں اور تاریکیاں پھن پھلائے کھڑی ہیں، کہیں فرقہ پرستی،گروہ بندی، اور باہمی چپقلش سے بغض و عناد، تعصب و منافرت اور تنگ نظری کی تباہ کاریاں جاری ہیں، اور کہیں تکفیریت، خارجیت اور رافضیت جیسے فتائن سے امت مسلمہ کا گلہ کاٹا جا رہا ہے- آج دنیا کا ہر خطہ،ہر ملک،ہر علاقہ،مسلمانان عالم کے لہو سے رنگین ہے، انسانیت سوز واقعات اب روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں،جن پر حیرت عنقا ہے -دریدہ دہن، شریر اور رزیل عناصر شعائر اسلام کی بے ادبی و گستاخی میں بے باک ہو چکے ہیں، مذہبی، نسلی، گروہی اور مسلکی بنیادوں پر کشت و خون کے بازار گرم ہیں، ایک طرف فتوؤں کی یلغار ہے اور دوسری طرف الحادی افکار و نظریات کا تلاطم برپا ہے، علماء اور فقہاء،مصلح اور رہبر سب خاموش ہیں، اور اپنے اپنے شعبہ جات کے دارالسلطنت کی پائیداری میں سرگرداں نظر آتے ہیں-کسی نے کیا سچ کہا ہے،''جب معاشرے علم کے قحط کا شکار ہو جائیں ہیں تو وہاں آپ صرف شور شرابا ہی سن پائیں گے، ایسے میں جب ''دلیل'' باقی نہ رہے تو جواب دینے والا ''ذلیل'' کرنے پر اتر آتا ہے'' - آج مسلمان طرزِمعاشرت بھی اسی علمی قحط کا شکار ہے،جہاں علم اور شعور ناپید ہوتا جا رہا ہے، اعمال و اقدار پستی و زوال پذیری کا شاہکار بنتے جا رہے ہیں، بے ہنگم شور ہے،اور آوازیں بلند تر ہوتی جا رہی ہیں، عقل و شعور کے جنازے اٹھتے نظر آتے ہیں، دینی فہم و ادارک کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی جب چاہے جنت کا ٹکٹ دکھا کر کسی خودکش کو کسی مسلمان پر ہی پھٹا دے، کوئی جب چاہے کفر و شرک کے الزامات سے کسی کے ایمان کے چیتھڑے ادھیڑ کے رکھ دے- دشنام،لعن طعن،اخلاق باختگی،عصبیت، تنگ نظری،ذہنی فرسودگی، انا پرستی جبر و تشدد اور عدم برداشت جیسی متعدی بیماریاں صرف اور صرف دینی و عصری علوم سے دوری،ناواقفیت، ان علوم کے حقیقی ماٰخذ سے نابلدی اور ناشناسی کی بدولت ہی پنپتی جا رہی ہیں- اور یہ حقیت ہے کہ اگر اس سلسلے میں مزید بے اعتنائی و بے توجہی برتی گئی تو قریب ہے کہ ہمارا یہ اجتماعی زوال بہت جلد ہمیں تباھی و بربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں لا پھینکے - سو آئیں بحیثیت مسلمان اپنے سماج کی اس روحانی بیماری کے علاج کے لئے موثر اقدامات کریں،علم کی مشعلیں تھام لیں،اور روشنی کے سفیر بن کر اپنے آس پاس عزیز و اقارب،گلی،محلے کے لوگوں کو شعور دیں، کتاب و سنت کے سچے اور صافی سرچشمے سے خود بھی اور اوروں کو بھی سیراب کریں- ایک مسلمان کی زندگی کا نقطہ آغاز بھی علم ہے اور نقطہ اختتام بھی بلاشبہ علم ہی ہے، اور یہ طے کر لیں کہ قوموں کی زندگیوں میں انقلابات ہمیشہ علم و شعور کی بنیادوں پر ہی برپا ہوا کرتے ہیں، لیکن یہاں علم سے مراد محض ڈگریوں کا ہول سیل ریٹ پر بیچنا اورخریدنا نہیں،بلکہ علم و استعداد کے حصول سے مراد وہ علم ہے جو خالق و مالک کی مرضی و منشاء کے مطابق احترام آدمیت سے لے کر کائنات کے حقیقی ماٰخذ اور اس میں چھپے اسراروں کی تہہ تک پہنچنے کا نام ہے- پس یہ استدعا ان صاحبان علم و ادب، علماء و دانش وران تجزیہ کاران و تجزیہ نگاران سے بھی ہے کہ امت کے زوال کے آپ کے سب فلسفے بجا، تمام تجزیئے سر آنکھوں پر، ناخواندگی،جہالت اور کم علمی کے خلاف فائیو سٹار ہوٹلز میں ہونے والے علمی مذاکرے، مجالس اور بڑے بڑے سیمینارز کی عظمت کو بھی سلام، مگر خدارا آج کے اس علمی اور شعوری قحط کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر کوئی اقدامات کریں، اور اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہماری اجتماعی معاشرتی زبوں حالی، انتشار،انحطاط پذیری اور زوال کی اصل وجہ دینی و عصری علوم کے حقیقی ماٰخذ سے نابلدیت، ناواقفیت اور ناآشنائی ہے-

Browse More Islamic Articles In Urdu