Open Menu

Riyasat E Madina Misali Riyasat Misali Farmane Rwa - Article No. 2976

Riyasat E Madina Misali Riyasat Misali Farmane Rwa

ریاست مدینہ مثالی ریاست مثالی فرمان روا - تحریر نمبر 2976

ریاست مدینہ کے ارباب حل وعقدکے پاس وہ کونسی جادوئی چھڑی یاالٰہ دین کاچراغ تھاکہ جس کی وجہ سے چاردانگ عالم ان کاباج گذارتھااورانکی ہیبت سے قیصروکسرٰ ی بھی لرزہ باندام تھے

Muhammad Sohaib Farooq محمد صہیب فاروق ہفتہ 2 فروری 2019

ریاست مدینہ کرّہ ارضی پرصرف مسلمانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ خالق ارض وسماء کی بھی آئیڈیل سرزمین ومملکت تھی کہ جہاں کے حاکم وچرواہے بھی ہمہ وقت اپنے انجام کوسامنے رکھتے تھے اورانکی زبان پر”فاین اللہ “کے زمزمے ہوتے تھے سلطنت وحکومت کی چکاچوند بھی ان کی نظروں کوخیرہ نہ کرسکی اورانکی دنیابھی انکودین پرعمل پیراہونے کے لئے معاون تھی بنی نوع انسان کیلئے انکی حیات وخدمات کے ہرپہلومیں رُشدوحیات مضمرہے اورانہیں ان نابغہ روزگارصادق وامین ہستیوں کی زندگی اورافعال وکردارکامطالعہ کرناچاہئے کہ ان کے اندروہ کونسی صفات اورخصوصیات تھیں کہ جن کی وجہ سے وہ ایک مثالی وعادل حکمران ٹھہرے اورآج تک دنیا ان کے اچھے کارناموں کی وجہ سے ان کو یادکرتی ہے دوراندیش قومیں اپنے شاندارماضی کی سنہری روایات کی امین ہوتی ہیں ریاست مدینہ کے ارباب حل وعقدکے پاس وہ کونسی جادوئی چھڑی یاالٰہ دین کاچراغ تھاکہ جس کی وجہ سے چاردانگ عالم ان کاباج گذارتھااورانکی ہیبت سے قیصروکسرٰ ی بھی لرزہ باندام تھے۔

(جاری ہے)

آئیے آج ہم ان امورکا بنظرغائرجائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلی اوربنیادی بات یہ ہے کہ دین اسلام میں خودکوامورسلطنت کی باگ ڈورسنبھالنے کیلئے پیش کرنا اوراپنے آپ کو اس کا اہل سمجھنا یہ مستحسن امرنہیں ہے چنانچہ ہم اپنے سب سے پہلے خلیفہ اورامیرالمئومنین سیّدنا ابوبکرصدیق کی زندگی کا جب مطالعہ کرتے ہیں توہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کو مسلمانوں کا متفقہ طورپر امیربنا دیا گیا توانہوں نے اس پرخوشی کااظہارنہیں کیابلکہ و ہ تین دن تک منبررسول ﷺپر بیٹھ کرلوگوں سے یہ کہتے رہے کہ میں اس عہدے کا اہل نہیں ہوں کسی دوسرے کویہ منصب عطاکردو۔
ایک موقع پرفرمایااللہ کی قسم دن یاکسی رات بھی یعنی زندگی بھر کبھی میرے دل میں امارت کی تمنّا پیدانہیں ہوئی اورنہ اسکی خواہش ہوئی اورنہ میں نے کبھی اللہ تعالی سے امارت کو چھپ کریاعلی الاعلان مانگا۔اوراپنے مرض الوفات میں فرمایا اے کاش خلافت کا بوجھ سقیفہ بنی ساعدہ کے دن حضرت ابوعبیدہ بن جراح یا حضرت عمرفاروق میں سے کسی کے کاندھے پرڈال دیاجاتا۔
حضرت رافع طائی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کبھی امیر نہ بننا پھر فرمایا کہ یہ امارت جو آج تمہیں ٹھنڈی اورمزیدارنظرآرہی ہے عنقریب یہ پھیل کراتنی بڑھے گی کہ نااہل لوگ بھی اسے حاصل کرلیں گے۔ جوبھی امیربنے گااس کا حساب سب لوگوں سے لمبا ہوگا اس پرعذاب سب سے زیادہ سخت ہوگا اورجوامیرنہیں بنے گااس کا حساب سب سے آسان اورعذاب سب سے ہلکا ہوگا۔
فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امراء (حکمرانوں)کومسلمانوں پرظلم کرنے کے سب سے زیادہ مواقع ملتے ہیں اورجومسلمانوں پر ظلم کرتا ہے وہ اللہ تعالی کے عہد کوتوڑتاہے اس لئے کہ یہ مسلمان اللہ تعالی کے پڑوسی اوربندے ہیں۔اللہ کی قسم تم میں سے کسی کے پڑوسی کی بکری یااونٹ پرکوئی مصیبت آتی ہے یا اسے کوئی ماردے یاستائے تواس پڑوسی کی ہمدردی اورحمایت میں غصّہ کی وجہ سے ساری رات اس کے پٹّھے پھولے رہتے ہیں اورکہتا رہتاہے کہ میرے پڑوسی کی بکری یااونٹ پرفلاں مصیبت آئی۔
جب انسان اپنے پڑوسی کی وجہ سے اتنا غصّہ میں آتا ہے تواللہ تعالی اپنے پڑوسی کی خاطرغصّہ میں آنے کے زیادہ حقدارہیں۔دوسری بات یہ کہ امیر یعنی حکمران کو کن صفا ت سے متصف ہونا چاہئے تو اس سے متعلق حضرت ابوبکرصدیق نے اپنے آخری خطبہ کے اندریوں فرمایا۔ اس امرخلافت کا بوجھ وہی اٹھا سکتا ہے جو تم میں زیادہ طاقت والاہواوراپنے نفس پر سب سے زیادہ قابوپانے والاہو۔
سختی کے موقع پرخوب سخت اورنرمی کے موقع پرخوب نرم ہو۔اورشورٰی والے اہل رائے کی رائے کوخوب جانتا ہو۔فضول باتوں میں مشغول نہ ہوتا ہو جوبات ابھی پیش نہ آئی ہواس کی وجہ سے غمگین وپریشان نہ ہو۔علم سیکھنے سے شرماتا نہ ہو۔اچانک پیش آجانے والے کام سے گھبراتا نہ ہو۔مال کے سنبھالنے میں خوب مضبوط ہو۔غصّہ میں آکر کمی زیادتی کرکے مال میں خیانت بالکل نہ کرے ورآئندہ پیش آنے والے امورکے لئے تیاری رکھے اوراحتیاط اورچوکنّاپن اوراطاعت خداوندی سے ہروقت آراستہ ہو۔
آپ نے خلافت ملنے کے بعد اپنے سب سے پہلے خطبہ میں یوں ارشادفرمایا۔مجھے تمہاراوالی بنادیاگیاہے حالانکہ میں تم۔میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔اگرمیں ٹھیک کام کروں توتم میری مددکرواوراگرمیں ٹھیک نہ کروں تو مجھے سیدھا کردینا۔سچائی امانتداری ہے اورجھوٹ خیانت ہے۔اورتمہاراکمزورمیرے نزدیک طاقتورہے وہ جوبھی شکایت میرے پاس لے کرآئے گا میں انشا ء اللہ اسے ضروردورکردوں گا۔
تمہاراطاقتور میرے نزدیک کمزورہے میں اس سے کمزورکاحق لے کر کمزورکوانشاء اللہ دوں گا۔جولوگ بھی جہاد فی سبیل اللہ چھوڑدیں اللہ تعالی ان پرذلّت مسلط کردے گا۔اورجولوگ بھی بے حیائی کی اشاعت کرنے لگ جائیں گے اللہ تعالی دنیا میں ان سب کوعام سزادیں گے۔ جب تک میں اللہ اوراس کے رسول ﷺکی بات مانتا رہوں تم بھی میری مانتے رہواورجب میں اللہ اوراس کے رسول ﷺکی نافرمانی کروں توپھرمیری اطاعت تم پرلازم نہیں ہے۔
خلیفہ ثانی امیرالمئومنین سیّدناعمرفاروق نے فرمایاکہ امرخلافت (حکومت)کے منصب پرفائز ہونے والے شخص میں چارصفات کا ہونا ضروری ہے پہلی یہ کہ اس میں نرمی ہولیکن کمزوری نہ ہو۔دوسری یہ کہ مضبوطی ہودرشتی نہ ہو۔تیسری یہ کہ سخی ہومگرفضول خرچ نہ ہو۔چوتھی یہ کہ احتیاط سے خرچ کرے مگرکنجوسی نہ کرے۔ ایک موقع پرارشاد فرمایاکہ خلافت کوسنبھالنے کی صرف وہی آدمی طاقت رکھتاہے جواپنی زبان سے ایسی بات نہ کہے جس کی وجہ سے اسے اپناعزم توڑناپڑے اوراپنی جماعت کے خلاف بھی حق کافیصلہ کرسکے ریاکاروں کی مشابہت نہ کرے لالچ میں نہ پڑے۔
اس میں اپنی عزت بنانے کاجذبہ نہ ہواورتیزی اورغصّہ کے باوجودحق کو نہ چھپائے۔ جسے مسلمانوں کے کسی امر کاذمہ داربنایاگیااسے قیامت کے دن لاکرجہنم کے پُل پرکھڑاکردیاجائیگااگراس نے ذمہ داری صحیح طرح ادانہ کی ہوگی توپُل اسے لے کرٹوٹ پڑیگااوراگرذمہ داری کواچھی طرح اداکیا ہوگاتووہ نجات پائیگا۔ حضرت عمرفاروق جیسے عظیم لیڈرکی پاکستان اورعالم اسلام کواشدّضرورت ہے کہ جن کا یہ کہنا تھا کہ فرات کے کنارے اگر کتابھی پیاسا مرگیا تومجھ سے اس کے بارے پوچھ ہوگی۔
آپ کے پاس جب کوئی وفدآتاتوان سے ان کے امیرکے بارے میں پوچھتے کہ کیاوہ بیمارکی عیادت کرتا ہے ؟کیا غلام کی بات سنتا ہے؟اگروفدوالے ان باتوں میں سے کسی کے جواب میں ”نہ“کہتے تواسے فورامعزول کردیتے۔رعایا کا انتہائی خیال رکھتے اوراس بات کی بھی وقتافوقتاتحقیق کرتے رہتے کہ آیاعوام النّاس ان کی حکومت سے رضامند ہے کہ نہیں چنانچہ جب آپ کو حالت نماز میں ابولوء لوء مجوسی نے نیزہ مارکرزخمی کردیاتوحضرت عمرفاروق  کوچونکہ حملہ آورکے بارے علم نہ تھا کہ وہ کون ہے لہذاآپ کو یہ خیال ہواکہ شایدلوگوں کے حقوق میں کوئی ایسی کوتاہی ہوئی ہے(جس کی وجہ سے مجھ پرحملہ ہوا)آپ کوحضرت ابن عباس سے بہت محبت اورقربت تھی فرمایا کہ تحقیق کروکہ آیا میرے اوپریہ قاتلانہ حملہ لوگوں کے مشورہ سے تونہیں ہواحضرت ابن عباس جب تحقیق حال کے بعدواپس آئے اورعرض کی امیرالمئومنین میں مسلمانوں کی جس جماعت کے پاس سے گذراوہی رورہی تھی اوروہ ایسے پریشان تھے گویاآج ان کا پہلابچہ گم ہوگیا ہو۔
حضرت عمرفاروق نے یہ سن کرارشادفرمایاتمام تعریفیں اس اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے میراقاتل ایسے آدمی کونہیں بنایاجو”لاالہ“کہہ کرمجھ سے حجت بازی کرسکے۔اسی طرح ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے فرمایاکہ میں تمھیں اللہ کی قسم دے کرپوچھتا ہوں مجھے غلط جواب نہ دیناورنہ مجھے اوراپنے آپ کوہلاک کردوگے۔ مجھے یہ بتلاؤکہ میں خلیفہ ہوں یابادشاہ ہوں۔
اگربادشاہ ہوں تویہ خطرے کی بات ہے۔حضرت سلمان نے جواب دیا کہ آپ خلیفہ ہیں اس لئے کے خلیفہ ہرچیزحق کی وجہ سے لیتا ہے اورحق میں خرچ کرتا ہے۔ اوربادشاہ لوگوں پرظلم کرتا ہے ایک سے زبردستی لیتا ہے دوسرے کوناحق دیتا ہے یہ سن کرحضرت عمرفاروق خاموش ہوگئے۔ دراصل امارت وحکومت کے حقیقی حقداریہی عظیم لوگ تھے کہ جنہوں نے اپنے عہدے اورمنصب کوانتہائی ذمہ داری اورامانتداری کیساتھ سرانجام دیا اوررعایا کے حقوق وفرائض میں ذرہ برابرکوتاہی نہیں کی یہ لوگ امانت, دیانت ,صداقت اورشرافت کے حقیقی علمبردارتھے جنہوں نے اپنے منصب سے اپنی ذات کے لئے بالکل فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اس اقتدارکوایک امانت سمجھ کرلیااور تادم آخردیانتداری کے ساتھ اس کونبھایا۔
ریاست مدینہ کی راہ پرگامز ن معاشرے کے ارباب اقتدارکے لئے ریاست مدینہ کے مثالی فرمانرواؤں کی مثالی زندگی مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں وہ اپنی منزل پرنہ صرف گامزن ہوسکتے ہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu