Open Menu

To Kya Hum Musalman Hain ? - Article No. 3413

To Kya Hum Musalman Hain ?

تو کیا ہم مسلمان ہیں؟ - تحریر نمبر 3413

کیا ہم ہی وہ اُمت محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں جن کے لیے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم راتوں کو رو رو کر دعائیں مانگا کرتے رہے ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ حقیتا تباہی کے آخری زینہ پر کھڑا ہے۔ ناپ تول میں کمی اب برائی تصور نہیں کی جاتی

جمعرات 7 مئی 2020

تحریر: سکالر السید غضنفر عباس

جیسا کہ ہم سب کے علم میں ہے کہ انسان اشراف المخلوقات ہے۔ اس بلند و بالا مقام ہی کی بدولت اللہ رب الکریم نے اس کی راہنمائی کے لیے اپنے انبیا ء و پیغمبر معبوث فرمائیں تا کہ اللہ کی سب سے اشرف مخلوق را ہ ہدایت سے منحرف نہ ہو سکے۔ تمام مذاہب کی اور ان کے پیشواوں کی آمد کا سلسلہ اپنے اپنے وقت و مدت تک چلتا رہا تب جا کہ نوبت اس مقام تک پہنچی کے سب سے اعلی و عرفا دین اسلام کا پرچار اس ختم ہوجانے والی دنیا میں ہوا۔


اسلام کی تبلیغ و ترویج کا یہ سلسلہ خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے کیا اور اس دین برحق کو کامل قرار دیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعے ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑِ ی سے بڑی بات ہو یا کام کو سر انجام دیا تا کہ حجت تمام ہو اور مستقبل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسوہ بطو ر راہنمائی کام آسکے۔

(جاری ہے)

اسلام کی تعلیمات میں دو طرح کے حقوق ( حقوق ربی اور حقوق العباد) کو کافی اہمیت سے روشناس کروایا گیا تاکہ دین اور دنیا دونوں میں توازن قائم رہے اور مسلمان کسی بھی صورت راہ ہدایت سے گمراہ نہ ہوسکے۔
حقوق ربی میں توحید، نماز، روزہ، زکوة، خمس اور حج شا مل ہیں جو عبادات تصور کی جاتی ہیں یہ وہ عوامل ہیں جن کا خالصتا تعلق انسان اور خدا کے درمیان ہے۔
اوران کی کوتاہی میں یقینا شدید ترین عذا ب بھی موجود ہے۔ لیکن ہم بطور مسلمان اللہ رب العزت کو الرحمن اور الرحیم ماننے پر کامل ایمان رکھتے ہوئے حقوق ربی کو بھی نہ صرف اُس کے معیا رسے گراتے ہیں بلکہ حقوق اللہ میں خیا نت کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔
دوسری طرف اسوہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں بھی خیانت کرتے ہوئے اپنا ثانی کسی کو نہیں رکھتے۔
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات تھیں کہ جھوٹ مت بولو، ناپ تول میں کمی مت کرو، شراب مت استعمال کرو، غیبت سے باز رہو، جوا مت کھیلو، پردے کا اہتمام کرو، فحاشی کا قلعہ قمع کرو، تہمت مت لگاو، عورت کی عزت کرو، بزرگوں کا احترام کرو اور دوسرے بہت سے حقوق جن کی آدائیگی کا لازم قرار دیا گیا تاکہ معاشرہ میں امن و بھائی چارہ قائم رہے۔
حسن اخلاق اپنانے کی تعلیم اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ یعنی یہ وہ اعمال ہیں جو کسی بھی عام مسلمان کو دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے اختیا ر کرنے ہوتے ہیں مگر اکثر یہ سوال میرے خیا ل کا طواف کیے جاتا ہے کہ ہم واقعی مسلمان ہیں۔ کیا ہم ہی وہ اُمت محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں جن کے لیے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم راتوں کو رو رو کر دعائیں مانگا کرتے رہے ہیں۔
آج ہمارا معاشرہ حقیتا تباہی کے آخری زینہ پر کھڑا ہے۔ ناپ تول میں کمی اب برائی تصور نہیں کی جاتی۔ ملاوٹ عام سا عمل کہلاتا ہے۔ شراب نوشی محافل کو چار چاند لگاتی ہیں۔
بے پردگی کو جد ت کا نام دیا جاتا ہے۔ زنا نہایت عام ہو اجا تاہے۔ گو کہ معاشرہ میں بزرگ کی قدر اور عورت کی چادر کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہی۔ کیا ہم ہی وہ امت ہیں جن کی بخشش کی دعائیں آج سے چودہ سو سال پہلے مانگی گئی تھیں؟ ہم واقعی اسلام کے دامن پر ایک بد نما داغ ہیں جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اس ہدایت کے چراغ سے دور رکھے ہوئے ہیں۔
غیر مسلم ان بے عمل مسلمانوں کے اعمال کو دیکھ کر دائرہ اسلام سے دور رہتے ہیں۔
آج بھائی بھائی کا دشمن ہے۔ دولت نے باپ بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کیا ہو اہے گو رشتہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔ تاجر جھوٹ کے ذریعے اپنے مال پر ناجائز منافع کمارہاہے۔ انا پرستی،مسلک پرستی،دولت پرستی اپنی عروج پر ہے۔جبکہ دین حق کا دور دور تک اس سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا واقعی ہم مسلمان ہونے کے قابل ہیں؟ کیا ہمارا معاشرہ اسلام کی صحیح ترجمانی کرتا ہے؟ کیا ہم ہی اُمت محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں؟ دعا ہے بارگاہ رب ذولجلال میں کہ ہیں ہدایت نصب فرمائیں اور حقیقی اسلام کی تبلیغ و تر ویج اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائیں۔ آمین

Browse More Islamic Articles In Urdu