نوازشریف کے پارٹی صدر بننے کا مطلب مزاحمتی بیانیہ نہیں ہے

ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خود اپنی حدود میں واپس چلی جائے، اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ لیڈرشپ بےلوث ہے ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ، اگر سیاستدان مل بیٹھیں گے تو وہ بھی واپس چلے جائیں گے۔ مرکزی رہنماء ن لیگ رانا ثناء اللہ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ پیر 29 اپریل 2024 23:48

نوازشریف کے پارٹی صدر بننے کا مطلب مزاحمتی بیانیہ نہیں ہے
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 29 اپریل 2024ء) مرکزی رہنماء ن لیگ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ نوازشریف کے پارٹی صدر بننے کا مطلب مزاحمتی بیانیہ نہیں ہے،ایسابھی ہوسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خود اپنی حدود میں واپس چلی جائے، اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ لیڈرشپ بے لوث ہے ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ، اگر سیاستدان مل بیٹھیں گے تو وہ بھی واپس چلے جائیں گے۔

انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم بنانے کا فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہیں۔ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ دینے کا مقصد ان کو عزت احترام دینا ہے، اگر یہ عہدہ نہ دیا جاتا تو باتیں ہوتی رہتی کہ وزیرخزانہ نہیں بنایا گیا تھا۔مفتاح اسماعیل کو اس لئے وزیرخزانہ بنایا گیا کہ اسحاق ڈار لندن میں تھے اور ان پر کیسز تھے، مفتاح اسماعیل بطور ٹیم ممبر اسحاق ڈار کے ساتھ کام کرتے رہے۔

(جاری ہے)

اب تو وزیراعظم کا اختیار تھا کہ انہوں نے اسحاق ڈار کو وزیرخزانہ کی بجائے وزیرخارجہ بنایا ، اسحاق ڈار ایک محنتی انسان ہیں، اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم بنانے کیلئے نوازشریف کی منظوری ضرور ہے۔ پارٹی کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا، جس میں نوازشریف کو قراردار ی منظوری کے ذریعے پارٹی صدر منتخب کیا جائے گا،سیکرٹری جنرل احسن اقبال ہیں، لیکن ان کے وزارت کے ساتھ پارٹی کی ذمہ داری نبھانا مشکل کام ہے، خواجہ سعد رفیق کو سیکرٹری جنرل بنانا، جیسے یہ عہدہ تھا ہی ان کیلئے۔

نوازشریف کے پارٹی صدر بننے کا مطلب مزاحمتی بیانیہ نہیں ہے، ایسابھی ہوسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی حدود میں واپس چلی جائے، ہم ضیاء الحق کے دور سے جمہوریت کی آزادی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، اگر یہ ہوجائے تو ضروری نہیں اس کیلئے مزاحمت ہی کرنی ہے، ہم جمہوری آزادی اور سول بالادستی چاہتے ہیں، کسی کے ساتھ لڑائی ہمارا مقصد نہیں۔ 2014میں ایک پراجیکٹ کو لایا گیا،لیکن یہ انہی کے گلے پڑگیا، پتا نہیں اسٹیبلشمنٹ کو کیا امید تھی،اب اس پراجیکٹ کو سمیٹنے پر لگے ہوئے ہیں، ہم تو چاہتے ہیں اس پراجیکٹ کو سمیٹا جائے اور باقی کو سیاست کرنے دی جائے۔

کیا عمران خان کو ہم نے 9مئی کرنے کا کہا تھا؟عمران خان کو ہائبرڈ سسٹم اور سوشل میڈیا یہ سب کچھ انہوں نے بنا کر دیا تھا۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر عمران خان ایک حقیقت ہے تو کیا ہم بھی کوئی چھوٹی سی حقیقت ہیں یا نہیں؟ کیا ہمارا بھی کوئی سیاسی وجود ہے یا نہیں؟ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو کہا تھا آپ ساتھ دیں ،میں نے ان کا صفایا کرنا ہے، ایک دوست ملک کے دورے سے واپس آکر کہا تھا کہ اگرمیرے پاس اختیار ہو تو میں نے 500لوگوں کو پھانسی لگانی ہے، وہ ہم لوگ تھے۔

اسٹیبلشمنٹ نے ساتھ نہیں دیا تو ان کے ساتھ لڑائی شروع کردی۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ لیڈرشپ کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ، بے لوث لوگ ہیں، ان کا مدت ملازمت میں توسیع کا بھی کوئی ایجنڈا نہیں ، اگر سیاستدان مل کر ملک کے راستے کا تعین کریں تو وہ واپس چلے جائیں گے۔ 

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں