پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض ترکی سے ہندوستان کیسے پہنچا؟چوڑی دار پاجامے اور نواب

شلوارترکی اور فارسی جبکہ قمیض عربی زبان کے الفاظ ہیں‘محمودغزنوی کی آمد سے قبل ہندوستان میں بغیر سلائی کے انٹاریا اور اوٹاریا پہنا جاتا تھا .ترک ادارے کا دلچسپ تحقیق مقالہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 17 اپریل 2024 15:01

پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض ترکی سے ہندوستان کیسے پہنچا؟چوڑی دار پاجامے اور نواب
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اپریل۔2024 ) شلوار قمیض پاکستان کا قومی لباس ہے لیکن شلوار قمیض کی تاریخ اور مختلف ادوار میں اس کے بدلتے کے انداز کے بارے میں جاننے والے شاذونادر ہی ملیں گے شلوار قمیض پاکستان اور بھارت کے کلچر کا اہم جز سمجھا جاتا ہے بلکہ اکثریت اسے برصغیرکا لباس سمجھتی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ترکوں کی وجہ سے شلوار قمیض ہندوستان میں متعارف ہوا.

(جاری ہے)

شلوار قمیض کی تاریخ پر ترکی کے سوشل سائنز جریدے کے تحقیقی مقالے کے مطابق سندھ تہذیب کے پوسٹ میڈک (600 قبل مسیح سے 1000 قبل مسیح تک کے دور) سے لے کر ہندوستان میں قائم مایورین سلطنت تک لوگ بغیر سلائی کے کپڑے پہنتے تھے زیریں حصے یعنی شلوار کی جگہ’ ’انٹاریا“ یعنی نچلا لباس اور شرٹ یا قمیض کی جگہ پہننے والے کپڑے کو‘ ’اوٹاریا“ کہا جاتا تھا اور انٹاریا کو باندھنے کے لیے استعمال ہونے والی ڈوری کو’ ’کایابندھ“ کہا جاتاتھا موجودہ دور میںبھارت اور پاکستان میں پہنے تہمد سے مماثلت رکھتا لیکن اب تہمدکے ساتھ سلا ہوا کرتا پہنا جاتا ہے.

تحقیقی جریدے کے مطابق مشرق وسطیٰ اور خطہ عرب میں جب اسلام پھیل گیا اور اسلام میں لباس کی خاص اہمیت کے باعث شلوار قمیض بھی مسلمانوں میں عام ہونا شروع ہو گیا شلوار قمیض پاکستانی گھروں تک کیسے پہنچا؟ مقالے میں لکھا گیا ہے کہ شلوار قمیض کی تاریخ پر بہت کم معلومات دستیاب ہیں لیکن مقالے میں اس کی تاریخ معلوم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے شلوار کو ترک زبان میں ”سلوار“ کہا جاتا ہے ترکی، عرب اور فارس میں سلوار ایک کھلا ٹراﺅزر، جسے ناڑے کی مدد سے باندھا جاتا ہے کو کہتے ہے جبکہ قمیض کا لفط عربی زبان سے نکلا ہے اور اس کا مطلب مختلف لمبائی والی شرٹ ہے اور اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لباس عرب یا فارس سے آیا ہے.

مقالے کے مطابق عرب لباس توب یا قمیض بھی اسی قسم کی ایک کھلی شرٹ ہے جو مرد زیادہ تر سلائی کے بعد سر سے ٹخنوں تک پہنتے ہیں اور ان کا یہ لباس یونانی دور سے ہے جو شام حتی کے جنوبی افریقہ میں بھی پہنا جاتا ہے سلجوق ترکوں نے وسطی ایشیا سے اٹھ کر ایران اور ایشیا میں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور گیارہویں صدی تک یہ سلسلہ چلتا رہا سلجوق ترکوں کا بھی شلوار قمیض کو مقبول کرنے میں اہم کردار رہا ہے اس کے بعد 16ویں صدی میں خلافت عثمانیہ قائم ہوئی تو خلافت عثمانیہ میں خواتین اور مردوں نے شلوار قمیض پہننا شروع کر دیا جس میں شلوار کو سلوار اور قمیض کو گملیک کہا جاتا تھا اور اس کے اوپر پہنے جیکیٹ کو کیبلیک کہا جاتا تھا ترکوں کی فتوحات کے سلسلے کے دوران وسطی ایشیا کے ممالک سے شلوار قمیض ترکوں کی جانب سے افغانستان اور ایران کے علاقوں میں بھی متعارف کرایا گیا.

شلوار قمیض کو 11ویں اور 12ویں صدی میں محمودغزنوی کے دور حکومت میں متعارف ہوا ابتدائی دورمیں یہ زیادہ تر مسلمانوں میں مقبول ہوا افغانوں اور مغلوں نے جب ہندوستان پر قبضے کا سلسلہ جاری رکھا 16 ویں صدی میں شلوار قمیض مغلیہ دور حکومت میں ہندوستان مقبول عام ہوا اس زمانے میں بغیر سلائی کے انٹاریا اور اوٹاریا پہنا جاتا تھا اور بغیر سلا انٹاریا اور اوٹاریا شاہی لباس ہوا کرتا تھا، سلا ہوا شلوار قمیض عام لوگوں میں مقبول تھا.

شلوار قمیض کے ہندوستان آنے کے بعد انٹاریا پائجاما یا شلوار میں تبدیل ہو گیا جبکہ اوٹاریا قمیض، کرتے، گگرا یا انگرخا میں سے تبدیل ہو گیا لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ آج کل کے دور میں ساڑھی انٹاریا اور اوٹاریا کی ہی ایک شکل ہے سنگاپور کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق بھارت میں شلوار قمیض مغلیہ سلطنت کے دوران مشہور ہوا اور زیادہ تر خواتین میں مقبول ہوا جبکہ 1980 کے بعد یہ اتنا مقبول ہو گیا کہ بعض سکولوں نے اس کو لڑکیوں کے لیے بطور سکول یونیفارم بھی متعارف کروا دیایہی لڑکیاں سکول سے یونیورسٹی تک شلوار قمیض کو بطور نونیفارم پہنتی تھیں جبکہ اس کو بھارتی پنجاب کا روایتی لباس بھی کہا جاتا ہے.

پاکستان کے بڑے شہروں میں شلوار قمیض کے علاوہ لوگ آپ کو جینز، پینٹ اور شرٹ میں تو دکھائی دیں گے لیکن دور دراز کے علاقوں میں آپ کو اکثریت شلوار قمیض یا تہمد اورکرتے میں ملبوس نظر آئے گی. ترکی کے انٹرنیشنل جریدے برائے سوشل سائنسز میں چھپے شلوار قمیض کی تاریخ پر مبنی تحقیق مقالے کے مطابق دریائے سندھ کے آس پاس آباد سندھ تہذیب 1700 تک ایک مضبوط تہذیب تھی اس تہذیب کے تاجروں کا اس وقت کے خلیج فارس کے ساتھ تعلق تھا اور آثار قدیمہ میں مردوں کے اس وقت کے چغے یا شال پہننے اور خواتین کے شارٹ سکرٹس پہننے کے ثبوت موجود ہیں جس کے ساتھ ہیڈ گیئر پہنا جاتا تھا .

سنگاپور کی سرکاری ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ دیگر ممالک کے طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ہندوستان سے سنگاپور آنے والی خواتین نے سنگاپور میں شلوار قمیض کو متعارف کروایا تحقیق مقالے کے مطابق شلوار قمیض جدید بھارت میں تو خاصا مقبول ہے لیکن بھارت کی مختلف ریاستوں میں آج بھی انٹاریا اور اوٹاریا پہنا جاتا جبکہ مرد آج بھی دھوتی پہنتے ہیں 1947 میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور بھارت تو الگ ملک بن گئے لیکن آج بھی بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کی تہذیب، لباس اور خوراک میں مماثلت پائی جاتی ہے پاکستان میں بھارت کی فیشن انڈسٹری اور بالی وڈ میں پہنے لباس کو اپنایا جاتا ہے جبکہ 2012 کے بعد بھارت میں بھی پاکستانی خواتین کے لباس کو پسند کیا جا رہا ہے شلوار قمیض کے برصغیر میں مشہور ہونے سے یہ تقریباً ہر گھر تک تو پہنچ گیا لیکن اس کے بعد شلوار اور قمیض دونوں کہ ہی مختلف شکلیں بننا شروع ہو چکا ہے.

سادہ شلوار کے لیے کپڑے کو ٹانگوں کے برابر دو حصوں میں کاٹا جاتا ہے اور پہننے والے کی خواہش پر اس کو کھلا یا تنگ سلائی کیا جاتا ہے یہ سادہ شلوار پاکستان کے شلوار قمیض لباس فیشن میں خاصا مقبول ہے اور ملک بھر میں زیادہ تر آپ کو لوگ یہی کھلا شلوار پہنے نظر آئیں گے‘ پٹیالہ شلوار انڈیا کے پٹیالہ شہر میں متعارف کروائی گئی اور یہ خواتین کی شلوار کا ڈیزائن ہے پٹیالہ کے اس وقت کے بادشاہ نے شاہی لباس متعارف کروایا تھا جس میں پٹیالہ شلوار بھی شامل تھی یہ شلوار کھلی شلواروں کی ایک قسم ہے جس کو بہت زیادہ کھلا بنایا جاتا ہے اور پنڈلیوں تک بہت زیادہ کھلا اور اس کے بعد پاﺅں تک تنگ سیا جاتا ہے بہت زیادہ کھلی سلائی کی وجہ سے اس شلوار پر عام شلوار کے نسبت دوگنا کپڑا استعمال کیا جاتا ہے.

چوڑی دار شلوار یا پاجامہ یہ چوڑیوں کی طرز پر بنی شلوار ہوتی ہے یعنی اوپر کے حصے کو چوڑی کی طرح بنایا جاتا ہے اور کولہے سے لے کر ٹخنوں تک بالکل سیدھا اور تنگ بنایا جاتا ہے اسی طرح کولہے اور ران سے لے کر ٹخنوں تک فٹ شلوار”سلم پینٹ“کہلاتی ہے پاکستان میں آج کل بڑے برینڈز نے کرتوں اور قمیض کے ساتھ یہی شلوار متعارف کروا رکھی ہے پلازوز پاکستانی سٹائل کی شلوار سمجھی جاتی ہے اور پاکستان میں مقبول بھی ہے یہ شلوار کولہوں سے لے کر ٹخنوں تک بالکل کھلی بنائی جاتی ہے اسی طرح قمیض کی بھی مختلف قسمیں متعارف کروائی جا چکی ہیں جن میں سادہ قمیض، کرتا، کالی دار کرتا، انارکلی قمیض اور انگرخا شامل ہیں سادہ قمیض تو ہر کسی نے دیکھی ہو گی جو گھٹنوں تک پورے بازو کے ساتھ بنائی جاتی ہے اور بطور شرٹ پہنی جاتی ہے کرتا قمیض کی ہی ایک شکل ہے لیکن اس میں کولہے اور ران کی جگہ پر قمیض کی طرح ڈیزائن نہیں بنایا جاتا ہے بلکہ سیدھا اور چوکور بنایا جاتا ہے کالی دار کرتا یہ بھی قمیض کی ایک شکل ہے اور پاکستان میں اس کو فراک بھی کہا جاتا ہے جو خواتین میں خاصا مقبول ہے انارکلی قمیض کا نام مشہور رقاصہ انارکلی کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ فراک کی طرح ہی بنایا جاتا ہے جس کی لمبائی ٹخنوں تک ہوتی ہے اور اس کو زیادہ تر چوڑی دار شلوار کے ساتھ پہنا جاتا ہے انگرخا سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کی معنی ہے بدن کی حفاظت اور یہ قمیض مغل دور میں پہنے جانے والے ترک لانگ کوٹ سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے اس کو کھلا بنایا جاتا ہے اور دائیں یا بائیں کندھے کے ساتھ اس کو بٹن یا کسی اور چیز سے باندھا جاتا ہے.


لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں