کسان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ،مکمل سپورٹ کرینگے، گندم کی امدادی قیمت 3900روپے من مقرر کی گئی ‘ حکومت کا ایوان میں پالیسی بیان

ہمیں معلوم ہے باردانہ کتنا ہونا چاہیے ،کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی بھی تیار ی ہے ،23لاکھ میٹرک ٹن گندم موجود ہے‘ وزیر خوراک گندم خریداری پالیسی پر نظر ثانی کی جائے، بھارت کی طرح پاکستان میں بھی کسان آڑھتی کی وجہ سے خود کشی پر مجبور ہو جائیگا ‘ اپوزیشن اراکین سابق حکومت کے انصاف آفٹر نون سکول منصوبے کے تحت 20لاکھ گھوسٹ بچوں کااندراج کیا گیا‘ وزیر تعلیم کا ایوان میں انکشاف

منگل 16 اپریل 2024 20:30

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اپریل2024ء) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خوراک بلال یاسین نے گندم خریداری کے حوالے سے پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اسے مکمل سپورٹ کریں گے، گندم کی امدادی قیمت 3900روپے فی من مقرر کی گئی ہے جبکہ صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے سابق حکومت کے انصاف آفٹر نون سکول منصوبے کے تحت 20لاکھ گھوسٹ بچوں کے اندراج کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ پنجاب حکومت اپنی تعلیمی پالیسی کا اعلان آئندہ ماہ کرے گی، اجلاس کے آغاز پر وزیر تعلیم اور سیکرٹری تعلیم کی ایوان میں عدم موجودگی پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ، ایوان نے مفاد عامہ کی دو قراردادیں بھی منظور کر لیں۔

(جاری ہے)

اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا گیا پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت کی بجائے 2 گھنٹے 15 منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر چوہدری ظہیر اقبال چنڑ کی صدارت میں شروع ہوا۔اجلاس میں آغاز میں ایوان میں مستونگ ،نوشکئی سمیت حالیہ دہشتگردی کے واقعات میں شہید ہونے والوں کی روح کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرائی گئی۔اجلاس میں محکمہ سکولز ایجوکیشن سے متعلقہ سوالات کے جوابات دئیے جانے تھے تاہم صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات اور سیکرٹری تعلیم کے ایوان میں موجود نہ ہونے پر حکومتی اوراپوزیشن نے احتجاج کیا ۔

چیئر نے کہا کہ یہ اچھی روایت نہیں وزیر تعلیم اور نہ ہی سیکرٹری تعلیم ایوان میں موجود ہیں ، ایوان میں بیٹھے ممبران کی سیکرٹریز سے زیادہ عزت ہے ۔صوبائی وزیر خزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ پہلے زیرو آور لے لیں،اس وقت تک وزیر تعلیم کے بارے میں معلومات لے لیتے ہیں ۔ قائد حزب اختلاف احمد خان بھچر نے کہا کہ وزراء اور سیکرٹریز چیئر کو سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں، یہ اچھی روایت نہیں ہے ،جس پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ایوان میںمتعلقہ محکموں کے وزراء اور سیکرٹریزبھی ایوان میں موجود ہوں، ایوان میں معزز ارکان بیٹھے ہیں ،سب کو شدید تحفظات ہیں ۔

کچھ دیر بعد وزیر تعلیم رانا سکندر حیات ایوان میں پہنچ گئے اور تاخیر سے آنے پر معذرت کی ۔ انہوں نے بتایا کہ غیر ملکی وفد سے ملاقات کی وجہ سے تاخیر ہوئی ،میں اور ایڈیشنل سیکرٹری بھی حاضر ہیں۔وقفہ سوالات کے دوران حکومتی رکن سمیع اللہ خان بیوروکریسی پر برس پڑے اور کہا کہ یہ بڑی ہی بد قسمتی کی بات ہے کہ بیوروکریسی ایوان کو سنجیدہ ہی نہیں لے رہی، معزز رکن نے سادہ سا سوال کیا ہے کہ محکمہ نے جو بتایا ہے کہ 99فیصد مسنگ فیسلٹی پوری کردی ہیں اس کا جواب دیا جائے تو محکمہ کے پاس اس کی تفصیل ہی نہیں ہے، محکمہ کی نااہلی کے باعث وزیر تعلیم اور ایوان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے ایوان کو بتایا کہ ہماری حکومت آئندہ ماہ اپنی تعلیمی پالیسی جاری کردے گی اس پر بڑی باریک بینی سے کام جاری ہے۔ سرکاری سکولوں میں تین ماہ میں دوپہر کی شفٹ میں بہتری لا رہے ہیں،صبح کے ٹیچرز کو دوپہر میں پڑھانے کیلئے تنخواہ دیدی جاتی ہے ۔انصاف آفٹر نون سکول منصوبے پر وزیر تعلیم نے کہا کہ اپوزیشن والے جوتالیاں بجارہے ہیں انہی کے وزیر تعلیم مراد راس نے آفٹر نون پالیسی دی تھی، اس وقت وزیر اعلی عثمان بزدار اور بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے، وزیر تعلیم کے ریمارکس پر اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے۔

وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے انکشاف کیا کہ انصاف آفٹر نون سکولوں میں سوا کروڑ میں سے 20لاکھ بچوں کی گھوسٹ انرولمنٹ تھی ،ماضی کی حکومت نے تعلیم کے شعبے میں کوئی کام نہیں کیا۔وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے آتے ہی سکولز میں سہولیات کے فقدان کا نوٹس لیا ۔اپوزیشن کے رکن اسمبلی حسن بٹر کے سوال کے جواب میں وزیر تعلیم نے کہا کہ لڑکیوں اور لڑکوں کیلئے ہر یونین کونسل میں ہائی سکول ہونا چاہیے جس کیلئے کام کررہے ہیں، ایلیمنٹری سکولز ضرور بنائیں گے لیکن سرکاری سکولوں کیلئے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں،پنجاب میں 700 سکولز ایسے ہیں جن کی آٹھ سال سے عمارت تو بنی ہے لیکن بہت سی وجوہات کی وجہ سے کلاسز کا آغاز نہیں ہو سکا۔

انہوں نے دعو یٰ کیا کہ تعلیمی ایمرجنسی دنیا بھر میں ہے ،اس ستمبر میں ہر سکول میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرکے دیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں حکومت نے دی پرونشل اسمبلی آف دی پنجاب لازترمیمی بل 2024کثرت رائے سے منظور کرلیا،اس بل کی منظوری کے بعد پنجاب اسمبلی میں سیکرٹری جنرل کا تقرر کر دیا گیا ،قومی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل کی طرز پر اب پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری کا عہدہ بھی سیکرٹری جنرل کہلائے گا ،موجودہ سیکرٹری پنجاب اسمبلی عامر حبیب کو پنجاب اسمبلی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا جو گریڈ 22کے حامل افسر ہوں گے ۔

پنجاب اسمبلی پرائیویٹ ممبر ڈے کے موقع پر لیگی رکن اسمبلی موتیا بیگم کی مفاد عامہ سے متعلق قرارداد منظور کرلی گئی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے اوراس میں سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم و دیگر عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم کا بندوبست کیاجائے، بابا فرید یونیورسٹی میں فارغ التحصیل طلباو طالبات کیلئے روزگار کا حصول آسان ہو۔

اجلاس میں ضلع منڈی بہائوالدین میں دانش سکول س کی تعمیر سے متعلق قرارداد بھی منظور کر لی گئی۔پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں گندم کی خریداری کے حوالے سے عام بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خوراک بلال یاسین نے کہا کہ ابھی بار دانہ کی تقسیم شروع نہیں ہوئی تو پٹواری کیسے تقسیم کررہے ہیں، گندم کی امدادی قیمت 3900روپے ہے ، پنجاب سب سے بڑی فوڈ باسکٹ ہے،سندھ کوپنجاب سے 20فیصد گندم دیتے ہیں تو وہ اپنی مرضی سے امدادی قیمت کچھ بھی رکھ سکتے ہیں، پنجاب میں سب سے زیادہ گندم پیدا ہوتی ہے ، نگران حکومت نے گندم خریداری کے لئے لیا گیا قرضہ واپس کیا ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ باردانہ ایپلیکیشن متعارف کروائی ہے تو پڑھے لکھے لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔کین کمشنر کو ہدایت دوں گا کہ اگر کسی شوگر مل نے پیسے دینے ہیںتو دلوائے جائیں،اعتماد سے کہتا ہوں کہ کسان کو سپورٹ دیں گے،ہمارے پاس پلاننگ بھی ہے ،کسان کارڈ لانچ کریں گے تو کھاد کے مسئلہ کا بھی حل نکالا جائے گا،گندم خریداری کے لئے بینکوں سے قرضہ لینا ہوتا ہے ،عید کی وجہ سے ایک دن کی تاخیر ہوئی لیکن چیزیں طے ہو گئی ہیں،کاشتکار کیلئے ان پٹس مہنگی ہوئی ہیں اس لئے امدادی قیمت 3900روپے رکھی ہے ،ہمیں معلوم ہے باردانہ کتنا ہونا چاہیے ،2.5ملین ٹن کا باردانہ ہمارے پاس موجود ہے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی بھی تیار ی ہے ،23لاکھ میٹرک ٹن گندم ہمارے پاس موجود ہے،ہمیں پاکستانی بن کر سوچنا ہے،ہمیں قطعی ایک دوسرے کونیچا دکھانے کے چکر میں نہیں ہونا چاہیے،3 لاکھ 61ہزار درخواستیں ہمارے سسٹم میں آچکی ہیں،گندم خریداری کے لئے 400 قریب سنٹرز بنے ہیں،گندم اپریل کے شروع میں آنا شروع ہوجاتی ہے،ابھی بارش کا موسم ہے ، کسان نے سنٹرز کا رخ نہیں کیا ہے،ہم نے ٹول فری نمبرز بھی متعارف کروائے ہیں۔

وزیر خوراک بلال یاسین نے کہا کہ ،روٹی اور نان کی قیمتوں کو دیکھ رہے ہیں،بڑے عرصے بعد پہلی بار ہوا ہے عوام خوش ہیں کہ روٹی 16روپے کی ہوئی ہے،میں نے ڈی سیز اور کمشنرز کو کہہ دیا ہے کہ روٹی 16روپے میں فروخت ہونی چاہیے۔قبل ازیں اپوزیشن کی جانب سے رانا آفتاب احمد نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کاش بلال یاسین زمیندار ہوتے تو کسانوں کا درد سمجھتے ،ہمارے ہاں بھارت سے زیادہ بہتر زرعی آلات اور زرعی زمین تھی لیکن کچھ لینڈ مافیا نے گرین لینڈ کو برائون لینڈ بنا دیا ہے،زمیندار کو حکومت نے کوئی ریلیف نہیں دیا ،پنجاب حکومت کسان سے ہر صورت گندم خریدے ،نگران حکومت نے گندم کیوں درآمد کی،16 روپے کی روٹی کا نعرہ لگایا یہ 16والی روٹی تو کوئی اپنے جانوروں کو بھی نہیں ڈالتا،،شوگر کین مافیا کی طرح گندم مافیا بھی بن جائے گا ،زمینداروں کو خوشحال کریں،ڈیزل کی قیمت ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے، معاشرے میں خیرات سے نہیں انصاف سے بہتری آئے گی۔

رکن اسمبلی تیمور لالی نے کہا کہ مڈل مین کو نکال کر زمیندار سے براہ راست گندم خریدنی ہوگی۔قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچر نے کہا کہ ہم کہنے کو تو زرعی صوبہ ہیں لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں،اگر گندم سنٹرپر پٹواری بیٹھے گا اوراپنے رشتہ داروں کو بار دانہ دے گا توآڑھتی تو 70فیصد گندم وہیں دیدے گا،ڈیزل سے زراعت متاثر ہوتی ہے ،8روپے مزید ڈیزل پر بڑھا دئیے گئے ہیں جو کسان پر ظلم کرنے کے مترادف ہے،چیلنج کرتاپنجاب میں 2800روپے سے 3200 روپے فی من تک گندم فروخت کی جا رہی ہے، گندم کی امدادی قیمت کا بہترین وقت نومبر اکتوبر ہوتا ہے ، یاد رکھیں اکتوبر ،نومبر میں گندم کا بحران آ جائے گا کیونکہ فلور ملز کوگندم خریداری کی اجازت دیدیگ ئی ہے ،فلور ملز کبھی بھی اس موسم میں گندم نہیں خریدتی ،گندم مافیا 2500 روپے سے 3000 فی من گندم خریدے گا جس سے مسائل پیدا ہوں گے،اکتوبر نومبر میں گندم کا شارٹ فال پیدا ہوجائے گا، کسان چار قسم کے زراعت پرٹیکس دے رہے ہیں ،نوے من سے زیادہ باردانہ نہیں دے رہے جو افسوسناک ہے،ہم حکومت کی گندم پالیسی کو مسترد کرتے ہیں اگر کسان احتجاج کریں گے تو پی ٹی آئی ساتھ کھڑی ہوگی،حکومت کی کسان دشمن پالیسی ہے۔

رکن اسمبلی قیصر سندھو نے اپنے خطاب میں کہا کہ گندم کی امدادی قیمت 5ہزار روپے فیمن ہونی چاہیے ،لاہور میں بیٹھ کر کس طرح کے فیصلے کررہے ہیں ،ادویات کھادیں مہنگی ہوگئی ہیں۔رکن اسمبلی رانا محمد سلیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ گندم پالیسی پر نظر ثانی کی جائے ،کسانوں کو ساتھ بٹھا کر حل نکالیں ۔ اپوزیشن رکن اسمبلی حسن بٹر نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت کی طرح میں پاکستان میں بھی کسان آڑھتی کے ہاتھوں برباد ہوکر خود کشیوں پر مجبور ہوجائے گا، سندھ میں گندم کی امدادی قیمت 4200 روپے مقرر کی گئی ہے یہی قیمت پنجاب میں بھی دی جائے۔

رکن اسمبلی اعجاز شفیع نے کہا کہ حکومتی پالیسی جھوٹ کا پلندہ ہے جس سے حکومتی لوگوں نے بھی اتفاق نہیں کیا، پی ٹی آئی نے ہمیشہ کاشتکار کی بات کی تو ہمیں خاموش کروا دیا گیا،5600روپے من گندم باہر سے خریدی گئی،یہ کسان دوست نہیں کسان دشمن حکومت ہے ۔رکن اسمبلی وقاص مان نے کہا کہ بہت سے کسان زمین کے مالک نہیں ہے بلکہ ٹھیکے پر زمین لیتے ہیں بجلی ڈیزل کی قیمتیں زیادہ ہیں اب حکومت کہتی ہے گندم خریدیں گے لیکن یہ نہیں بتایا کس قیمت پر خریدیں گے۔

رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے اپنے خطاب میں کہا کہ گندم کے حمام میں سارے ننگے ہیں پوچھا جائے کہ فروری میں دس جہاز گندم کے کیوں منگوائے گئے۔کسان کو پچاس فیصد قیمت اب اور پچاس فیصد بعد میں دیدی جائے اس پر سب کا اتفاق ہوگا۔رکن اسمبلی صلاح الدین کھوسہ نے کہا کہ حکومت گندم پالیسی پر نظر ثانی کرے ،کاشتکاروں نے اپنی پیداوار بڑھائی ہے اگر حکومت گندم نہیں خرید سکتی تو دوسرے ملکوں کی طرح برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔سپیکر نے ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں