اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تکمیل

سال دو ہزار بیس، چین میں انسداد غربت کی تکمیل کاعرصہ بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ چین کی اعلیٰ قیادت وبا کی روک تھام کے ساتھ ساتھ غربت کے خاتمے کے لیے جاری اقدامات کی کڑی نگرانی کر رہی ہے

Shahid Afraz شاہد افراز خان جمعہ 29 مئی 2020

aitadal pasand khushaal muashray ki takmeel
حال ہی میں اختتام پزیر ہونے والی چین کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی "دو اجلاسوں" کے دوران سیاسی قیادت نے رواں برس ہر اعتبار سے ایک اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تعمیر کا عزم ظاہر کیا ہے جس میں غربت کے خاتمے، روزگار کی دستیابی اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو اولین ترجیح حاصل رہے گی۔سال دو ہزار بیس، چین میں انسداد غربت کی تکمیل کاعرصہ بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ چین کی اعلیٰ قیادت وبا کی روک تھام کے ساتھ ساتھ غربت کے خاتمے کے لیے جاری اقدامات کی کڑی نگرانی کر رہی ہے۔


غربت کے خاتمے کی کوششوں میں جن شعبہ جات پر زیادہ توجہ مرکوز کی جائے گی ان میں صنعتی ترقی کا فروغ اور روزگار کی مستحکم فراہمی نمایاں عوامل ہیں۔چینی صدر شی جن پھنگ جب بھی اقتصادی سماجی ترقی کی بات کرتے ہیں تو اس میں انسداد غربت اُن کی بات چیت کا کلیدی نکتہ رہتا ہے۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں یہ ہدف طے کیا گیا ہے کہ ہر اعتبار سے ایک اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تکمیل کے سفر میں کوئی ایک بھی قومیت،خاندان یا فرد غربت کا شکار نہ رہے اور ترقی کے عمل میں شامل رہے۔

دو ہزار تیرہ میں شی جن پھنگ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسداد غربت میں ایک" ٹارگٹڈ اپروچ" اپنائی جائے۔اس مہم کے دوران اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ سرکاری حکام غربت کے شکار افراد کو نہ صرف امداد فراہم کریں بلکہ ایسے ذرائع تلاش کریں جس سے پائیدار آمدنی کامستقل حصول ممکن ہو سکے۔مربوط اور موثر پالیسی سازی سے غربت کے خاتمے کی کوششوں کو مخصوص حالات اور جغرافیے سے ہم آہنگ کیا گیا اور بلند و بانگ نعروں یا دعووں سے اجتناب کرتے ہوئے عملی
اقدامات پر توجہ مرکوز کی گئی۔

صدر شی جن پھنگ نے غربت کے شکار دیہی علاقوں کا خود دورہ کیا،انسداد غربت سے متعلق اہم اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے رہنماء ہدایات جاری کیں اور نچلی سطح پر فعال حکام اور شہریوں کی حوصلہ افزائی کی تاکہ غربت سے چھٹکارہ پایا جا سکے۔ دو ہزار بارہ میں چین بھر میں غربت کے شکار افراد کی تعداد تقریباً نوکروڑ سے زائد تھی جس میں سالانہ بنیادوں پر کمی لاتے ہوئے سال دو ہزار انیس کے اواخر تک یہ تعداد صرف پچپن لاکھ تک رہ گئی ہے۔

دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے تحت لوگوں کی جدید سہولیات سے آراستہ علاقوں میں منتقلی سمیت انہیں ذرائع آمد و رفت، تعلیم،ٹیلی مواصلات،طب،بجلی،شفاف پانی سمیت دیگر بنیادی ضروریات زندگی بھی فراہم کی گئیں۔
بلاشبہ چین رواں برس انسداد غربت کے حوالے سے ایک تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ایک ایسا ملک جس کو کئی دہائیوں سے غربت کا سامنا رہا ہے، اس وقت وہ غربت کے مکمل خاتمے کے سنگ میل کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین میں اصلاحات اور کھلے پن کے گزشتہ چالیس برسوں کے دوران 80 کروڑ سے زائد افراد کو غربت کی لکیر سے باہر نکالا گیا ہے جو مجموعی طور پر دنیا کا ستر فیصد سے زائد ہے۔سال دو ہزار بارہ میں شروع ہونے والا یہ سفر گزشتہ سات برسوں سے مسلسل جاری ہے، اس دوران غربت کی شرح کو 10.2 فیصد کی سطح سے 0.6فیصد کی سطح تک لایا گیا ہے۔
عالمی ماہرین بھی چین کی اس کامیابی کو جدید انسانی تاریخ میں ایک معجزہ قرار دیتے ہیں۔

چینی قیادت کی خوبی یہ بھی رہی کہ انسداد غربت کی مہم میں کبھی نرمی نہیں لائی گئی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی غیر ذمہ داری یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔اس وقت عالمگیر وبائی صورتحال کے دوران بھی چینی حکومت ایسی معاون پالیسیاں ترتیب دے رہی ہے جس سے ایک جانب جہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ غربت کا مکمل خاتمہ کیا جائے تو دوسری جانب غربت سے نجات پانے والے افراد کے دوبارہ غربت کی دلدل میں پھنسنے کے خطرات کا بھی تدارک کیا جائے گا۔

دیہی باشندوں کو روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ طبی سہولیات،معیاری رہائش اور دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ اگرچہ وبا کے باعث چین میں انسداد وباکی کوششیں متاثر ضرور ہوئی ہیں لیکن چینی حکومت نے انسداد غربت کے ہدف میں
کوئی ترمیم نہیں کی ہے جس کا مطلب اقدامات میں تیزی لاتے ہوئے فیصلہ کن منزل کاحصول ہے۔

دنیا کے کئی ممالک انسداد غربت کے لیے جہاں چین کے اقدامات کو سراہتے ہیں وہاں چین کے تجربات سے سیکھنے کے بھی متمنی ہیں۔ اقوام متحدہ کے دو ہزار تیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں غربت کا خاتمہ بھی ایک اہم ہدف ہے، اگر چین رواں برس یہ ہدف حاصل کر لیتا ہے تو دس برس قبل منزل مقصود کا حصول یقیناً ایک تاریخی سنگ میل ہو گا۔چین نے دنیا کو بتایا کہ کیسے اقتصادی سماجی پالیسی سازی سے کروڑوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے نکالتے ہوئے ترقی کا سفر جاری رکھا جاسکتا ہے۔

غربت کے خاتمے کی کوششوں میں عوام کی مستحکم طویل المدتی خوشحالی بھی چین کی پالیسی کا مرکزی نکتہ رہی ہے۔دیہی علاقوں میں مقامی صنعتوں کی ترقی کو اہمیت دی گئی اور زراعت سمیت چھوٹے پیمانے پر کاروبار کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ عام طور پر لوگوں کی اپنے آبائی علاقوں سے دیگر مقامات پر منتقلی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر چینی حکومت کے مثبت اقدامات کی بدولت لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔

لوگوں کی آبادکاری کے ساتھ ساتھ انہیں روزگار اور فنی تربیت بھی
فراہم کی گئی ہے۔ زرعی سیاحت،سبزیوں پھلوں کی کاشت، مویشی بانی، مقامی دستکاریوں سمیت انسداد غربت سے وابستہ دیگر صنعتوں کو ترقی دی گئی تاکہ شہریوں کی مستقل آمدن کا بہتر انتظام کیا جا سکے۔
اگرچہ چینی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ دیہی علاقوں میںآ بادی ایسے افراد پر بھی مشتمل ہے جن کے پاس ہنر مند یا پیشہ ورانہ صلاحیتیں محدودہیں ، معمر اور معذور افراد بھی آبادی میں شامل ہیں، بعض علاقوں میں قدرتی وسائل کم ہیں اور کچھ علاقوں میں قدرتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے مسائل موجود ہیں لیکن ان تمام چیلنجز کے باوجود چینی قیادت کی جانب سے گزشتہ تین
چار دہائیوں کے دوران کیے جانے والے اقدامات کی روشنی میں وثوق سے کہا جا سکتاہے کہ چین غربت کے مکمل خاتمے کی کوششوں کا ہدف حاصل کر لے گا۔

چینی قیادت کی جانب سے غربت کے خاتمے کی کوششوں میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا تبادلہ دنیا کے ترقی پزیر ممالک سے بھی جاری ہے کیونکہ چین کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک بھی عالمی ترقی کے عمل میں شامل ہو سکیں اور غربت کا خاتمہ کیے بغیر اقوام متحدہ کے دو ہزار تیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول بھی نا ممکن ہے۔چین نے ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے غربت کو شکست دی ہے جو یقینی طور پر جہاں لائق تحسین ہے وہاں پاکستان سمیت دیگر کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ترقی پزیر اورپسماندہ ممالک اپنی سماجی خصوصیات کے تحت چینی ماڈل سے سیکھتے ہوئے غربت کے خاتمے سے اپنے عوام کو خوشحالی کی جانب لے جا سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

aitadal pasand khushaal muashray ki takmeel is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 May 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.