علامہ اقبال ایک سچے عاشق رسولﷺ

آپ کے فارسی کلام میں بھی عشق رسول میں ڈوبے ہوئے اشعار ملتے ہیں ، ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ حضور کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کردو اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کو اپنا شعار بنا لو تو تمہیں ایسی قوت حاصل ہوجائے گی کہ بحر و بر پر تسلط قائم ہوجائے گا

 Waheed Ahmad وحید احمد ہفتہ 9 نومبر 2019

allama Iqbal aik sacha ashiq rasool
9 نومبر 1877 کو آج سے 142 سال قبل ٹھیک آج ہی کے دن سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر ایک بچے نے جنم لیا، ماں باپ نے اس بچے کو محمد اقبال کا نام دیا، کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کہلائے گا اور رہتی دنیا تک شرق و غرب میں امر ہو جائے گا۔برصغیر میں راہ دکھانے والے ستارے کی مانند طلوع ہونے والی اس شخصیت نے اپنی شاعری کا ایسا سحر دنیا پر طاری کر دیا کہ شاعرِ مشرق ہونے کے باوجود مغرب میں بسنے والے مفکر اور شاعر بھی انکی سخن گوئی پر سر دھننے لگے۔

مسلمانان برصغیر کے لیے انہوں نے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تو مصور پاکستان کہلائے اس کے علاوہ دنیا نے انہیں شاعرِ مشرق، حکیم الامت ، ترجمانِ حقیقت، مفکر ِ اسلام، ترجمانِ اسلام اور مجددِ عصر کے القابات سے بھی نوازا۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال نے اپنی پر اثر شاعری کی بدولت برصغیر پاک و ہند کے مسلمانان کو خوابِ غفلت سے جگایا اور ان میں آزادی کی جدوجہد کے لیے ایک ولولہء تازہ بیدار کیا۔

 
علامہ اقبال ایک عظیم المرتبت شاعر اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سچے عاشق رسولﷺ بھی تھے، ان کے قول و فعل اور شاعری سے بھی عشق رسول چھلکتا تھا۔علامہ اقبال کو حضور سرور کائنات سے بے پناہ محبت تھی اس بات کا اندازہ اس اقتباس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے،مولانا سالک فرماتے ہیں: ”ان کے گدازقلب اور رقت احساس کا یہ عالم تھا کہ جہاں ذرا حضور سرورکون ومکانکی رافت ورحمت یا حضور کی سروری کائنات کا ذکر آتا تو حضرت علامہ کی آنکھیں بے اختیار اشک بار ہوجاتیں اور دیرتک طبیعت نہیں سنبھلتی۔

“(بحوالہ: اقبال اور عشق رسول، پروفیسر سیدمحمدعبدالرشید، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی،1977،ص:48)
علامہ اقبال سید عطا اللہ شاہ بخاری سے فرمایا کرتے تھے کہ مولانا مجھے قرآن کریم سنائیں، وہ تلاوت شروع کردیتے اور علامہ اقبال سنتے جاتے اور روتے جاتے یہاں تک کہ ہچکیاں بندھ جاتیں اور آپ سید عطا اللہ شاہ بخاری  سے کہتے کہ قرآن پڑھنا آپ پر ختم ہے اور وہ آپ سے کہتے کہ ڈاکٹر صاحب" قرآن سمجھنا آپ پر ختم ہے"۔

قرآن کریم کے عمیق مطالعہ اور سیرت پاک کے بھرپورعلم نے ان کو ایک سچا عاشق ِ رسول بنا دیا تھا۔ فقیر سید وحید الدین اپنی کتاب ”روزگار فقیر“ میں ان کے بارے میں یوں رقمطرازہیں:”ڈاکٹر صاحب کا دل عشق رسول نے گداز کر رکھا تھا۔ زندگی کے آخری زمانے میں تو یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بندھ جاتی تھی اور وہ کئی منٹ تک مکمل سکوت اختیار کر لیتے تھے تاکہ اپنے جذبات پر قابو پا سکیں اور گفتگو جاری رکھ سکیں۔

“ 
ناموس رسالت پر مر مٹنے والے عاشقانِ رسول کی فہرست میں غازی علم دین کا نام عظیم المرتبت ہستی کے طور پر لیا جاتا ہے، انکو جب شہید کیا گیا توعاشقِ رسول کا جنازہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے دور دراز سے لوگوں کا سیلاب امڈ آیا تھا ، جنازہ میں علامہ اقبال بھی شامل تھے انہوں نے غازی علم دین کے بارے میں اس وقت فرمایا " اج ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا"۔

 
حضور وجہ تخلیق کائنات ہیں اور اس بات کو علامہ اقبال نے شعری پیرائے میں انتہائی خوبصورت انداز میں سمویا ہے، فرماتے ہیں:
ہونہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
خودی کی تکمیل کے لیے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے آپ کے نزدیک ان میں عشق رسول مرکزی اہمیت رکھتا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے
ان کے نزدیک محبت رسول اور عشق ہی دین و دنیا کی کامیابی کی کنجی ہے، عشق رسول کی بدولت ہی زمان و مکاں ، زمین و آسماں پر اسے تصرف حاصل ہو سکتا ہے۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آپ کے فارسی کلام میں بھی عشق رسول میں ڈوبے ہوئے اشعار ملتے ہیں ، ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ حضور کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کردو اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کو اپنا شعار بنا لو تو تمہیں ایسی قوت حاصل ہوجائے گی کہ بحر و بر پر تسلط قائم ہوجائے گا۔

 
بر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحر و بر در گوشہ دامان اوست
علامہ اقبال کے فارسی مجموعہ کلام ’اسرارخودی‘ میں ایک عشق میں ڈوبی ہوئی مثنوی ہے:
عاشقانِ او ز خوباں خوب تر
خوش تر و زیبا تر و محبوب تر
دل زعشق او توانائی می شود
خاک ہم دوشِ ثریا می شود
خاک بخدا ز فیض او چالاک شد
آمد اندر وجد و بر افلاک شد
در دلِ مسلم مقام مصطفی ست
آبروئے ما ز نام مصطفی ست
فرماتے ہیں کہ ”اور وہ معشوق کیسا ہے۔

؟ دنیا کے تمام حسینوں سے حسین تر اور محبوب تر، اس کے عشق سے دل توانا ہوتے ہیں۔ اور خاک بھی بلندہوکر ہم دوشِ ثریا ہوجاتی ہے۔ اس کے فیض سے خاکِ عرب پستی ذلت سے اٹھ کررفعت عزت واقبال کی انتہا کو پہنچ گئی۔ وہ معشوق ’مقام مصطفی‘ ہے جوہرمسلمان کے دل میں موجود ہے۔ ہرمسلمان حضور کے نام پرمرتا ہے ا ور دعوی کرتا ہے کہ میرا دل حضور کی محبت سے خالی نہیں ہے۔

ہم میں سے کوئی جب غلطی کرتا ہے تو اپنے مارے شرمندگی کے اپنے بزرگوں کے سامنے جانے سے کتراتا ہے، تو ایک عاشق کا اس معاملے میں کیا حال ہوگا، کیا خوب فرمایا انہوں نے کہ اے اللہ روزمحشرمجھے میرے محبوب کے سامنے شرمندہ نہ کرنا۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
یا اگر بینی حسابم ناگزیر
از نگاہ مصطفےٰ پنہا بگیر
ترجمہ: اے خداوندقدوس تو تو دونوں جہاں سے بے نیاز ہے اورمیں فقیرومحتاج ہوں۔

تیری بے نیازی کا تقاضا تو یہ ہے کہ محشر کے دن میرے عذر قبول فرما۔ اور اگرمیرا حساب لینا ضروری ہے تو (میرے محبوب) محمدمصطفی کی نظروں سے پوشیدہ لینا۔ تاکہ میرے محبوب کے سامنے مجھے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ اقبال ایک سچے عاشق رسول تھے اوران کی سیرت اور ان کے کلام میں عشق رسول کی جھلک موجود ہے، چاہے وہ ان کے شعری افکار ہیں یا ان کے نثری اقوال، خدا ان پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں بھی سچا عاشق رسول بنائے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

allama Iqbal aik sacha ashiq rasool is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 November 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.