اپنی جیب میں چھپے جاسوس سے ہوشیار رہیں

سمارٹ فون میں لوکیشن اور ٹریکنگ کی خصوصیات مشکلات اور پریشانیوں کا باعث بن سکتی ہیں، سمارٹ فون صارفین کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔بلا شبہ سمارٹ فونز میں موجود”جی پی ایس ریسیور“ انتہائی کارآمد فیچر ہے

پیر 6 اگست 2018

apni jaib mein chupay jasoos se hooshiyar rahen
سمارٹ فون میں لوکیشن اور ٹریکنگ کی خصوصیات مشکلات اور پریشانیوں کا باعث بن سکتی ہیں، سمارٹ فون صارفین کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔بلا شبہ سمارٹ فونز میں موجود”جی پی ایس ریسیور“ انتہائی کارآمد فیچر ہے، اسی فیچر کی بدولت سمارٹ فون کا صارف نہ صرف نقشوں کی مدد سے راستہ تلاش کر سکتا ہے بلکہ اس کے گم ہونے کے امکانات بھی خاصے محدود ہو جاتے ہیں۔

دراصل جی پی ایس ڈیٹا اور موبائل سروس فراہم کرنے والی کمپنی کے ٹاور کے باہمی رابطے کی جانکاری کے ذریعے کسی بھی سمارٹ فون صارف کی لوکین یعنی جائے قیام کا پتہ چلانا اب مشکل نہیں رہا۔ اس کے علاوہ بھی کئی حوالوں سے لوکیشن یا ٹریکنگ کی سروس انتہائی مفید ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی ہنگامی صورتحال میں ایمبولینس یا فائربریگیڈ کا محکمہ اس سروس کو استعمال کرتے ہوئے انتہائی سرعت سے مطلوبہ مقام پر بہ آسانی پہنچ سکتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ فیچر اس قدر کار آمد ہے کہ اگر خود متاثرہ فرد کو بھی اپنی لوکین یا ایڈریس کا علم نہ ہو تو بھی اس ٹریکنگ فیچر کی بدولت وہ کسی کو اپنے مقام کے بارے میں آگاہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح ایپل کمپنی کے تیار کردہ آئی فون میں ”فائینڈ مائی فرینڈز“نامی ایپلی کیشن انسٹال کر کے آپ اپنے دوستوں کو با آسانی ڈھونڈ سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی لوکیشن سروس بھی”آن “ ہو۔

کئی ترقی یافتہ ممالک میں والدین اپنے بچوں کی حفاظت کے پیش نظر ان کی لوکیشن جاننے کے لیے سمارٹ فون کی ٹریکنگ سروس ہی کا سہارا لیتے ہیں۔ بعض کمپنیاں خصوصی طور پر والدین کو ان کے بچوں کی وزٹ کی گئی جگہوں کے بارے میں گاہے بگاہے پیغامات بھی بھیجتی رہتی ہیں۔ تاہم اس فیچر کی ”گرے سائیڈ“یعنی اس تصویر کا دوسرا رُخ خاصا بھیانک ہے کیونکہ ان سب خوبیوں اور فوائد کے باوجود اگر ٹریکنگ یا لوکیشن سروسز کا استعمال بدنیتی سے کیا جائے تو یہ صارف کی زندگی اجیرن بنا دیتی ہیں اور اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔


الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے مطابق سمارٹ فون کا یہ فیچر زیادہ تر ہیکرز اور تجارتی اداروں کے کام آتا ہے کیونکہ ہیکرز صارفین کا جنی ڈیٹا اور معلومات چرا کر انہیں بلیک میل کرنے اور مئوخرالزکران کی پرائیویسی یعنی نجی زندگی سے متعلقہ معلومات کو اپنے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔حال ہی میں ایک تحقیق سے یہ چشم کشا انکشاف ہوا ہے کہ لوکیشن اینڈ ٹریکنگ سروسز سے نجی معلومات لیک ہونے کا ایک بڑا خطرہ تصاویر کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

بہت سے صارفین کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا سمارٹ فون تصاویر بنانے کے عمل کے دوران تاریخ ، وقت اور اس تصویر کی تکنیکی معلومات کے ساتھ ساتھ لوکیشن یعنی جس مقام پر وہ تصویر بنائی گئی ہو، ان سب معلومات کو تصویر کا حصہ بنا دیتا ہے۔ ماہرین نے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے کئی تصاویر اٹھا کر اس کا بہ آسانی پتہ لگالیا کہ یہ تصاویر کس مقام پر بنائی گئی تھیں۔

صارفین کو اس بات کا لازماََ علم ہونا چاہیئے کہ سمارٹ فون سے لی گئی تصاویر میں بھی لوکیشن کی معلومات چھپی ہوسکتی ہیں، اگر ان تصاویر کو انٹرنیٹ پر شیئر کیا جائے تو یہ ممکنہ طور پر آپ کے کئی بھید کھول سکتی ہیں۔ اس صورتحال سے بچنے کے لئے آپ کیمرہ سیٹنگ میں جا کر لوکیشن سے متعلقہ اصول و ضوابط کو تفصیلاََ پڑھ کر اپنے سمارٹ فون کو تصاویر میں لوکیشن کی معلومات ڈالنے سے باز رکھ سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ انٹرنیٹ یاسوشل میڈیا پر تصاویر کو براہ راست شیئر کرنے کی بجائے کسی دوسرے سافٹ ویئر سے گزار کر ایسی سبھی معلومات کو منہا کر کے نصاویر کو جاسوسی کا محرک بننے سے روکا جا سکتا ہے۔
سمارٹ فون کے صارفین کو جان لینا چاہیے کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آپ چاہے آئی او ایس استعمال کرتے ہوں یا اننڈرائیڈ۔۔۔آپ کا سمارٹ فون آپ کی حرکات پر نظر رکھنے کے علاوہ دیگر کئی قسم کی معلومات کا مکمل ریکارڈ بھی اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔

یہ ڈیٹا اس وقت کار آمد ثابت ہوتا ہے جب آپ یاد کرنا چاہیں کہ کس وقت آپ کہاں تھے یا آپ کس جگہ پر گئے تھے؟لوکیشن سروس ہی کی بدولت آپ کے جاب اور بزنس کی سرگرمیاں، بچوں کے معاملات، قریبی دوستوں کے پتے، آنے جانے کے اوقات محفوظ ہوتے رہتے ہیں حتیٰ کہ یہ فونز آپ کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان دنوں آپ کون سا رجحان رکھتے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کچھ کمپنیاں آپ کی زندگی ی کے بارے میں کیا کچھ محفوظ کر کے بیٹھی ہوئی ہیں۔

ماہرین یہاں تک بتا چکے ہیں کہ اکثر اینڈرائیڈ سمارٹ فونز لوکیشن سروسز بند ہونے کی صورت میں بھی لوکیشن کی معلومات اکٹھی کر کے گوگل کو بھجواتے ہیں، جس کا انکشاف حال ہی میں نیوز ویب سائٹ کوارٹز کی طرف سے جاری کردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے کوارٹز کے مطابق اگر سینگز میں لوکیشن سروسز بند بھی ہوں ، حتیٰ کہ اگر فون میں سم کارڈ نہ بھی ہو تو بھی سمارٹ فونز یہ معلومات اکٹھی ک سکتے ہیں۔

اگرچہ اپنی بے پناہ خوبیوں کی بنا پر سمارٹ فون ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے لیکن یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مارٹ فون پر انسٹال کی جانے والی اکثر ایپلی کیشنز اپنے صافین سے ان کی لوکیشن تک کی رسائی مانگتی ہیں، اگر چہ بہت سی ایپس اس سہولت کے بغیر کام ہی نہیں کر سکتیں لیکن ہیکرز کی تیار کردہ ایسی ایپس کا بھی کوئی شمار نہیں جو آپ کی لوکیشن تک رسائی حاصل کر کے نہ صرف نقل و حمل کی تفصیلات جمع کرتی ہیں بلکہ ڈیٹا چرا کر بلیک میلنگ بھی کرتی ہیں۔

آی ٹی ماہرین کے مطابق لوکیشن سروسز کا بے دھڑک استعمال مصیبتوں اور پریشانیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ لویشن ٹریکنگ سروسز یا مخصوص ایپس ”آن “ کر کے ایک صارف جانے انجانے میں خود کو ایک جاسوس کے حوالے کر دیتا ہے۔ لوکیشن سروسز اور ٹریکنگ ایپس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ نہ صرف اپنے صارف کی وزٹ کی گئی جگہوں کا ریکارڈ رکھتی ہیں بلکہ ان میں ایسا میکنزم بھی موجود ہوتا ہے جو اس بات کو بھی ریکارڈ کرتا ہے کہ صارف سو یا کسی وقت اور نیند سے بیدار کب ہوا؟لوکیشن سورسز اور ٹریکنگ ایپس کے باعث ہی سمارٹ فون پر دیگر ایپس اپنے صارفین کو مختلف شخصیات سے رابطے یا مخصوص مقامات کے ھوالے سے اکثروبیشتر گائیڈ کرتی ہیں۔

اکثر ایپلی کیشنز لوکیشن اور ٹریکنگ کے قواعد و ضوابط کے حوالے سے متعلقہ لٹریچر اس قدر مبہم اور طویل شائع کرتی ہیں کہ شاید ہی کوئی صارف اس کا مکمل مطالعہ کرنے کے بعد اس سے استفادہ کرتا ہوگا۔ گوگل ، مائیکروسافٹ، سکائپ، یاہو، فیس بک، یوٹیوب، اے او ایل اور ایپل جیسی کمپنیاں اپنے صارفین کا ڈیٹا حکومت سمیت دیگر کئی اداروں کو فراہم کرتی ہیں جو اسے قومی سلامتی یا اپنے کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

اداروں کی جانب سے لوکیشن اور ٹریکنگ سروسز تک رسائی بھلے کسی اچھے مقصد کے لئے ہی کیوں نہ ہو ، اسے بنیادی انساتنی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔آئی ٹی ماہرین اس حوالے سے گونا گوں خدشات کا بھی شکار ہیں کہ آیا سمارٹ فونز میں کمزور کو ڈنگ سسٹم کے باعث کوئی بھی ماہر جب چاہے کسی بھی سمارٹ فون صارف کی انتہائی درست جگہ پر موجود گی کا پتہ چلا سکتا ہے؟جرائم پیشہ افراد بھی ان فیچرز کی بدولت اپنے کار کو ڈھونڈ لیتے ہیں بالخصوص ڈکیتی اور اغوا ء کاری جیسے جرائم میں ملوث افراد اکثر لوکیشن اور ٹریکنگ کے فیچر ز سے ہی شکار کو پھانستے ہیں۔

ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات میں ٹریکنگ کا بڑا عمل دخل ہے۔ سمارٹ فون صارفین کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اینڈرائیڈ فونز میں ٹریکنگ کا کام گوگل میپ کرتا ہے جو آپ کی لوکیشن کو ٹریک کر کے گوگل کو بھیجتا ہے، تاہم لوکیشن کی معلومات کی ترسیل کو روکنا گوگل نے بہت آسان بنایا ہوا ہے اور آ پ اسے مکمل طور پر ڈیلیٹ بھی کر سکتے ہیں ۔

اس مقصد کے لئے آپ کو اپنے گوگل اکائنٹ پر جا کر لوکیشن، ہسٹری کو سوئچ آف کرنا ہوگا، اسی جگہ آپ کو لوکیشن ہسٹری ڈیلیٹ کرنے کا آپشن بھی ملے گا۔ ایپل نے بھی آئی فونز کے لئے اس سے ملتا جلتا سسٹم رکھا ہے، اس کے لئے فون کی سیٹنگز میں جا کر پرائیویسی پر کلک کریں جہاں لوکیشن سروسز کا آپریشن ملے گا۔ اس آپشن کے اندر جا کر نیچے آئیں یعنی سکرول ڈاؤن کریں اور سسٹم سروسز کا آپشن ڈھونڈکر لوکیشن فریکوئنٹ یعنی اکثر اوقات وزٹ کی گئی جگہوں کا انتخاب کرنے پر آپ کو ایک لمبی لسٹ میں پتا چلے گا کہ آپ کہاں کہاں جا چکے ہیں اور کس جگہ کتنی بار گئے۔

۔۔؟
اس حوالے سے ماہرین اکثر یہی مشورہ دیتے ہیں کہ لوکیشن اور ٹریکنگ سے متعلقہ ایپس اور سروسز کو بلا ضرورت درپیش ہو تو انہیں استعمال کے بعد بند کردیں۔ اس طرح سوشل میڈیا پوسٹس یا تصاویر کو لوکیشن کے بارے میں معلومات شیئر کرنے کی قطعاََ اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ ایسا کرتا آپ کے جانی، مالی یا سماجی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

apni jaib mein chupay jasoos se hooshiyar rahen is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.