اقصی کے بند دروازے

اگر کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور اس کے لیے آواز بلند کرنا قومی فریضہ ہے تو مظلوم اسلامی ممالک کے لیے آواز اٹھانا اسلامی فریضہ جبکہ قبلہ اول کے لیے صدائے احتجاج لگانا ایمان کا مسئلہ ہے یہ مسئلہ فلسطین نہیں ہے بلکہ قبلہ اول کا مسئلہ ہے

بنت مہر جمعہ 22 مئی 2020

aqsa ke band darwaje
قبلہ اول کی مظلومیت پہ نوحہ کناں قلم کے آنسووؤں سے چند الفاظ القدس پہ جاری ظلم کے حوالے سے لکھے توکچھ دوستوں اور عزیزوں نے اس پہ کافی اعتراض کیا ان کا نقطہ اعتراض یہ تھا کہ صرف فلسطین اور القدس ہی کیوں، کشمیر کے مسلمانوں کی مشکلات اوران پہ جاری ظلم و ستم کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا اس اعتراض کے جواب میں ان عزیزوں کو کشمیر اور دنیا بھر کے مسلمانوں پہ جاری مظالم پہ مشتمل اپنی حقیر کوشش پہ مشتمل چندتحاریر دکھا کر ان سے صرف ایک سوال کا جواب چاہا کہ امت مسلمہ اور مسائل امہ میں یہ تفریق کیوں ظلم چاہے کشمیر میں ہو یا فلسطین میں، عراق میں ہو یا شام میں،برما میں ہو یاچیچنیا میں، سب کے لیے آواز اٹھانا بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے 
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بیتاب ہو جائے
اگر کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور اس کے لیے آواز بلند کرنا قومی فریضہ ہے تو مظلوم اسلامی ممالک کے لیے آواز اٹھانا اسلامی فریضہ جبکہ قبلہ اول کے لیے صدائے احتجاج لگانا ایمان کا مسئلہ ہے یہ مسئلہ فلسطین نہیں ہے بلکہ قبلہ اول کا مسئلہ ہے اس سرزمین کو تقدس اس خدا نے بخشا جس پر ہم ایمان لاتے ہیں یہ محض قبلہ اول کے حصول کی جنگ نہیں بلکہ حرمین پر ناجائز قبضے کا معرکہ ہے یہ دشمن کی فکری یلغار کی کامیابی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم قبلہ اول پر حق یہود ذہنی طور پر تسلیم کر چکے ہیںآ ج فلسطین کے بچوں اور عورتوں سمیت ہر فرد نے القدس کو صیہونی قبضے سے چھڑانے کے لیے ہاتھ میں پتھر تھام رکھا ہے اور اگر ہم لوگ غیرت ایمانی کوبروئے کار لا سکیں تو ہمیں اندازہ ہو گا یہ پتھر جو نہتے فلسطینی مسلمان صیہونیوں کی جانب پھینکتے ہیں اس کا اصل ہدف سوئی ہوئی امت کی غیرت مرحومہ ہوتی ہے جو ان پتھروں کی کھنک اور گولیوں کی گرج پر بھی زندہ نہیں ہوتی ۔

(جاری ہے)

بس ایک روایت کو نبھانے کے لیے رمضان المبارک کے جمعتہ الوداع کو چند لمحات کے لیے زندہ ہوتی ہے جس کے تحت جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں لیکن اس ایک دن کے بعد ہم اور ہماری غیرت سال بھر کے لیے پھر مر جاتی ہے اور قبلہ اول کی غمگین صدائیں ہم سے یہ پوچھتی ہیں کہ قبلہ اول کے لیے صرف ایک دن ہی کیوں؟یہود کے ظلم و ستم کے باوجود دنیا انہیں ہیرو اور ہم مسلمانوں کو دہشت گرد کیوں سمجھتی ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے ناجائز مقاصد کے حصول لیے یہودوں کے ایک ایک فرد نے اپنے حصے کا کام کیا انہوں نے سال میں فقط ایک دن احتجاج کر کے اتنی کامیابیاں حاصل نہیں کیں بلکہ ان کے سرمایہ داروں نے ان مقاصد کے لیے بے دریغ پیسہ لٹایا ان کے منصوبہ سازوں نے ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دی ان کے خواتین اور بوڑھوں تک نے جو بن پڑا کیا سیاسی لیڈروں سے لیکر مذہبی رہنماوؤں تک سب نے فقط یہودیت کی بھلائی کے لیے کام کیااور تب جا کر اس غلبے کو پایا لیکن ہم مسلمان ایک دوسرے کو الزام دیتے پائے جاتے ہیں مسلمان اکثریت یہ کہتی پائی جاتی ہے کہ فلسطینیوں پر یہ آفت ان کے اپنے ہاتھوں کی پیداوار ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ فلسطینیوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی زمین بیچ کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے لیکن یہ ان کی غلطی تھی جس کا ادراک انہیں وقت گزرنے کے ساتھ ہو گیا لیکن ہمیں تو وقت بھی ہماری غلطی سمجھانے میں ناکام رہا ہم اپنی غلطیوں کے لیے کسی کو الزام دے کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

۔۔
 قبلہ اول کی حفاظت صرف فلسطینیوں کا ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کا اجتماعی فرض ہے لیکن افسوس ہم لوگ اس وقت تک ہوش کے ناخن نہیں لیتے جب تک پانی سر سے اونچا نہ ہو جائے آج قبلہ اول پہ ایک دن احتجاجی مظاہرے کرنے کے بعد سارا سال کی خاموشی انہیں ان کے مقاصد کی تکمیل تک رسائی آسان بناتی ہے اور اس ایک مقصد کو حاصل کرنے کے بعد اسی پہ قناعت نہیں کریں گے بلکہ لارڈ رچرڈ کی موت کے بعد اس کی دستاویزات سے برآمد شدہ ''عظیم تر اسرائیل'' کے نقشے کے مطابق یہود کا ہدف نیل سے دجلہ اورصنوبر والی زمین( لبنان) سے کھجوروں والی زمین (مدینہ منورہ) تک پھیلا ہوا ہے اور ہم لوگ بخوبی جانتے ہیں یہودیوں کے ہدف کے مطابق اب کونسا حصہ باقی رہ گیا ہے قبلہ اول پر سے ہماری اس لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے القدس کے بعد خدانخواستہ حرمین شریفین پر بھی یہود نے ناجائز قبضہ کر لیا تو ہم کیا کر سکیں گے؟ کیا سال میں ایک دن احتجاج کرنے کے بعد باقی دن حرمین شریفین کو فراموش کیے رکھیں گے ؟ کیا ہماری سستی اور لاپرواہی یہود کو شیر نہیں کر رہی؟ اور ہماری غفلت کی وجہ سے ہمارے دو اہم ترین مقدس مقامات بھی ہم سے چھن گئے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ یہ سوالات مسلمانوں کی غیرت کو درپیش وہ چیلنج ہیں جس کے جواب کی تیاری پر ہمارا مستقبل تیار ہو گا قبلہ اول کے لیے احتجاج کرنا بجا لیکن ایک دن احتجاج سے ہم قبلہ اول کا کونسا حق ادا کر رہے ہیں؟
یاد رکھیں جس دن مسلمانوں کو اپنے ذاتی مفاد سے زیادہ اجتماعی مفاد کی فکر ہونے لگی اور دنیاوی زندگی سے زیادہ آخرت میں رب ذوالجلال اور اقصی کے سامنے جوابدہ ہونے کا خیال ہو گیا اس دن القدس کی مظلومیت کا آخری دن ہو گا بس مسلمانوں میں شعور پیدا ہونے کی دیر ہے لیکن اگر یہ شعور اب بھی پیدا نہ ہوسکا تو پھر کل آنے والے ہولناک عذاب کو روکنا ہم میں سے کسی کے بس میں نہ ہوگا
لہولہان شجر چیختے ہیں صدیوں سے
تمہاری تیشہ زنی بد دعا کی زد پر ہے
سمٹنے والا ہے یہ کاروبار تیرہ شبی
تمہاری رات چراغ حرا کی زد پر ہے
کھلیں گے مسجد اقصیٰ کے بند دروازے 
تمہاری ساری خدائی، خداکی زد پر ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

aqsa ke band darwaje is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 May 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.