عوام اور ملک کا لوٹا گیا خزانہ کب واپس آئے گا!

جب کسی حکمران نے اپنی کرسی کو طاقتور سمجھنا شروع کر دیا اس کے زوال کی ابتداءاسی روز سے شروع ہو جاتی ہے اس کی سب سے بڑی مثال مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی طرز حکومت سے شروع ہو گئی

بدھ 9 اگست 2017

Awam Our Mul Ka Loota Gaya Khazana Kab Wapis Ay Ga
امیر محمد خان:
جب کسی حکمران نے اپنی کرسی کو طاقتور سمجھنا شروع کر دیا اس کے زوال کی ابتداءاسی روز سے شروع ہو جاتی ہے اس کی سب سے بڑی مثال مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی طرز حکومت سے شروع ہو گئی جن کا بقول پی پی پی عدالتی قتل کیا گیا ۔ پی پی پی کا یہ دعویٰ صحیح بھی ہے چونکہ بعد کے واقعات میں جن ججز نے پھانسی کی سزا دی تھی ان میں سے کچھ نے بعد میں فیصلہ دینے کی وجہ یہ بتائی گئی انہیں شک و شبہ کی گنجائش دی جا سکتی تھی مگر چونکہ جج صاحب بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار سے ناراض ہو گے ۔

اس لیے پھانسی کی سزا دی گئی جو میرے نزدیک ایک مجرمانہ فعل تھا اور جس روز اس جج نے یہ بات کہی اسے اسی دن گرفتار کرلینا چاہیے تھا کہ وکیل سے ناراض ہو گے تو بھٹو کو پھانسی دے دی ۔

(جاری ہے)

ہمارے ہاں ایسے فیصلے ہوتے رہے ہیں کبھی نظریہ ضرورت کے تحت ہو گے ۔کبھی سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار کے صاحبزادے کے معاملات سے باپ کو علیحدہ کر دیا گیا۔ اب پانامہ لیکس جس میں پاکستان کے 4 سولوگوں کے نام شامل ہیں مگر اقتدار کی حوس کی دوڑ میں تحریک انصاف، پھر جماعت اسلامی پھر ذاتی لڑائی میں شیخ رشید اس دوڑ میں شامل ہو گے۔

میاں نوازشریف اس اعتماد کی بناءپر کہ ” میں نے کوئی کرپشن نہیں کی “ جو ٹھیک بھی ہے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کئی مرتبہ میاں صاحب کے خلاف مقدمہ یا الزام کرپشن کا نہیں بلکہ جھوٹ یا منی ٹریل کا ہے جبکہ حزب اختلاف عوام کے سامنے یہ ہی کہتی رہی کہ وزیراعظم کرپٹ ہے ان کے بچے کرپٹ ہیں چونکہ ”کرپشن“ کا لفظ پاکستان کے عوام گزشتہ ستر سال سے سنتے آرہے ہیں اور بد قسمتی سے کرپشن کے خلاف نہ ہی کسی ” اعلیٰ عدالت “ نہ کسی ادارے نے کرپشن کے سلسلے میں عوام کو کبھی خوش خبری دی چونکہ عوام کو دلچسپی اسی میں ہے کہ کرپشن کا مطلب عوام اور ملک کا خزانہ لوٹا گیا ہے ۔

جو عوام کو اور معصوم ملک کو واپس ملے ۔ اس وقت اعلیٰ عدالت میں 75سے زائد میگا کرپشن کے مقدمات ہیں ان میں پاکستانی عوام کا اربوں روپیہ چوری کرنے والوں کے نام ہیں نہ اس مقدمے کی فائل اوپر آتی ہے نہ ہی اس پر آج تک کوئی کارروائی ہوئی ۔نیب نے بدعنوان لوگوں پر ہاتھ ڈالا مگر نہایت بے شرمی سے لٹیروں سے یہ کہا گیا کہ مقدمہ ختم کرنے کے لیے ایک حصہ رکھ لو ایک حصہ ملکی خزانے میں واپس کردو۔

سندھ میں کرپٹ لوگ پکڑے گے انہوں نے نیب ختم کر کے اپنا ہی احتساب ادارہ بنا لیا اب کون پکڑے گا ۔ اس ملک کی کسی عدالت نے اور کسی ادارے نے یہ نہیں پوچھا کہو کہ چوری کے ڈالرچوری سے ملک سے باہر لے جانے والی ایان علی کو کیوں چھوڑ دیا گیا ؟۔جس نے ایان علی کو پکڑا تھا اس افسر کو سفاکی سے قتل کیا گیا وہ کس نے اسے ایان علی ک پکڑنے کی سزا دی ۔ اس طرح کے کئی معاملات ہیں جو عوام کی دلچسپی کا باعث ہیں ۔

کہا جا رہا ہے کہ خلیجی ممالک میں اقامہ رکھنے کی بناءپر وزیراعظم کو پاکستانی عدالت نے حکومت سے نکال دیا۔ میرے دوست نے کہا کہ جدہ میںتو سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں اقامہ نہ ہونے کی بناءپر ملک بدر کیا جاتا ہے ۔ بات اقامہ ہونے نہ ہونے کی نہیں بلکہ غلط بیانی کا ہے سوال یہ بھی ہے کہ پانامہ لیک کی دستاویز میں جب نواز شریف کا نام ہی نہیں تھا تو یہ سب کچھ کیوں۔

مقدمہ کی تمام کاروائی چاہے وہ جے آئی ٹی ہو یا کوئی اور ادارہ سوالات طلب ہے۔ اگر صادق اور امین ہونے کا معاملہ ہے تو پاکستان کے عوام عدالت کا ہر قدم پر ساتھ دیں گے اور اگر ہمارے اعلیٰ ادارے نہائت ایمانداری سے کام کریں اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے صادق اور امین کی تلاش کریں تو اس ملک میں کئی سال حکومت نہیں بن سکے گی۔چونکہ تمام سیاسی جماعتیں نہ صرف جماعتیں کئی ادارے ، اس سے منسلک لوگ کس بھی طرح صادق اور امین کے معنی پر پورا نہیں اترتے ۔

بہر حال اب عدالت فیصلہ دے چکی ہے اب ایسا ہی مقدمہ عمران خان کے خلاف موجود ہے جہانگیر ترین اور اس کے بعد سلسلہ چل نکلے گا۔ پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں صرف یونیفارم والوں نے بغیر مقررہ مدت کے حکومت کی کہیں 11سال کہیں9 سال جبکہ 70برس میں جس نے عوام کے ووٹ لے کر ”Executive“ پوزیشن حاصل کی۔ غریب عوام جو ریڑھیوں ، کرسیوں پر بیٹھ کر ، اسٹچر زلیٹ کر ووٹ ڈالنے آتے ہیں انہیں ایک جملے سے برطرف کر دیا جاتا ہے ۔

پھانسی دے دی جاتی ہے ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والوں کو ایک منٹ کے اعلان سے گھر بھیج دیا جاتا اور سیاسی شہید کر کے مارکیٹ میں پھینک دیا جاتا ہے ۔ یہ بات اب مسلم لیگ کے زعماءبھی کہیں گے کہی وزیراعظم کو پانچ سال مکمل نہیں کرنے دئے جاتے یہ بات انہیں بھی سوچنا چاہیے تھی جب وہ پی پی پی کے یوسف رضا گیلانی کے اقتدار چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہوئے بھی سوچنا چاہیے تھا۔ ان معاملات سے پاکستان کی ترقی روکتی ہے کروڑ عوام کی جمہوریت کی توہین ہوتی ہے۔ ملک میں ترقی رکتی ہے چاہیے وزیر اعظم کوئی بھی ہو اب سیاست دان جو بھی اقتدار کے خواہش رکھتے ہیں یا خواب دیکھتے ہیں سب لائن میں کھڑے ہو جائے اور طریقہ کار سوچیں کہ صادق اور امین اپنے آپ کو کیسے ثابت کرنا ہے جو نا ممکن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Awam Our Mul Ka Loota Gaya Khazana Kab Wapis Ay Ga is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 August 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.